فیک نیوز: 260 سے زائد ویب سائٹس کا ایجنڈا، انڈین مفادات کا فروغ اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا


یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں 260 سے زائد ایسی فیک نیوز ویب سائٹس کا کھوج لگایا ہے جو انڈین حکومت کے مفادات کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

ریسرچ گروپ ‘ڈس انفو لیب’ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ویب سائٹس انڈیا کے مفاد میں یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر اثر انداز ہونے کے لیے بنائی گئی ہیں جو بارہا پاکستان پر تنقید کرتی پائی گئی ہیں۔

یہ ویب سائٹس امریکہ، کینیڈا، بیلجیئم اور سوٹزرلینڈ سمیت 65 سے زیادہ ممالک سے چلائی جا رہی ہیں۔ عالمی خبروں کی کوریج کے علاوہ ان میں سے بہت سی ویب سائٹس کشمیر کے تنازعے میں پاکستان کی کردار کشی کی غرض سے مظاہروں اور دیگر خبروں کی ویڈیوز تیار کر کے چلاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یورپی وفد کو کشمیر لانے والی مدھو شرما کون ہیں؟

یورپی ممبران پارلیمان کا دورہ کشمیر تنازعے کا شکار

ایلس ویلز: انڈیا ہمارے سفارتکاروں کو کشمیر نہیں جانے دے رہا

اکتوبر کے اوائل میں یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس نے انکشاف کیا کہ ‘ای پی ٹوڈے ڈاٹ کام’ نامی ویب سائٹ بڑی تعداد میں وائس آف امریکہ اور رشیا ٹوڈے میں شائع ہونے والے خبروں کو دوبارہ شائع کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ ‘ای پی ٹوڈے ڈاٹ کام’ برسلز اور یورپی پارلیمان کو کوور کرنے والے ایک خود ساختہ میگزین کی ویب سائٹ ہے۔

یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس کو دیگر مواد کے علاوہ اس ویب سائٹ پر غیر متوقع طور پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے خبروں، کالمز اور انڈیا سے متعلقہ امور پر مضامین بھی ایک بڑی تعداد میں ملے۔

‘ڈس انفو لیب’ کو جلد ہی یہ بھی پتا چلا کہ ‘ای پی ویب سائٹ’ کا انتظام و انصرام انڈین سٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہے جن کے تعلقات ‘سری واستوا’ نامی ایک بڑے نیٹ ورک کے تحت کام کرنے والی این جی اوز، تھنک ٹینکس اور کمپنیوں سے ہیں۔

یہ بھی پتا چلا کہ سری واستوا گروپ کا آئی پی ایڈریس ایک مبہم آن لائن میڈیا ‘نیو دہلی ٹائمز’ اور ’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ سٹڈیز‘ سے منسلک ہے اور ان تمام اداروں کا ایڈریس نئی دہلی میں ایک ہی جگہ کا پایا گیا۔

چند ہفتوں بعد انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ سٹڈیز یورپی ممبران پارلیمان کے 27 رکنی گروپ کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر خصوصی دورے پر لے گیا۔ اس دورے کے دوران ان کی ملاقات وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی کروائی گئی۔

اس دورے کو ذرائع ابلاغ میں کوریج دی گئی اور بعد ازاں صحافی ان ویب سائٹس کو اس ‘متنازعہ دورے’ کے منتظمین کے ساتھ جوڑنے لگے۔

یورپی ارکان پارلیمان کا دورہ کشمیر

یورپی اراکین پارلیمان کا دورہ کشمیر (فائل فوٹو)

تاہم ‘ڈس انفو لیب’ نے اس نیٹ ورک کے حوالے سے اپنی تفتیش جاری رکھی جو انھیں جنیوا لے گئی۔

وہاں ایک آن لائن اخبار ‘ٹائمز آف جنیوا ڈاٹ کام’ کا کھوج ملا جو اس نوعیت کا مواد چھاپ رہا تھا جیسا کہ ‘ای پی ٹوڈے’ یعنی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کرنے کے لیے مظاہروں اور دیگر خبروں کی ویڈیوز اور مضامین۔

تحقیقی ادارے کے پاس کافی ایسے شواہد موجود ہیں کہ ای پی ٹوڈے اور ٹائمز آف جنیوا کا گٹھ جوڑ یورپین آرگنائزیشن فار پاکستانی مائیناریٹیز اور پاکستانی ویمنز ہیومن رائٹس آرگنائزیشن جیسے این جی اوز اور تھنک ٹینکس کے ساتھ ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ ویب سائٹس، این جی اوز اور تھنک ٹینکس ایک ہی سرور سے کام کر رہی ہیں جبکہ ان اداروں میں کام کرنے والے ہی ای پی ٹوڈے کے لیے مضامین لکھ رہے ہیں۔

یہ تمام ادارے گذشتہ چند برسوں سے کام کر رہے ہیں۔

ادارے کے مطابق ان کی تفتیش جاری ہے اور ایک نئی ویب سائٹ ‘فور نیوز ایجنسی ڈاٹ کام’ کا پتا لگا ہے جو اپنے حوالے سے دعوی کرتی ہے کہ وہ بلجئیم، تھائی لینڈ، ابوظہبی اور سویٹزر لینڈ میں کام کرنے والی چار نیوز ایجنسیوں کے اشتراک سے چلتی ہے۔ فور نیوز ایجنسی کے مطابق اس کے نمائندے دنیا کے 100 مختلف ممالک میں موجود ہیں۔

تاہم تجزیے سے پتا چلا ہے کہ یہ نیوز ایجنسی بھی ای پی ٹوڈے اور ٹائمز آف جنیوا جیسا مواد ہی شائع کر رہی تھی۔

آئی پی ایڈریس اور دیگر مواد پر تفتیش کے بعد ‘ڈس انفو لیب’ 265 سے زائد ایسی ویب سائٹس کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوتی ہے جو 65 سے زائد ممالک سے چلائی جا رہی ہیں جبکہ ان کے کام کرنے اور ان پر چھپنے والے مواد ایک جیسا ہے۔

دیگر حقائق

  • ان میں بہت سے ویب سائٹس کا نام بند ہو چکے مقامی اخباروں یا بڑے میڈیا اداروں کے ناموں سے ملتے جلتے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔
  • یہ ویب سائٹس دوسری بہت حقیقی نیوز ایجنسیوں میں شائع ہونے والا مواد دوبارہ شائع کرتی ہیں۔
  • ان میں شائع ہونے والا مواد ایک جیسا ہوتا ہے جیسا کہ تنازع کشمیر سے متعلق خبریں اور مظاہرے۔
  • یہ ویب سائٹس پاکستان مخالف وہ مواد دوبارہ شائع کرتی ہیں جو پہلے ہی ای پی ٹوڈے، فور نیوز ایجنسی، ٹائمز آف جنیوا اور نیو دہلی ٹائمز میں شائع ہوتا ہے۔
  • ان میں سے بہت سی ویب سائٹس کا ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی ہیں۔

ایسا کرنے کا مقصد کیا ہے؟

‘ڈس انفو لیب’ کے مطابق اتنی کثیر تعداد میں جعلی ویب سائٹس بنانے کے درج ذیل مقاصد ہو سکتے ہیں:

  • مخصوص پروگراموں اور مظاہروں کی کوریج کے ذریعے بین الاقوامی اداروں اور منتخب نمائندوں کی رائے پر اثر انداز ہونا۔
  • این جی اوز کو ایسا مواد فراہم کرتا جو ان کی ساکھ میں تقویت کا باعث ہو۔
  • ذرائع ابلاغ کی ایسی بہت سے ادارے بنانا جو ایک دوسرے کا مواد شائع کریں یا شائع شدہ مواد کا حوالہ دیں تاکہ پڑھنے والے۔کے لیے ہیرا پھیری کا سراغ لگانا مشکل ہو جائے۔
  • سرچ انجنز پر دستیاب ایک ہی جیسا مواد فراہم کر کے پاکستان کے حوالے سے عوام کے تاثرات کو متاثر کرنا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp