قومی اسمبلی میں حکومت کا آرڈیننس، اپوزیشن کا ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان


پاکستان

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں جمعے کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سمجھوتے کی ایک غیرمعمولی صورتحال نظر آئی جب حکومت نے اسمبلی سے منظور شدہ 11 آرڈیننس منسوخ کرنے جبکہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کیا۔

یاد رہے کہ حکومت نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی زیر صدارت سات نومبر کو ہونے والے اجلاس میں 11 آرڈیننس پاس کرائے تھے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی تھی۔

سینیٹر شیری رحمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں ’صدارتی پلس‘ نظام رائج ہے جس کے تحت حکومت نے ایک ہی دن میں 11 صدارتی آرڈیننس منظور کرا لیے۔

یہ بھی پڑھیے

قاسم سوری کو ’ڈی سیٹ‘ کیے جانے کے فیصلے پر حکمِ امتناع

’بس ایک جھپکی کا سوال ہے۔۔۔‘

پی ٹی آئی کے اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی منتخب

کالے دھن کو سفید کرنے کا آرڈیننس سینیٹ میں پیش

تاہم جب جمعے کے اجلاس کے دوران اپوزیشن اور حکومت کے درمیان قومی اسمبلی میں مفاہمت ہوئی تو اس کا اعلان وزیر دفاع پرویز خٹک نے کیا۔

حکومت کی طرف سے اس پیش رفت پر اسد عمر اور اعظم سواتی نے بھی اظہار خیال کیا جبکہ اپوزیشن نے حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کی۔

اپنے خطاب میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے کہا کہ ایوان میں حکومت کی عددی اکثریت واضح ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدے متنازع بن جائیں۔

واضح رہے کہ حکومت کو سینیٹ میں وہ عددی اکثریت حاصل نہیں ہے تاہم اسد عمر کا کہنا ہے وہ متعدد بار اپنی اکثریت کا اظہار کر چکے ہیں۔ شاید ان کا اشارہ کچھ عرصہ قبل سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی طرف تھا۔

اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب متعلقہ پارلیمانی کمیٹیاں آرڈیننسوں پر غور کریں گی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ حکومت نے آرڈیننس واپس لے کر بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور اپوزیشن نے بھی ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے کر بڑے دل کا مظاہرہ کیا۔

حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کی تفصیلات

جمعرات کو سپیکر اسد قیصر کے چیمبر میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین کا اجلاس ہوا۔ اپوزیشن نے آرڈیننس واپس لینے کی صورت میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی شرط رکھی۔

حکومت نے آرڈیننس واپس لینے کے لیے وزیر اعظم عمران خان سے مشاورت کرنے کا وقت مانگا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا کہ وہ یہ تمام آرڈیننس واپس لے کیونکہ اگر معاملہ سینیٹ تک پہنچتا تو وہاں حکومت کو سرے سے اکثریت ہی حاصل نہیں ہے۔

پارلیمانی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی ایم بی سومرو نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے بڑا یو ٹرن لیا گیا ہے اور یہ حکومت کی بڑی شکست ہے۔

ان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس کے بعد حکومت نے سات نومبر کو یہ تمام آرڈیننس ایک گھنٹے میں قومی اسمبلی میں پیش کر کے منظور بھی کروائے تھے۔

اپوزیشن کا موقف یہ تھا کہ اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے یہ سب متعلقہ قوانین اور پارلیمانی روایات کے خلاف کیا۔ اس سے پارلیمانی کمیٹوں سے غور جبکہ اراکین سے قانون سازی پر سیر حاصل بحث کا حق بھی چھین لیا گیا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد اس فیصلے پر انھیں سپریم کورٹ سے حکم امتناعی ملا۔ ابھی ان کی نااہلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

منسوخ کیے گئے آرڈیننس کی نوعیت کیا ہے؟

ایم بی سومرو کے مطابق واپس لیے گیے 11 میں سے نو آرڈیننس جبکہ صرف دو بل ہیں۔ ان میں سے ایک آرڈیننس پی ایم ڈی سی کی تحلیل سے متعلق ہے جس پر اپوزیشن کے شدید تحفظات تھے۔

اسی طرح ایک آرڈیننس قومی احتساب بیورو کے قانون میں ترمیم سے سے متعلق تھا جس کے تحت 50 کروڑ سے زائد بدعنوانی کے مقدمات میں جیل میں سے کلاس اے اور بی کا خاتمہ شامل تھا۔

ایم بی سومرو کے مطابق اپوزیشن کو یہ خدشہ تھا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں پر شکنجہ مزید سخت کرنا تھا۔ اپوزیشن کو اعتراض یہ تھا کہ جیل مینوئل وفاقی نہیں بلکہ صوبائی معاملہ ہے۔

قومی اسمبلی

منسوخ کی گئی قانون سازی پر اب کیا ہو گا؟

منسوخ کیے گئے آرڈیننس اور بل اب دوبارہ متعلقہ پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے جائیں گے۔

ہر آرڈیننس بل کی صورت میں کمیٹیوں کے سامنے پیش کیے جائیں گے جس پر بحث کے بعد پارلیمانی کمیٹیاں اپنی رپورٹ قومی اسمبلی کو بھیج دیں گی جس کے بعد قومی اسمبلی میں اس پر بحث ہو گی۔

بحث کے بعد قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہو گی۔ اس وقت قومی اسمبلی میں حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ حکومت ان آرڈیننس کو منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

لیکن اس کے بعد یہ سب مزید بحث کے لیے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بھیج دیے جائیں گے جہاں ان آرڈیننس پر بحث ہو گی۔

اگر حکومت نے اپوزیشن کے اعتراضات مان لیے اور مجوزہ ترامیم شامل کرلیں تو پھر ان کی منظوری کے امکانات بڑھ جائیں گی۔ بصورت دیگر سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے قوی امکان یہی ہے کہ ووٹنگ کے دوران حکومت کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

مبصرین کے خیال میں اس پسپائی کے بعد اب حکومت کو ہر مرحلے پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا اور اتفاق رائے سے ہی یہ سب ممکن ہو سکے گا۔ البتہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش میں ان آرڈیننس سے حکومت کو جو فوری مقاصد حاصل کرنے تھے وہ ممکن نہیں رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp