ریپ کیسز میں لوگ مقدمات واپس کیوں لے لیتے ہیں؟


’میں چھ سال کی تھی جب میرا ریپ ہوا۔ لیکن اس کے بعد مجھے اٹھارہ سال اس بات کو سب کے سامنے لانے میں لگے کیونکہ بچوں کی کوئی نہیں سنتا۔ جس شخص نے میرا ریپ کیا وہ میرے والد کے کزن ہیں اور میرے چچا لگتے ہیں۔ پچھلے برس میں نے اس شخص کے خلاف اپنے والد کے کہنے پر ایف آئی آر بھی درج کرائی لیکن پھر واپس لے لی۔ پھر خاندان میں یہ بھی سننے کو ملا کہ توجہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ شاید دماغی مریض ہے۔‘

یہ کہنا ہے راولپنڈی کی رہائشی عنبر (فرضی نام) کا۔

عنبر اس وقت ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہیں اور ان کے خوف اور درد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انٹرویو کے لیے حامی بھرنے کے بعد انھوں نے پہلے انکار کر دیا پھر خود ہی حامی بھر لی۔

اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کوئی نہیں بھول سکتا لیکن اس کے بارے میں بات کرنا اسی اذیت ناک لمحے کو کئی بار جینے کے مترادف ضرور ہوتا ہے۔

پاکستان میں عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ریپ کیسز میں زیادہ تر مقدمات درج نہیں ہوتے۔ اور اگر ہوجائیں تو ان کے مقدمے تک جانے اور کسی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ہی لوگ تھک ہار کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

حال ہی میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے ایک ملزم سہیل ایاز کا کیس سامنے آیا ہے۔ اس کیس میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں سہیل نے 30 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف کیا۔ لیکن پولیس اس وقت اس کشمکش میں ہے کہ سہیل ایاز کے گھر سے ملنے والی ویڈیوز میں موجود بچوں کے والدین کو کیسے مقدمہ درج کرنے کے لیے راضی کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ’سیکس اوفینڈر رجسٹر‘ کیوں موجود نہیں؟

کیا عورت کا مرد کے ساتھ جبری سیکس کرنا ریپ ہے؟

کیا جھوٹ بولنے سے سیکس ریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے؟

’ریپ کے بعد ڈپریشن سے نکلنے میں یوگا سے مدد ملی‘

’کون بات کرے گا یہ ایک اچھا سوال بھی ہے اور ایک المیہ بھی‘

خاتون

SCIENCE PHOTO LIBRARY

راولپنڈی سٹی پولیس چیف رانا فیصل نے اپنے دفتر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے پاس اس وقت ملزم سہیل ایاز کے گھر سے ملنے والی تقریباً 25 کے قریب ویڈیوز ہیں۔ ساتھ ہی اس کا اپنا بیان ہے۔ لیکن ہم والدین کو سمجھا سکتے ہیں، ان کی پشت پناہی کرسکتے ہیں۔ لیکن کسی کے والدین کو مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ وہ بھی غلط ہے۔ ہماری مجبوری ہے کہ جب تک کوئی سامنے آئے گا نہیں تب تک ایسے لوگوں کو سزا ملے گی نہیں۔‘

رانا فیصل اب تک جنسی زیادتی کے کئی مقدمات میں ملزمان کو پھانسی کی سزا دینے کی غرض سے پیش ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے بقول ’پھانسی سے ہماری اور والدین کی تسلی تو ہو جاتی ہے لیکن واقعات تو نہیں رکتے۔ پھانسی تو زینب کے مقدمے میں بھی ہوئی، پھر بھی ایسے کیسز آنا نہیں رکے۔‘

رانا فیصل کو ملنے والی ویڈیوز میں زیادہ تر بچے ہیں جنھیں سہیل ایاز کی جانب سے جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔ ان میں سے اب تک دو بچے اپنے والدین کے ساتھ راولپنڈی کے روات تھانے میں آئے ہیں۔ اور دونوں بچے اس وقت یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

رانا فیصل نے بتایا کہ’بچے اس وقت بہت کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ہماری کوشش ہے کہ ان کو جتنا ہو سکے دماغی کشمکش کا شکار نہ بنائیں، لیکن ملزمان کو پکڑنے کے لیے جتنے لوگوں کے بیانات اور شواہد سامنے آئیں اتنا بہتر ہے۔‘

’بچوں کی کوئی نہیں سنتا‘

سٹی پولیس آفس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال پاکستان میں تقریباً 55 بچوں کا ریپ ہوا ہے جن میں 23 بچیاں اور 32 بچے شامل ہیں۔ اس بارے میں رانا فیصل نے کہا کہ اس وقت پولیس کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ والدین کا سامنے نہ آنے سے منسلک ہے۔

’اکثر ہوتا ہے کہ ہم مقدمہ تیار کرتے ہیں، عدالت جاتے ہیں اور پھر پتا چلتا ہے کے متاثرہ خاندان پیش ہی نہیں ہوا۔ یا پھر عدالت کے باہر پیسوں کا لین دین ہو جاتا ہے۔ جس میں زیادہ تر زبردستی منھ بند رکھنے کو کہا جاتا ہے۔‘

اس طرح کے ماحول میں کئی لوگ بات نہ کرنے کو ترجیح دے کر چپ سادھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور سامنے نہ آنے کی وجوہات کیا ہیں، اس بارے میں، میں نے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے دو لوگوں سے جاننے کی کوشش کی۔

عنبر سے میری بات فون پر ہوئی اور اس دوران انھوں نے پوری بات آواز میں بنا کسی لرزش کے کہہ ڈالی۔ ایسا تاثر مل رہا تھا کہ وہ جتنی بھی بات ہے ایک سانس میں ایک مرتبہ کہہ دینا چاہتی ہیں۔

عنبر کے تین اور بہن بھائی ہیں اور وہ ان میں سب سے چھوٹی ہیں۔ اپنی بات بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرا ریپ میرے چچا نے کیا۔ ہم ان چچا کے گھر ہر دوسرے روز پہنچ جاتے تھے۔ حالانکہ ہمارے گھروں میں بہت زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ ان کی بیوی زیادہ تر اپنے کمرے میں خاموش بند رہتی تھیں۔ لیکن چچا سب سے ملتے تھے۔ ہم چاروں بہن بھائی سکول کی چھٹیاں ہوتے ہی ان کے گھر جاتے تھے۔‘

’یہ سنہ 2000 کی بات ہے۔ ہم سب سکول کی چھٹیوں کے دوران چچا کے گھر میں ہی تھے۔ میں ان کے گھر کے صحن میں کھیلتے کھیلتے سو گئی۔ جب رات میں ایک بار آنکھ کھلی تو میں بستر میں تھی۔ دوسری بار جب آنکھ کھلی تو میں نے چچا کو دیکھا۔ اور انھوں نے مجھے خاموش رہنے کو کہا۔‘

’میں ان کے گھر آئی ایک کپڑوں میں تھی لیکن مجھے دوسرے کپڑوں میں یہ کہہ کر بھیجا گیا کہ اس نے اپنے کپڑے خراب کردیے ہیں۔ مجھے یہ یاد ہے کہ میرے پیٹ میں کئی دنوں تک درد رہا۔ میں باتھ روم نہیں جاتی تھی جب تک میرے کپڑے خراب نہیں ہو جائیں۔ کیونکہ میں نے ایک بار کوشش کی تھی اور خون نکلا تھا۔ میں نے یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی۔ لیکن چچا کے گھر جانا پڑتا تھا۔ ان کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میں نے ضد کرنا شروع کر دی اور ان سے بدتمیزی بھی کی۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے بعد میرے چچا نے میرا تین بار اور ریپ کیا۔‘

عنبر نے بتایا کہ انھوں نے بظاہر کسی سے بات نہیں کی ’کیونکہ بچوں کی کوئی نہیں سنتا۔‘

زیادتی

لیکن کچھ برس بعد ان کو خواب آنے لگ گئے۔ جس میں ہر دفعہ ان کے ساتھ کوئی ریپ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان کی چیخ روکنے کے لیے ان کا گلا دبا رہا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ عنمبر نے سونا چھوڑ دیا۔ پھر ایک دوست کے کہنے پر ماہرِ نفسیات سے بات چیت شروع کی۔ لیکن اس کی فیس بہت زیادہ تھی۔ پھر کوئی اور ڈھونڈا۔ ایک ماہر نفسیات فون پر بات کرنے پر راضی ہوئیں۔ اور عنمبر نے اپنے تمام تر خواب ان کو سنائے۔

چھ ماہ پہلے عنبر نے اپنے والد سے بات کرنے کی ٹھانی۔ ’میری والدہ نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور وہ آج تک مجھ پر شک کرتی ہیں۔ میرے والد میرے ساتھ پولیس سٹیشن گئے تھے۔ تاکہ پولیس افسران کوئی بدتمیزی نہ کریں۔ میرے چچا کو تھانے میں ایک ہفتہ گزارنا پڑا لیکن اس دوران اتنا تماشا ہوا جس کے نتیجے میں میرے والد بیمار ہو گئے۔ میں نے مقدمہ واپس لے لیا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ مجھ پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ بات بتا کر بیمار کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کو جلدی ریٹائرمنٹ لینی پڑگئی۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ اس لیے ہے کیونکہ ایک طرف آپ خود کے ساتھ ایک جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف جب ہمت آجاتی ہے تو لوگ بولنے نہیں دیتے۔ میرے سامنے اب میرا کریئر ہے۔ کون بات کرے؟‘

’لڑکوں کا ریپ تھوڑی ہوتا ہے‘

جنسی زیادتی، سہیل ایاز، راولپنڈی

دنیا کے کئی ممالک میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے سیکس اوفینڈر رجسٹر سمیت فارینسک سائیکاٹری کا استعمال کیا جاتا ہے

’بچے ہوں یا بڑے ریپ کے بعد کوئی بات کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ بچوں کی عمر یہ سوچنے میں گزر جاتی ہے کہ ان کے ساتھ جو ہوا وہ ریپ تھا بھی یا نہیں۔ اور بڑے اپنی عزت خراب ہونے کے ڈر سے چپ رہتے ہیں۔‘ یہ کہنا ہے 25 سالہ عمران (فرضی نام) کا۔

عمران کا تعلق بھی راولپنڈی سے ہے۔ انھوں نے فون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو سال پہلے ان کو ایک کال سنٹر میں ان کے رشتہ دار نے نوکری پر لگوایا تھا۔

’یہی رشتہ دار اس کال سنٹر میں لائن مینیجر کے اسسٹنٹ تھے۔ میرے کھانے پینے سے لے کر کام پر ہونے والی کوئی بھی پریشانی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ میرا کام رات 9 بجے شروع ہوتا تھا اور صبح پانچ بجے تک ختم ہو جاتا تھا۔ اور یہ شخص کوشش کرتا تھا کہ یہ دفتر میں رہے جب تک میں رہوں۔ مجھے کئی بار اپنے آفس میں بلا کر سگریٹ پلاتا تھا۔ پچھلے برس، ایک رات اسی طرح مجھے قابو کر کے اس نے میرا ریپ کیا۔‘

عمران نے بتایا کہ ’میرا قد 6 فٹ ہے۔ میں متواتر جم جاتا ہوں۔ جس شخص نے میرا ریپ کیا اس کا قد مجھ سے آدھا ہو گا۔ لیکن اس لمحے مجھ سے کچھ نہیں ہو سکا۔ میں گھر آ کر بہت رویا۔ پھر غصے میں چیزیں توڑنا شروع کیں۔‘

عمران نے بتایا کہ ان کے گھر والوں کو لگا کے دوستوں سے جھگڑا ہوا ہے اس لیے چیزیں توڑ رہا ہے۔

’اب میں آپ کو کیا بتاؤں۔ میں نے پہلے اپنے بچپن کے دو دوستوں کو بتایا۔ انھوں نے کہا پاگل ہے؟ لڑکوں کا ریپ تھوڑی ہوتا ہے۔ میں نے ان سے ملنا جلنا بند کر دیا۔ پھر بالآخر میں نے اپنی گرل فرینڈ کو سب بتا دیا۔ ایک ایک بات اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر مجھ سے رشتہ نہیں رکھنا تو بھی ٹھیک ہے۔‘

عمران نے کہا کہ ان کے دوستوں کے رد عمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلموں میں بھی جہاں لڑکوں کو چھیڑنے کی بات آتی ہے وہاں مزاحیہ موسیقی ڈال دی جاتی ہے۔

’جیسے کہ ایک ہندی فلم میں نے دیکھی اس میں لڑکے کو سنگاپور میں چند اور لڑکے گھیر کے اس کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں۔ اس کے باقی دوست اس کو ڈھونڈ کر اسے بچا لیتے ہیں۔ لیکن بعد میں مزاحیہ میوزک آ جاتا ہے اور سب ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ لڑکوں کا ریپ نہیں ہوتا۔‘

عمران (فرضی نام) نے اس دوران انٹرنیٹ پر ایسے سماجی گروپس کو ڈھونڈنا شروع کیا جن میں لوگ ریپ سے متعلق بات کرتے ہوں۔ چند ایسے گروپ ان کے سامنے آئے لیکن بات کرنے کے ڈر سے عمران نے کچھ پوسٹ نہیں کیا۔

’اس دوران میں خود کو ہمت دلانے کے لیے جو کوشش ہوسکتی تھی کرتا رہا۔ لیکن اس سال تقریباً چھ ماہ پہلے میں نے قریبی تھانے میں ایف آئی آر درج کروا دی۔ میرے گھر والے مذہبی سوچ رکھتے ہیں تو ان سے بات کرنے کا سوال ہی نہیں بنتا تھا۔‘

لیکن اس کے بعد عمران کو دفتر میں ہراساں کیا گیا جو اس حد تک پہنچ گیا کہ انھوں نے اپنی درج کی ہوئی ایف آئی آر واپس لے لی۔

’افسوس زیادہ اس بات کا ہے ہم نے اپنے لیے خود ایسی مشکلات بنا ڈالی ہیں جس کے نتیجے میں کوئی سامنے آنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کو کہتے ہیں کہ خاندان کی عزت ڈبو دی۔ لڑکوں کو کہتے ہیں کہ مرد بنو۔ ایسے میں کیا کیا جاسکتا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp