مولانا فضل الرحمٰن کامیاب ہو گئے


وطنِ عزیز کو ایک تجربہ گاہ بنا رہنا چاہئے یا مختلف تجربوں کے نچوڑ کے طور پر ایک طے شدہ سیاسی نظم و ضبط حاصل کرنا ہی سیاسی مقصد ہونا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ اِس سوال کا ایک واضح جواب ہے۔

یہ جواب ملک کی جمہوری طاقتوں کی جانب سے نہایت نپے تلے انداز میں دیا جا رہا ہے اور یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ رائے عامہ کا صبر و تحمل، اب پتلی تماشے پر جواب دے رہا ہے۔

ہوش ربا مہنگائی کا جواب کسی وقت بھی بپھر سکتا ہے اور یہ سب کچھ بین الاقوامی برادری بھی بہت شدومد سے محسوس کر رہی ہے۔ بین الاقوامی برادری کے ردعمل، اُس کے احساسات کو پرکھنے کے لئے ان کے ذرائع ابلاغ کا جائزہ لینا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

جب سے مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے اُس وقت سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بہت گہرائی سے اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جے یو آئی (ایف) کے گزشتہ سوا سال پر محیط جلسوں میں اختیار کئے گئے لب و لہجہ اور مطالبات کو پرکھ رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن میدانِ سیاست کی پہلی صف میں کھڑے سینئر ترین سیاستدان ہیں اور اسی بدولت اپنا ایک بین الاقوامی تشخص بھی رکھتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی تشخص صرف مذہب تک ہی محدود نہ ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، محمود خان اچکزئی نظر آ رہے ہیں اور کبھی سپریم کورٹ بار کے نو منتخب صدر ان کے کنٹینر پر جلوہ افروز ہیں۔

ان کی اسی حکمتِ عملی سے بین الاقوامی میڈیا نے اُن کے مارچ کو مذہبی یا کٹھ ملائیت کا مظاہرہ قرار نہیں دیا بلکہ مذہبی مارچ یا تحریک قرار دینے کے بجائے رائٹ ونگ کی سربراہی میں ایک سیاسی عمل قرار دیا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے اخبارات تو وہاں کے مزاج کے مطابق پوری دنیا کی اہم خبروں کا احاطہ کرتے ہیں لہٰذا وہ تو آزادی مارچ کو ایک اہمیت دے ہی رہے ہیں لیکن چین میں میڈیا کا طریقہ کار ان ممالک سے مختلف ہونے کے باوجود پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وہ بھی اس سیاسی سرگرمی کو بھرپور طور پر خبروں کی زینت بنا رہا ہے، اور وہ بھی اس کو مخصوص مذہبی سرگرمی قرار نہیں دے رہا بلکہ پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کی قوتِ برداشت کے جواب دینے کے ایک مظہر کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

عالمی میڈیا کے اس قائم ہوتے تصور کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن ایک مسئلے کا شکار بھی ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کے سفارتی حلقوں میں روابط بہت کمزور ہیں اور جو ہیں وہ بھی انفرادی حیثیت ہی رکھتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں دنیا کے اہم ممالک کے سفارتکاروں سے راقم الحروف کی ملاقاتیں رہیں تو ان کی گفتگو کا محور مولانا فضل الرحمٰن کی ذات ہی رہی کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ 2014ء کا دھرنا ایک جمہوری حکومت کے خلاف سازش تھا جبکہ آزادی مارچ جمہوری طاقتوں کا پاور شو ہے مگر انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ یہ کیسے معلوم کریں کہ جے یو آئی (ایف) کا مختلف بین الاقوامی اور قومی امور پر کیا مؤقف ہے۔

یہ کمزوری صرف جے یو آئی تک محدود نہیں بلکہ دیگر جماعتوں میں بھی موجود ہے کیونکہ ان کی قیادت جو سفارتکاروں سے ملتی بھی ہے تو بس اپنے ذاتی تشخص تک ہی محدود رہتی ہے۔ خارجہ معاملات کو بس وزارتِ خارجہ کے افسران تک ہی نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس کے لئے سیاسی بصیرت اور بین الاقوامی تعلقات پر گرفت ہونی چاہئے کیونکہ دفترِ خارجہ صرف اسٹیٹس کو کی ہی نمائندگی کرتا ہے۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔

اس مارچ سے مولانا نے صرف بین الاقوامی برادری میں ہی جگہ نہیں بنائی بلکہ وہ اپنے حامیوں کے لئے بھی بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی وسیع حمایت پختون علاقوں میں موجود ہے اور گزشتہ چالیس برسوں سے بالخصوص یہ تصور پختونوں کے متعلق ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت قائم کر دیا گیا ہے کہ یہ نہایت ہی لڑاکا اور تہذیب و تمدن سے دور لوگ ہیں۔

اگر ایسا ہے تو پھر جمہوری رویوں کے گزر کا تو گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ آزادی مارچ میں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کیا لیکن نہ تو 2014ء کے دھرنے کی نسبت کسی پولیس والے پر تشدد کرکے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ ایک گملا تک نہ ٹوٹا اور یہ امن کا سفر جمہوری آزادیوں کی خاطر کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ یہ مارچ اپنے شرکاء کی تعداد کے اعتبار سے اب تک کیے گئے مارچوں میں سب سے بڑا ہے اور اس کا پُرامن تشخص شاندار نتائج دے رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس سے قبل اپنے مکتبِ فکر کی مثبت تصویر کشی کر چکے ہیں جب انہوں نے ایم ایم اے کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام کو تقسیم کرنے اور اس کی طاقت کو پارہ پارہ کرنے کی غرض سے ایک حکمتِ عملی عشروں پہلے بنائی گئی تھی کہ اس کو دھڑوں میں تقسیم کر دیا جائے اور دھڑوں کو توانا کرنے کی غرض سے فرقہ ورانہ معاملات کو ابھارا جائے تاکہ نئے دھڑے اس بنیاد پر اپنی سیاست کر سکیں۔

مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد جمعیت پر یہ سخت ترین حملہ تھا لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے اس سے مختلف راہ اپنائی اور وہ ایم ایم اے تک چلے گئے۔ وقت نے ثابت کیا کہ جے یو آئی کے لئے ان کی یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ وہ اپنا یہ تشخص اپنے ساتھ دیگر مکاتبِ فکر کے علماء کو کنٹینر پر ساتھ رکھ کر اب تک واضح کر رہے ہیں۔

آزادی مارچ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست کا ایک لازمی حصہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).