جؤائنٹ فیملی سسٹم یا مشترکہ خاندانی نظام کی حقیقت


ہمارے ملک میں جوائنٹ فیملی سسٹم یا مشترکہ خاندانی نظام بہت عام ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم سے مراد خاندان کے تمام افراد کا ایک ہی گھر کے اندر رہنا ہے۔ اگر اس اصطلاح کو وسیع تر مفہوم میں دیکھیں تو اس سے مراد خاندان کے ساتھ ساتھ میراث کے بعد جائداد بھی اکٹھے رکھنا ہے۔ اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو ہمارے ہاں اس سسٹم کے فوائد کے بجائے نقصانات زیادہ ہیں۔ اگر میں دین اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صحابؓہ کرام اجمعیں کے ہاں تو یہ جؤائنٹ سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں تھا جسے ہم پاکستانی معاشرے کی بہت بڑی خوبی سمجھتے ہیں۔

ہمارے بیشتر دوست احباب تو دو قدم آگے بڑھ کر اس سسٹم کو اسلام کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن میرے ناقص مطالعہ کے مطابق اس سسٹم کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ بلکہ اگر تھوڑا گہرائی سے سوچیں تو مشترکہ خاندانی نظام شعائر اسلام کے خلاف نظر آتا ہے۔ جب آقا علیہ السلام نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا نکاح کیا تھا تو الگ گھر کا مطالبہ بھی فرمایا تھا۔ اس لیے بھی مجھے تو یہ نظام شعائر اسلام کے خلاف نظر آتا ہے کہ کیا جوائنٹ فیملی سسٹم میں بآسانی پردہ کرنا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس سسٹم میں تو محرم و نامحرم کی تفریق ہی مٹ جاتی ہے۔ تو پھر یہ نظام کیسے اسلام کے موافق ہوا؟

جوائنٹ فیملی سسٹم کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں چونکہ جائیداد کے انتظام و انصرام کی تمام تر ذمہ داری فرد واحد پر ڈالی جاتی ہے لہذا اکثر اوقات اسے اپنی تمام تر خواہشات کو پس پشت ڈال کر اپنی پوری توجہ صرف اور صرف اپنے خاندان کا شملہ اونچا کرنے کی طرف مرکوز کرنا پڑتی ہے۔ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ جب ایک شخص کو پورے کنبے کا کرتا دھرتا بنا دیا جاتا ہے تو اس خاندان کے دیگر ہم پلہ افراد میں احساس محرومی بڑھتا ہے۔

انسان اپنے والدین کی عنانیت تو برداشت کر سکتا ہے لیکن خاندان کے کسی دیگر فرد کی ہرگز نہیں۔ یہ سسٹم اس لحاظ سے بھی اسلام کے خلاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں تو وراثت ایک خاص اسلامی قانون کے تحت سب میں برابر تقسیم ہوتی ہے لیکن جوائنٹ فیملی سسٹم میں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعد وراثت منتقلی کی بجائے تمام جائیداد کا انتظام دیگر فرد واحد کو سونپ دیا جاتا ہے۔ وراثت منتقلی کا گویا کوئی چکر ہی نہیں ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام نہ تو اسلام کے مطابق ہے اور نہ ہی مغرب کی سوچ ہے۔ دراصل مجھے یہ نظام ہندوانہ سوچ کی پیداوار معلوم ہوتا ہے یا مخصوص لوگوں کی طرف سے صرف ذاتی مفادات کے حصول کے لئے بنایا گیا نظام معلوم ہوتا ہے جو بعدازاں ہمارے معاشرے میں ایک روایت کی طرح سرایت کر گیا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس میں خواتین کا پردہ ممکن ہی نہیں ہے تو اسی بات پر اسلام اور اخلاق کے تو یہ منافی ٹھہرا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ بالخصوص ہندو قوم پیسے کے حساب کتاب کے معاملے میں بہت لالچی قوم ہے۔

اگر ایک خاندان میں چھوٹی چھوٹی اکائیاں بنا دیں گے تو اخراجات بھی بڑھ جائیں گے کیونکہ ہر اکائی کے الگ اخراجات ہوں گے۔ لہٰذا اخراجات کو کم سے کم رکھنے کے لئے ہندو بنیے نے یہ نظام متعارف کروایا اور خاندان کے تمام تر وسائل ایک ہی فرد کے ہاتھ میں دے دیے۔ آج سال ہا سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں یہ نظام اپنی جگہ بنانے ہوئے ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ خاندان کے افراد کے مابین بظاھر تو اتفاق نظر آتا ہے مگر اندر ہی اندر بغض، کینے اور سازشیں پلتی رہتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور بالآخر اکثر یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی ہے۔ کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اسلام میں ایسے کسی سسٹم کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ وفات کے بعد صاحب جائیداد کی وراثت شرعی قوانین کے مطابق تقسیم کرو لیکن جوائنٹ فیملی میں تو ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اکثر لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم کے حق میں یہ دلیل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اتفاق میں برکت ہوتی ہے اور محبت بڑھتی ہے۔ حالانکہ مجموعی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ذرا فاصلے پر رہنے سے محبت بڑھتی بھی ہے اور برقرار بھی رہتی ہے۔ دوسری یہ تاویل دی جاتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے بارے میں ہمیشہ بہتر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے۔ لیکن جب اولاد جوان ہو جائے اور ان کی شادی کر دی جائے تو ان کی اپنی پرائیویسی ہوتی ہے، اپنے الگ مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ والد جیسے جیسے بچوں کی شادی کرتا جائے ہر بچے کو تھوڑا تھوڑا حصہ بھی دیتا جائے کہ جاؤ اپنا کماؤ اور کھاؤ تاکہ ان کو بھی ذمہ داری کا احساس ہو۔ دیگر بہن بھائیوں کی شادی پر والدین کی مکمل سپورٹ کی ذمہ داری بھی شادی شدہ بھائیوں پر ہی ڈالی جائے۔ اس سے بوڑھے والدین کے سر سے ذمہ داریوں کا بوجھ بھی کم ہوتا جائے گا۔ لیکن ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی میں آکر نیا نویلا جوڑا علیحدگی کی بات کرتا ہے تو پورا خاندان اسے انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔

اس نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا گویا سلطنت میں سے حصہ ہی مانگ لیا ہو۔ بلکہ ایسا سوچنے والے کو بھی بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خاندان کے درمیان نا اتفاقی ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اگر کوئی الگ ہو ہی جائے تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ خاندان کے دیگر افراد اس کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیتے ہیں گویا اس سے کوئی گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہو۔ ہمارے یہ رویے فراح دلی نہیں بلکہ ہماری ذہنی پستگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ البتہ اولاد کا یہ فرض ہے کہ بڑھاپے میں والدین کے دست بازو بنے، ان کو سنبھالنے خواہ الگ گھر میں ہی رہ کر کیوں نہ کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).