سبزیاں اتنی مہنگی کیوں؟


میں کل سبزی و پھل خریدنے بازار گیا۔ یہ جان کر چودہ طبق روشن ہو گئے کہ اکثر سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں فی کلو ایک سو روپے سے زیادہ ہیں۔ ٹماٹر ڈھائی سو جبکہ پیاز ایک سو کلو روپے بک رہا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک سالہ دور میں خصوصاً خوراک کی مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہو چکے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس مہنگائی کی ذمے دار ماضی کے حکمران ہیں۔ چلیے یہ دعوی مان لیا مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے خوراک کی قیمتیں کم کرنے کی خاطر کس قسم کے ٹھوس اقدامات اپنائے؟ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس کے باوجود یہاں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا تعجب خیز بات اور حکمرانوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے بال بچوں کو روزانہ دو وقت کی روٹی میّسر آ جائے۔ اسے یہ سروکار نہیں کہ حکومت کی بقا کو کس قسم کے مسائل درپیش ہیں۔ اور حقائق سے آشکارا ہے کہ خوراک کی بڑھتی قیمتوں نے عام آدمی اور اس کے اہل خانہ کے لیے پیٹ بھرنا کٹھن مسئلہ بنا دیا ہے۔ جبکہ حکومت نے زبانی کلامی دعوی کرنے کے علاوہ قیمتیں کم کرنے کی خاطر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ ویسے ریاست ِمدینہ قائم کرنے کی باتیں بڑھ چڑھ کر ہوتی ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے : ”اگر میری حکومت میں ایک شہری بھی بھوک کے ہاتھوں مرا، اس کی موت کا ذمے دار میں ہوں گا۔ “ اِدھر دور جدید کی نام نہاد ریاست ِمدینہ میں شہری بھوک، مہنگائی اور غربت کے باعث خودکشیاں کر رہے ہیں مگر حکمرانوں کی توانائی اپنی کرسیاں بچانے میں صرف ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت بھارتی حکمرانوں کی کوتاہیوں پہ نظر رکھتی ہے جو موجودہ حالات کے پیش نظر صائب بات ہے۔ لیکن اسے مودی حکومت کے اچھے اقدامات پر بھی نطر رکھنی چاہیے۔ پچھلے دنوں بھارت میں پیاز کی فصل خراب ہونے کی وجہ سے اس سبزی کی قلت ہو گئی۔ پیاز کی قیمت بڑھنے سے عوام پریشان ہوئے تو مودی حکومت نے فورا سبزی کی برامد پر پابندی لگا دی۔ مقصد یہ تھا کہ ملک میں پیاز کی قیمت بڑھنے نہ پائے اور غریب ومتوسط طبقوں پہ مالی بوجھ نہ پڑے۔

یہ مودی حکومت کا عوام دوست اقدام تھا۔ نتیجے میں پیاز کی قیمت اعتدال پر آ گئی اور غریب کو فائدہ ہوا۔ اِدھر پاکستان میں دھڑا دھڑ سبزیوں، پھلوں، گوشت اور اناج کی برامد جاری ہے مگر حکومت وقت کو کوئی پروا نہیں۔ وطن عزیز میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھانے میں اس برامد کا اہم ہاتھ ہے۔ ایک طرف لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے بھوکے مر رہے ہیں، دوسری طرف ہر ماہ اربوں روپے کی پاکستانی غذائیں بیرون ممالک بھجوا دی جاتی ہیں۔ یہ غریب ومتوسط طبقوں پر پاکستانی حکمران طبقے کی جانب سے ڈھایا جانے والا ظلم ہے۔

پاکستان میں جب اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو عمران خان حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ بھی بھارت کی طرح خصوصاً سبزیوں کی برامد پہ پابندی لگا دیتی مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ حکومت کی بے توجہی سے تو عیاں ہے کہ اس نے فوڈ مافیا میں شامل کمپنیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جتنی مرضی پاکستانی غذائیں برامد کر دے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شماریات بیورو آف پاکستان کی رو سے جولائی تا ستمبر 2019 ءکے دوران پاکستان سے 764 ملین ڈالر (ایک کھرب پچیس کروڑ روپے ) کی اشیائے خورونوش بیرون ممالک بھجوائی گئیں جن میں چاول، سبزیاں، پھل، گندم ”گوشت، مسالے وغیرہ شامل تھے۔ یہ سبھی غذائیں عام پاکستانی کے روزمرہ استعمال میں آتی ہیں۔

اس ساری برامد کا افسوسناک بلکہ بھیانک پہلو یہ ہے کہ وہ پاکستانی کسانوں کو کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ عموماً نقصان ہی دیتی ہے۔ وجہ یہ کہ اشیائے خورونوش برامد کرنے کے شعبے میں کچھ کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ یہ دولت مند کمپنیاں منڈیوں سے وسیع پیمانے پر سبزیاں، پھل، اجناس اور گوشت خرید کر انھیں باہر بھجواتی ہیں۔ تھوک کے حساب سے خریدنے پر انھیں ہر خوراک سستی ملتی ہے۔ اسی لیے کسان کو گھاٹا ہی ہوتا ہے جبکہ کمپنیاں بیرون ملک پاکستانی غذائیں بھجوا کر سالانہ اربوں روپے کما لیتی ہیں۔

حقائق سے آشکارا ہے کہ اشیائے خورونوش برامد کرنے کے کاروبار سے چند ہزار پاکستانی ہی مالی فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسانوں کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ مگر ہزارہا ٹن خوراک بیرون ممالک جانے سے پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس مہنگائی نے کروڑوں پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے۔ ایک کھرب روپے سے زائد مالیت کی غذائیں تین ماہ میں ”قانونی“ طریق کار سے باہر بھجوائی گئیں۔ بہت سی غذائیں پاکستانی اسمگلر افغانستان، چین، ایران اور بھارت کے راستے اسمگل کرتے ہیں۔ ان اسمگل شدہ پاکستانی اشیائے خورونوش کی مالیت بھی ہر ماہ اربوں روپے بنتی ہے۔ وسیع مقدار میں غذائیں بیرون ممالک جانے کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں ان کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔ کئی غذائیں مثلاً چھوٹا گوشت تو غریب کیا متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکا۔ عام آدمی اچھا چاول بھی نہیں کھا سکتا۔

عمران خان حکومت سے مطالبہ ہے کہ خدارا وہ غریبوں پہ رحم کھائے اور پاکستانی غذائیں برامد کرنے کے سلسلے میں کوئی میکنزم وضع کرے۔ اگر کسی سبزی یا پھل مثلاً آم کی پیداوار زیادہ ہوئی اور وہ مناسب قمیت پر عام آدمی کو دستیاب ہے، تو اسے برامد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی ایسا طریق کار ہونا چاہیے کہ منافع ہمارے کسانوں اور کمپنیوں میں برابر تقسیم ہو جائے۔ یہ نہ ہو کہ کسان تو گھاٹے میں رہیں جبکہ کمپنیاں امیر سے امیر تر ہو جائیں۔

ابھی پاکستان میں یہی شیطانی چکر چل رہا ہے۔ فی الوقت عمران حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام ملکی اشیائے خورونوش کی برامد پہ پابندی عائد کر دے۔ اس طرح خوراک کی قیمتیں کم کرنے میں بہت مدد ملے گی اور کروڑوں پاکستانیوں کا بھلا ہو گا۔ چند ہزار امیر پاکستانیوں کے فائدے کو ترجیح دینا کیا کروڑوں عام آدمیوں پر ظلم کرنے کے مترادف نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).