بے روزگاری اور سبز باغ


فواد چوہدری صاحب وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے یہ فرما کر عوام کو مزید نا امیدی کی راہ دکھائی ہے کہ عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی جانب نہ دیکھیں، حکومت تو کئی ادارے بند کرنے جا رہی ہے، یعنی تحریک انصاف کی حکومت نے جو کروڑوں نوکریوں کی بات کر کے جو سبز باغ دکھایا تھا اس کی خزاں اب ساکنان وطن کو بھگتنا ہوگی۔

ایک بات تو طے ہے کہ ملک خداداد اس وقت معاشی نا ہمواری کا شکار ہے وطن عزیز میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے اس وقت اس طرح کے بیانات اے عوام میں بداعتمادی اور بددلی بڑھے گی۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت فرماتے ہوئے یقیناً کچھ حقائق ضرور بیان کیے جیسے : ان کا یہ فرمانا کہ نجی شعبہ ملازمتوں کی فراہمی میں آگے ہوتا ہے جس طرح دیگر ممالک میں ہمیں دکھائی دیتا ہے مگر موصوف یہ نہیں بتا سکے کہ نجی شعبے کو سرکاری سطح پر ایسی کون سی مراعات دی جا رہی ہیں کہ وہ مزید ملازمتیں فراہم کر سکے۔

کچھ روز قبل حکومت نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے پی ایم ڈی سی کے ادارے کو ختم کرتے ہوئے اس کے تمام ملازمین کو فارغ کر دیا اور ان معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک نو رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے اس ادارے کے دو سو ملازمین اس کام پر مامور تھے جو وفاقی محکمہ صحت کے سیکرٹری کے ماتحت افراد آسانی سے کر سکتے تھے یقیناً اس طرح کے ادارے ہماری معیشت پر بوجھ ہیں گذشتہ ادوار میں سیاسی بنیادوں پر ہر ادارے میں نا اہل افراد کی کھیپ بھرتی کرنے سے سرکاری اداروں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی بلکہ بہت سے ادارے اور ملازمتیں فقط اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے تخلیق کی گئیں۔

پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سیاسی، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر ملازمتوں کی فراہمی کو روکنا ہوگا۔ ملازمت صرف اور صرف میرٹ پر دی جانی چاہیے۔ نواز شریف نے عطاء الحق قاسمی کو ناروے میں پاکستان کا سفیر اور پھر پی ٹی وی کا چیئرمین بنایا تو پی پی پی نے قومی فضائی کمپنی کو اپنے نا اہل کارکنوں سے بھر دیا جہاں ایک فرد کی ضرورت تھی وہاں پانچ پانچ افراد تعینات کیے گئے اور محض سیاسی وابستگی کی بنا پر شیری رحمان کو امریکہ میں پاکستان کی سفیر تعینات کر دیا اس طرح کے اقدامات سے بے روزگاری اور معاشرتی ناہمواری میں اضافہ ہوتا رہا غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے رہے۔

اگر حکومت بے روزگاری کو واقعی ختم کرنا چاہتی ہے تو اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو مراعات دینا ہوں گی انہیں ٹیکس میں رعایت دینا ہوگی تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، بیروزگاری میں کمی آئے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔ اس سلسلے میں سیاحت کا فروغ اب سے اہم ہے جس کے لیے سیاحتی مقامات کو پبلک پرائیویٹ شراکت داری سے بہتر بنانا ہوگا ذرائع مواصلات کو بہتر کرنا اور سہولیات میں اضافہ کرنا پڑے گا جس سے ملازمتوں اور کاروبار کے مواقع پیدا ہوں گے جن ملکوں اور علاقوں میں بیروزگاری زیادہ ہوتی ہے وہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

بے روزگاری کو کم کرنے سے بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانا آسان ہوگا۔ یہ کام یقیناً سہل العمل نہیں مگر ناممکن بھی نہیں اس حکومت کو اس کا آغاز کرنا چاہیے کیونکہ باتیں تو ابتدا سے ہی ہورہی ہیں کام بھی ہونا چاہیے ابھی نہیں تو کب؟ آپ نہیں تو کون؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).