سموگ: کیا پاکستان نے اپنی ایئر کوالٹی انڈیکس میں کوئی رد و بدل کیا ہے؟


سموگ

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پچھلے دو ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی تھی۔

سوشل میڈیا صارفین، بعض ماہرین اور عوامی حلقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ حکومت نے فضائی آلودگی سے متعلق ایئر کوالٹی انڈیکس کے پیمانے میں رد و بدل کی ہے تاکہ پاکستان میں فضائی آلودگی کی سطح کو حقیقت سے کم دکھایا جاسکے۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ان اعداد و شمار کے بارے میں عوام کو دھوکہ دے کر ان کی صحت سے کھیل رہی ہے۔

بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کیا واقعی پاکستان نے ایئر کوالٹی میں کوئی رد و بدل کی ہے اور کیا کوئی ملک ایسا کر سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

سموگ: پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کی طرف زیادہ آگ

بدترین سموگ میں ’لاہور والے زندہ کیسے رہتے ہیں؟‘

لاہور میں سموگ میں کمی، سکول بدستور بند

ایئر کوالٹی انڈیکس کیا ہے؟

ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (particulate matter) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔

یہ چھوٹے کیمائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

ایئر کوالٹی انڈیکس کا تعین فضا میں مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسز ہوا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔

ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

ماحولیات اور فضائی آلودگی پر آواز اٹھانے والوں کا الزام کیا ہے؟

عروج ضیا ماحولیات اور فضائی آلودگی کے خلاف ایک متحرک کارکن اور اس آلودگی کا شکار مریضہ بھی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی درجہ بندی عالمی معیار سے مختلف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں رائج ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کی حدود بہت زیادہ مقرر کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی عالمی ادارہِ صحت کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔

عروج ضیا کے مطابق امریکہ کے ادارہِ برائے ماحولیاتی تحفظ کی درجہ بندی سے اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان کی ایئر کوالٹی کی درجہ بندی میں ’آلودہ فضا‘ کو 301-400 والے گروپ میں رکھا گیا ہے جبکہ امریکی ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ اس لیول پر فضا کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘امریکہ ہو یا پاکستان، اگر فضا میں کسی گیس یا کیمائی اجزا کا تناسب زیادہ ہے تو وہ انسانی جسم کو ایک ہی طرح متاثر کرے گا۔ سنہ 2016-17 میں بنائے جانے والے سموگ کمیشن کی سفارشات پر حکومت نے عمل نہیں کیا۔ اب غلط اعداد و شمار بتا کر عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔’

ماحولیاتی امور پر کام کرنے والے وکیل اور کارکن رافع عالم کا کہنا تھا ’گذشتہ ہفتے وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا تھا کہ اگر ائیر کوالٹی انڈیکس 300 سے زیادہ ہو تو یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہم یہ سن کر حیران رہ گئے۔ بھئی، دنیا میں کون سی جگہ ہے جہاں 300 اے کیو آئی کو نقصان دہ نہیں تصور کیا جاتا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کا ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ ائیر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے جس معیار اور درجہ بندی کو ملک میں لاگو کیے ہوئے ہے وہ دنیا کے دیگر اداروں سے متضاد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ درجہ بندی لاہور ہائی کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد سنہ 2017 میں سموگ کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ عدالت میں پیش کی گئی تھی۔

رافع عالم کا کہنا ہے کہ ‘میرے نزدیک یہ درجہ بندی اور معیار غلط ہے اور یہ فضائی آلودگی کو حقیقی سطح سے کم بتاتی ہیں۔’

ان کے مطابق جس کمیشن کو فضائی آلودگی سے متعلق جامع حکمت عملی اور معیار مرتب کرنے کا کہا گیا ان کو یہ کام کرنے کے لیے مناسب وقت ہی نہیں دیا گیا تھا۔

کیا کوئی ملک ایئر کوالٹی انڈیکس میں رد و بدل کر سکتا ہے؟

پاکستان کی وفاقی انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ایک ایسا ادارہ ہے جس نے دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے بارے میں رہنما اصول مرتب کیے ہیں جو فضائی آلودگی کے حوالے سے عمومی ہوتے ہیں مگر یہ کسی ملک کے لیے حتمی معیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے مرتب کردہ ان رہنما اصولوں سے ہر ملک اپنے علاقائی موسم اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے فضائی آلودگی کے بارے میں اپنا ایک معیار مرتب کرتا ہے۔ دنیا کے ممالک کے لیے یہ لازمی نہیں کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے فضائی آلودگی کے لیے مرتب کردہ رہنما اصولوں کو اپنے ملک میں لاگو کریں۔

ای پی اے کے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد بین الاقوامی رہنما اصولوں کی روشنی میں مرتب کیا تھا۔

پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سابق ڈی جی ڈاکٹر جاوید علی خان نے بھی بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ بالکل ہر ملک اپنے موسم اور ماحولیاتی حالات کے مطابق اپنی ایئر کوالٹی انڈیکس مرتب کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا اس میں کچھ غیر قانونی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جو زمین کے خطِ استوا کے نزدیک ہیں وہاں فضا میں دیگر گیسز اور کیمائی اجزا کے علاوہ مٹی کے ذرات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ایسے ممالک جو خطِ استوا سے دور ہیں وہاں فضا میں مٹی کے ذرات کم ہوتے ہیں۔

سموگ

ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا کے دیگر ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہر ملک کا فضائی آلودگی جانچنے کا اپنا معیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس معیار کو نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی سٹینڈرڈ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ماحولیات کا شعبہ بھی صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے جس کے بعد اب صوبوں کا اپنا اپنا فضائی آلودگی جانچنے کا معیار ہے۔ مگر یہ وفاقی معیار سے ہی مطابقت رکھتا ہے۔

پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین دو طریقوں یا پیمانوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس ملک کی ایئر کوالٹی انڈیکس میں پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی تعداد 24 گھنٹوں کے دوران زیادہ سے زیادہ کتنی ہونی چاہیے۔

اور دوسرا یہ کہ اس ملک نے ایئر کوالٹی انڈیکس کو کس اور کتنی درجہ بندیوں میں تقسیم کر رکھا ہے یعنی فضائی آلودگی کی تعداد کیا ہو گی۔

پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس پر کام سنہ 2016 میں اس وقت کیا گیا جب صوبہ پنجاب میں سموگ نے ڈیرے ڈال لیے اور لاہور ہائی کورٹ نے ازخد نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کو ائیر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے جامع حکمت عملی اور معیار مقرر کرنے کی ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ سموگ کمیشن کے قیام کا حکم صادر کیا۔

لاس اینجلس

امریکی شہر لاس اینجلس پر سموگ منڈلاتی سموگ کا منظر

لاہور ہائی کورٹ نے سموگ کمیشن کو فضائی آلودگی میں کمی اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے سفارشات اور جامع حکمت عملی مرتب کرنے کا کہا تھا۔

اس سموگ کمیشن کے رپورٹ میں ایئر کوالٹی انڈیکس کو جامع انداز میں مرتب کیا گیا۔

ای پی اے کے سینئر اہلکار کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس تمام فضائی آلودگی کا مرکب نہیں ہوتا بلکہ فضائی آلودگی میں موجود مختلف گیسز اور کیمائی ذرات کے بارے میں الگ الگ ایئر کوالٹی انڈیکس ہوتی ہے۔ تاہم عام فہم ایئر کوالٹی انڈکس پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے حوالے سے ہے۔

پاکستان کی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی یعنی ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی جانب سے جاری ایئر کوالٹی انڈیکس میں پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی تعداد 24 گھنٹوں کے دوران زیادہ سے زیادہ 35 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر مقرر ہے۔

جبکہ ای پی اے کی جانب سے اس کی درج بندی درج ذیل ہے۔

فضائی آلودگی

امریکہ میں ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی

دنیا میں عموماً فضائی آلودگی کو ظاہر کرنے کے لیے امریکی ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا معیار دنیا کے لیے حرف آخر نہیں ہے۔

امریکہ کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی ویب سائٹ کے مطابق اس نے پہلی مرتبہ ایم پی کے حوالے سے فضائی آلودگی کے لیے ایئر کوالٹی انڈیکس کا اجرا سنہ 1971 میں کیا تھا تاہم وقت کے ساتھ بدلتے موسمی حالات اور دنیا میں بڑھتی فضائی آلودگی کے باعث اس کے معیار اور درجہ بندی میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہے۔

اس وقت امریکہ کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی جانب سے رائج ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار اور اس کی درجہ بندی سنہ 2012 میں مقرر کی گئی۔

اگر امریکہ کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے جانب سے جاری کردہ ایئر کوالٹی انڈیکس میں پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی 24 گھنٹوں کے دوران زیادہ سے زیادہ تعداد کے معیار کو دیکھا جائے تو یہ بھی پاکستان کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے معیار کی طرح 35 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر مقرر ہے۔

تاہم امریکی ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی دیکھی جائے تو وہ کچھ یوں ہے۔

فضائی آلودگی

امریکی ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی جانب سے جاری کردہ ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی

کیا مخلتف معیار سے فضائی آلودگی میں کوئی فرق پڑتا ہے؟

اگر کسی شہر کی فضائی آلودگی کا موازنہ دو مختلف ممالک کی مرتب کردہ ایئر کوالٹی انڈیکس سے کیا جائے تو کیا وہ موجود آلودہ فضا یا کیمائی اجزا میں کمی بیشی کا فرق ہو سکتا ہے۔؟

اس بارے میں پاکستان کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ ای پی اے کے سنئیر اہلکار کا کہنا ہے کہ اگر اس کا تجزیہ ایم پی 2.5 سے کیا جا رہے اور دونوں ممالک میں مرتب کردہ ایم پی 2.5 کا معیار ایک ہی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ امریکہ کے ای پی اے اور پاکستان کے ای پی اے کے مرتب کردہ معیار میں ایم پی 2.5 کی 24 گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ حد 35 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر مقرر ہے تو اسی طرح جیسا کہ بدھ کی شب لاہور میں ائیر کوالٹی انڈیکس 500 سے تجاوز کر گئی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں ممالک کے اعتبار سے اس وقت ایم پی 2.5 کی تعداد تقریباً 250 ہو گی۔

اگر ہم امریکی ای پی اے کی درجہ بندی کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے مطابق بھی ایم پی 2.5 کی تعداد 250 کے قریب ہی بنتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کی ایئر کوالٹی انڈیکس میں ایم پی 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی تعداد مختلف ہے تو اس درجہ بندی میں فرق آ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp