رخصت اور عزیمت میں کیا فرق ہے؟


درویش نے لکھا کہ ملک کے حالات صحافی کی حدود سے نکل کر قوم کے اجتماعی شعور تک پہنچ گئے ہیں۔ اب گفتگو تمثیلات اور تاریخی واقعات کے پیرائے میں ہونی چاہیے۔ تو آئیے ہم بھی اسی پیرائے میں دل بہلاتے ہیں۔ اس بات کا جاٰئزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس رویے کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں کہ ہماری ستر سالہ تاریخ میں سیاستدان کیوں اقتدار کی کشمکش میں جبر کی قوتوں کے ساتھ کبھی افہام و تفہیم کا رویہ اپناتا ہے کبھِی جان دیتا ہے اور جلا وطن ہوتا ہے۔

جب وہ افہام و تفہیم کا معاملہ کرتا ہے تو

کیا اسے ذاتی مفاد پرستی سے تعبیر کرنا چاہیے؟

کیا یہ بزدلی کی علامت ہے؟

جب وہ ڈٹ جاتا ہے تو

کیا اسے ضد اور انا پرستی سمجھنا چاہیے؟

کیا اس میں اقربا پروری اور مفاد کی جنگ کے مطالب بیان کرنے چاہیں؟

ظاہر ہے سیاستدان کوئی فرشتہ نہیں ہوتا، لیکن جاننا چاہیے کہ ”سیاستدان“ اور ”عالم“ میں فرق ہوتا ہے۔

”عالم“ کا فرض ہے ”حق“ کی ہر حال میں گواہی دے، کسی لیت و لعل سے کام نہ لے، کسی حالات اور اندیشوں میں نہ گھرے، کسی مفاہمت کو جگہ نہ دے، حق کو فروغ حاصل ہو نہ ہو اس کی گواہی ہی اس کی کامیابی ہے۔

”سیاستدان“ کا میدان عمل کا میدان ہے، اسے اسی میں آبلہ پائی کرنی ہے اسی میں رہ کر اسے سنوارنا ہے، بقول درویش ”سیاست اسی بنا پر فنون عالیہ میں شمار ہوتی ہے کہ کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، یہ سلوک کی ان منزلوں کا سفر ہے جن کا حقیقی حاصل تو راستے کی کٹھنائیوں کو سلجھانے کی جستجو ہے۔ “

انہیں کٹھنائیوں کو سلجھانے کے لیے سیاستدان کا زاد راہ ”رخصت اور عزیمت“ کی حکمت عملی ہے۔

رخصت حق جانتے ہوئے ”خاموش، برداشت اور صبر“ کی حکمت ترتیب دینے کا نام ہے، عزیمت حق کے لیے ”ڈٹ اور لڑ“ جانے کا۔ رخصت حق کا انکار نہیں بلکہ ارتقا کا صبر آزما انتظار ہے، عزیمت ضد نہیں بلکہ حق آشکار ہونے کے بعد اس کی بے لاگ گواہی دینا ہے۔

آپ نے رخصت کی حکمت عملی اپنانی ہے یا عزیمت کی اس کا انحصار حالات و واقعات، معاشرتی و فکری ارتقا سب پر منحصر ہے، ایک محنتی کسان کی طرح اچھی فصل کاشت کرنے کے لیے کسان کو دھرتی کی سوجھ بوجھ ہونا اہم ہے زمین نرم کیسے کرنی ہے، کب کرنی ہے، ہل کب چلانا ہے، بیج کب اور کون سا بونا ہے

جو اس حکمت عملی کا فرق نہیں جانتے وہ رخصت کو بزدلی اور عزیمت کو بے وقوفی اور ضد سمجھ لیتے ہیں۔

حضرت حسن نے صبرو برداشت سے سواد اعظم کو قتل و غارت گری سے بچایا، ان کی دانش نے یہ بھانپ لیا کہ ٹکراؤ جان کا ضیاع اور فساد کا باعث بنے گا، انہوں نے لوگوں کے طعن کی پروا نہ کی۔ حکمت اور صبر سے قوم کو تباہی سے بچایا، جناب کے اس اقدام کوکوئی کم علم ہی این آر او کہ سکتا ہے۔ ایسی عظیم ”رخصت“ کی مثال کہ جس کی بشارت سرکار نے خود دی۔ حضرت حسین نے جب وقت آیا عزیمت کی راہ اپنائی، ڈٹ کر کھڑے ہوئے، خاندان کی قربانی دی، ثابت کیا کہ خانوادہ رسول رخصت اور عزیمت دونوں کی حکمت عملی کا فرق سمجھ سکتا ہے۔

حضرت عثمان نے بھی اپنے کردار سے ثابت کیا کہ رخصت اور عزیمت دونوں کا محل کیا ہے، مصر کے فتنہ پرور لوگوں نے کیا کیا پروپیگنڈا نہیں کیا، کون سی ہرزہ سرائی تھی اور دشنام تھا جو جناب کی ذات سے نہ منسوب کیا ہو، اقربا پروری، ذاتی مفاد۔ کیا اسلامی سلطنت کا سربراہ جس کی راجدھانی افریقہ، مصر، ایشیا کوچک، اور سندھ تک پھیلی ہوئی تھی مٹھی بھر کے مصر کے شرپسندوں کو نکیل نہ ڈال سکتا تھا لیکن انہوں نے رخصت، برداشت اور صبروتحمل کا راستہ اپنایا اور صرف اتنی توجہ دلائی ”میرے بعد اکٹھے نہ بیٹھ سکو گے“، ان کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا، شرپسندوں نے وزیراعظم ہاؤس پر حملہ کیا لیکن حضرت عثمان نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن جہاں ”حق حکمرانی“ کی بات آئی عزیمت کی راہ اپنائی، استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور بدلے میں اپنی جان دی۔ حضرت کی مظلومانہ شہادت، سیایسی بصیرت اور اولولعزمی آج ہمارے لیے مشعل راہ ہے، ”پوسٹ ٹرتھ“ کے اس دور میں آپ کی سیرت میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔

حضرت موسی نے تقریبا 1250 ق م میں جب اپنی تعلیمات کا آغاز کیا تو مصر میں بنی اسرائیل کے ساتھ فرعون کی قوم کے ایک فرد بھی ان کی تعلیمات پر ایمان لائے، قران نے انہیں ”مرد مومن“ کے لقب سے یاد کیا ہے، یہ جناب ”ال فرعون“ یعنی فرعون کے خاندان سے تھے۔ قران نے ان کا ذکر سورہ یٰسن میں کیا ہے اور پھر ایک سورہ کا نام انہیں کے نام پر رکھا ہے۔ ”سورہ مومن“۔ آغاز میں انہوں نے اپنا ایمان چھپا کے رکھا اور اس دوران حضرت موسی کی مدد کرتے رہے، یہ وہ وقت ہے جب انہوں نے حکمت اور دانائی کے تحت اپنا ایمان ظاہر نہ کیا، اسی دور میں انہوں نے حضرت موسی کو پکڑے جانے کے خوف سے بھاگنے کی تجویز بھی دی، جس پر حضرت موسی مدین تشریف لے گَے۔ حضرت موسی کے دوسرے دور میں جب فرعون نے حضرت کے قتل کا ارادہ کیا تو آپ نے رخصت کا لبادہ اتار دیا اور فرعون کے House of Lords میں تقریر کی جسے سورہ مومن میں قران نے نقل کیا ہے۔ مرد مومن نے اپنے کردار سے واضح کیا کہ رخصت اور عزیمت کی سرحد کہاں شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے۔

رخصت بزدلی، کمزوری اور مفادپرستی کا مترادف بھی سمجھی جا سکتی ہے، وطن عزیز کی تاریخ میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔

” تمغہ جمہوریت“ دینے والی کیا جانتی نہ تھی کہ وہ یہ اعزاز ”کس“ کو دے رہی ہے؟

وزارت کا حلف اٹھانے والا کیا جبر کی علامت کو نہ پہچانتا تھا؟

ریاست چاہتی تو کیا پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کو نہیں پکڑ سکتی تھی؟

President Musharraf swearing in Yousaf Raza Gillani as Pakistan 2008

رخصت کارگل پہ ذلیل ہونے کے باوجود، ڈان لیکس پہ صبر کا دامن تھامنا ہے، عزیمت بیوی کو مرتا چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ سزا بھگتنے آنا ہے۔

بزدلی کمرکے درد کا بہانہ کرکے ملک سے بھاگنا ہے، کارگل کے محاذ پرجانیں لٹوانا مہم جوئی ہے۔

جب تک مقدس گاَئے کی تقدیس کا نقاب نہ اترے، نامیاتی فکری ارتقا تک رخصت ”حکم“ کا درجہ رکھتی ہے اور عزیمت ”مہم جوئی“ کہلاتی ہے۔

جب ملک کے حالات صحافی کی حدود سے نکل کر قوم کے اجتماعی شعور تک جا پہنچیں تو رخصت ”تاریخی جرم“ اور عزیمت ”فرض“ قرار پاتی ہے۔

ایبڈو سے لے کر کارگل تک ”مہم جوئی“ کہلاتا ہے، عزیمت نہیں۔

میثاق جمہوریت سے پرویزرشید کے استفعی تک ”رخصت“ اور سیاسی ارتقا کہلانا چاہیے نہ کہ مفاد پرستی اور بزدلی۔

ہم اپنے وقت کے ایسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے یہں یہ مستقبل کی پیشن گوئی ہے اور غیب خدا کی ملکیت ہے، فرعون کے ساتھ کیا معاملہ ہوا یہ تاریخ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).