نواز شریف کا علاج نامکمل، دھرنا ختم شد:  طوفان وزیر اعظم کی طرف  بڑھ رہا ہے


وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر ملک میں سہانے دن آنے کی نوید سناتے ہوئے کہا  ہے کہ اب حکومت سرمایہ کاری کی طرف توجہ مبذول کرے گی جس کے بعد دھڑا دھڑ روزگار کے دروازے کھلنا شروع ہوجائیں گے۔ وزیر اعظم یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کررہے ہیں جب  مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ ملک بھر میں مظاہروں، سڑکیں روکنے اور لاک ڈاؤن کے  سلسلہ کی صورت  اختیار کرنے والا ہے اور حکومت نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلہ کو اپنی سیاسی موت کا پروانہ سمجھ کر حواس باختہ ہے۔

روزگار فراہم کرنےا ور پیدواری صلاحیت میں اضافہ کی جو نوید وزیر اعظم نے آج ایک چینی  ٹائر فیکٹری کے افتتاح کے موقع پر سنائی ہے، اس کی تکمیل تو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے  ایک سو روز میں ہونے والی تھی پھر  سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانیوں کا قصہ ہزار داستان بیان کرنے کا  سلسلہ اتنا دراز ہؤا کہ وزیر اعظم سمیت ان کی کابینہ کے نورتنوں کو این آر اور نہ دینے  کا اعلان کرنے کے علاوہ کوئی بیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب  ’این آار او  نہیں دوں گا ‘ کا وہی بیانیہ حکومت کے حلق میں ہڈی کی مانند پھنسا ہؤا ہے جسے نہ نگلا جارہا ہے اور نہ اگلنے کی ہمت ہوتی ہے۔

 چند ماہ پہلے جب تواتر سے سیاسی مؤقف تبدیل کرنے   پر  عمران خان  کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی گئی تھی تو انہوں نے بڑے یقین کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ ’بڑا لیڈر سامنے دیوار دیکھ کر  راستہ تبدیل کرنے کا فن جانتا ہے۔ اسے حکمت عملی کہتے ہیں ، یو ٹرن نہیں‘۔ ستم ظریفی کہہ لیجئے کہ  اب وہی عمران خان این آار او کی  دیوار سے سر پھوڑنے پر مجبور ہیں اور ان  کے اند چھپا بڑا لیڈر   کوئی متبادل   راستہ تلاش کرنے میں ناکام  ہے۔ اس  ’ بڑے لیڈر‘  میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ   اعتراف کرسکے کہ نواز شریف کی ملک سے روانگی کا معاملہ عدالتیں طے کرچکی ہیں اور وہی اسے واپس لانے کی ذمہ دار ہوں گی۔

 بزعم خود یہ بڑا لیڈر  ایک شدید علیل شخص  کی بیرون ملک روانگی  میں رکاوٹ بن کر دراصل بنیادی اخلاقی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی ناکام ہورہا ہے۔ اس میں غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی یہ ماننے کی ہمت کہ نواز شریف کا ملک سے جانا اس وقت صرف نواز شریف کے علاج کے لئے ہی اہم و ضروری نہیں ہے بلکہ اسے موجودہ  کمزور اور نااہل حکومت کی زندگی کے لئے بھی اہم سمجھا جارہا ہے۔ نواز شریف کی ملک میں موجودگی اور بیماری کی صورت میں پہنچنے والی تکلیف کا جتنا اثر نواز شریف  کے جسم پر مرتب ہوگا، اس سے کئی گنا زیادہ اثر حکومت کی صحت اور تسلسل پر ہوگا۔  بدقسمتی  یہ بھی ہے کہ اس صورت حال میں صرف نواز شریف بیماری کا ، ان کا خاندان  ذہنی و جذباتی تناؤ کا اور حکومت و تحریک انصاف سیاسی  انحطاط کا سامنا ہی نہیں کریں گے بلکہ اس کھینچا تانی اور سیاسی  کھیل میں ذمہ داری سے گریز کے لئے  اختیار کئے گئے    ہتھکنڈوں سے ملک کی معیشت  اور کاروباری زندگی  مزید تعطل کا شکار ہوگی۔ اسی لئے وزیر اعظم کا یہ بیان عاقبت نااندیش مشیروں  کے ناقص مشوروں کا آئینہ دار  ہے کہ ملکی معیشت مشکل مرحلے سے نکلنے کے بعد اب تیزی سے  بہتری کی طرف گامزن ہے۔ یہ بیان  زمینی حقائق اور  ان معاشی سچائیوں سے تال میل نہیں رکھتا جن کا سامنا اس وقت ملک کے عوام کی اکثریت کرنے پر مجبور ہے۔

ایک خاص جد و جہد کے ذریعے جن میں اسٹیٹ بنک کی طرف سے مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کا  طریقہ بھی شامل ہے، ایک طرف آئی ایم ایف  کے اہداف پورے کرنے کی کوشش کی جارہی  تو دوسری طرف اس طرح مارکیٹ میں روپے کی قدر کو سہارا دینے کا وقتی اور ناقابل  بھروسہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو یہ بیان دینے کے لئے بریف کیا گیا ہے کہ وہ  عوام کو  بتائیں کہ روپے کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے، درآمدات کم ہوگئی ہیں اور برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ یہ تینوں  دعوے   کاغذی حد تک تو درست ہوسکتے ہیں لیکن  معاشی صحت کی علامت نہیں ہیں۔  درآمدات میں کمی کی دو بڑی وجوہات  ہیں۔ ایک تو ملکی صنعت زوال پذیر ہے۔ پیداوار میں کمی ہورہی ہے جس کی وجہ سے انہیں خام مال درآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح معیشت دانوں  کے اشاریے خواہ کیسی ہی سہانی تصویر بنانے  کی کوشش کریں حقیقت یہی ہے  کہ صنعتیں بند ہونے سے بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہورہے ہیں یا انہیں   کسی بھی وقت کام سے انکار کا اندیشہ لاحق ہے۔

 سرکاری اخراجات میں کمی  بھی دراصل ترقیاتی منصوبوں پر اثر انداز ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں روزگار فراہم کرنے  کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح برآمدات میں اضافہ بھی حقیقی نہیں ہے بلکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پرانے اعداد و شمار کا حجم بڑا ہوگیا ہے۔ یعنی جب ڈالر سو روپے سے کم تھا تو اس وقت سو روپے میں برآمد  ہونے والی چیز اب ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے ڈیڑھ سو یا  اس سے زیادہ میں فروخت ہوگی لیکن اس کا برآمدی صلاحیت میں اضافہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ملک میں صنعتیں بند ہورہی ہوں اور پیداواری صلاحیت دگرگوں  ہو تو ایسی معیشت کیا  بیچ کر برآمدات میں اضافہ کرسکتی ہے؟

ان حالات میں عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت نے نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے معاملہ کو ملک کا سب سے اہم مسئلہ بنا کر دراصل مسائل سے نگاہیں چرانے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔  تحریک انصاف اقتدار کی سیاست اور حکومتی معاملات چلانے میں بری طرح  ناکام ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ  کے پر امن رہنے کو حکومت کی کامیابی کہا جارہا ہے۔ اور اب جبکہ جمیعت علمائے اسلام دھرنا ختم کرکے ملک بھر میں احتجاج اور لاک ڈاؤن کے دوسرےمرحلے میں داخل ہونے کا اعلان کررہی ہے تو وزیر اعظم کے مشیر اسے حکومت کی کامیابی اور مولانا فضل الرحمان کی سیاسی ناکامی سے تعبیر کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ حالانکہ ملکی حالات، حکومت کی ذمہ داریوں اور سیاسی پیچدگیوں کی بڑی تصویر میں اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مولانا فضل الرحمان  نے اس احتجاج کے ذریعے خود کو ملک کی ایسی سیاسی قوت تسلیم کروایا ہے جسے صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ مستقبل میں سامنے آنے والی کوئی بھی حکومت نظر انداز نہیں کرسکے گی۔

آزادی مارچ کا دو ہفتے تک اسلام آباد میں مستقل مزاجی سے قیام اور اب اسے  پر امن طریقے سے منتشر کرنے کا فیصلہ دراصل مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بصیرت کا ادنی سا نمونہ ہے۔ انہوں نے کسی دباؤ یا جذبات میں آکر ڈی گراؤنڈ جانے یا کسی قسم کی قانون شکنی کا کوئی اقدام نہیں کیا۔  یہ حکومت کی کامیابی نہیں بلکہ بدتر سیاسی ناکامی ہے جو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ملک کی اہم ترین اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ کوئی مفاہمت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ حکومت نے کبھی بھی مولانا فضل الرحمان یا  اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے کسی قسم کی سنجیدہ مواصلت و مفاہمت  کی کوشش نہیں کی کیوں کہ  حکومت اپوزیشن کو کوئی سیاسی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسی لئے پرویز خٹک نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ’ آپ بھی ٹائم پاس کریں ، ہم بھی وقت ہی گزار رہے ہیں‘۔

وزیر اعظم  بھی آزادی مارچ کی صورت میں سامنے آنے والے چیلنج، ہزاروں لوگوں کے احتجاج اور اپوزیشن کے متفقہ مطالبات کے جواب میں کوئی متبادل مفاہمتی فارمولا سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔  لگتا ہے عمران خان یہ سمجھتے  رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان   شور مچا کر جب اسلام آباد چھوڑیں گے تو یہ تحریک بھی دم توڑ جائے گی۔ یہی ان کی سب سے بڑی سیاسی غلط فہمی  ہے۔  اسی لئے  چوہدری برادران نے   بیچ بچاؤ کی کوشش کی تھی لیکن عمران خان اور حکومت کسی قسم کی سیاسی رعایت دینے  پر آمادہ نہیں ہیں۔ حکومت کےا س رویہ کے بعد ہی مولانا فضل الرحمان  کی طرف سے  وزیر اعظم کے استعفیٰ  کااصرار شدید  ہو گیا تھا۔ اگر حکومت نے چوہدری شجاعت کی کسی تجویز پر نرمی دکھانے کا اشارہ  دیا ہوتا تو سیاسی مفاہمت کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنا ممکن تھا۔ بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ عمران خان نے جو رویہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر  کنٹینر پر کھڑے ہوکر اختیار کیا تھا، وزیر اعظم کے طور پر بھی وہ  اسی مزاج کا مظاہرہ کررہے ہیں۔   اس طرح وہ بطور حکمران اپنی سیاسی ناکامی کا خود ہی سبب بنے ہیں۔

 نواز شریف کی بیماری کو اپنی سیاسی ساکھ کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرکے  عمران خان نے اخلاقی دیوالیہ پن کا بدترین مظاہرہ کیا ہے۔ معاشی ناکامی، سیاسی مفاہمت سے انکار اور  بنیادی انسانی اقدار کو مسترد کرکے دراصل  حکومت نے ملکی معیشت کے لئے ایک غیر ضروری طوفان  کو دعوت دی ہے۔ اس طوفان کی زد میں بہت کچھ آئے گا لیکن عمران خان  کی حکومت بہر حال اس کا پہلا نشانہ بنے گی۔ وقت گزارنے والی حکومت کا وقت محدود ہونے کے تمام آثار افق پر نمایاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali