رحمۃ للعالمین کانفرنس (سرکاری) کا آنکھوں دیکھا حال


بارہ ربیع الاوّل کو رحمۃ للعالمین کانفرنس سیرینا ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس 44 ویں رحمۃ للعالمین کانفرنس تھی جس کا موضوع ”ریاستِ مدینہ اور اسلامی فلاحی مملکت کا تصور۔ ۔ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ’‘ تھا۔ اس کانفرنس میں تمام مسالک کی نمائندگی، متعدد مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اور تقریباً پاکستان کی تمام جامعات کی نمائندگی موجود تھی۔ اس کے علاوہ ایران، عراق، تیونس اور مصر سے بھی علماء تشریف لائے ہوئے تھے۔

پاکستان بھر سے علماء، زعماء اور مشائخ بھی اس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کو دوحصوں یعنی اففتاحی اجلاس اور اختتامی اجلاس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دونوں سیشنز کے الگ الگ مہمانانِ خصوصی تھے۔ پہلے سیشن کے مہمانِ خصوصی وزیر اعظم عمران خان تھے جبکہ دوسرے سیشن کے مہمانِ خصوصی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی تھے۔ شیڈول کے مطابق صبح دس بجے پہلے سیشن کے مہمان خصوصی یعنی وزیر اعظم کو آجانا چاہیے تھا لیکن وہ وقت پر نہیں آسکے بلکہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وزیر اعظم کانفرنس ہال میں داخل ہوئے جس کی وجہ سے کانفرنس کافی تاخیر کا شکا رہوئی۔

سوا دس بجے کانفرنس کا آغاز تو ہوگیا تھا لیکن باقاعدہ آغاز مہمان خصوصی کے سامنے ہونا تھا جوکہ ساڑھے گیا رہ بجے کے بعد ہوا۔ اس تاخیر کی وجہ سے پورے پروگرام کا شیڈول متاثر ہوا۔ اسی طرح شیڈول کے مطابق افتتاحی سیشن کے آخر میں وزیر اعظم کو اپنی تقریر کرنے کے بعد انعامات تقسیم کرنا تھے لیکن وزیر اعظم اپنی تقریر کرنے کے بعد انعامات تقسیم کیے بغیر فوراً چلے گئے۔ یہاں ایک بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم اس رحمۃ للعالمین کانفرنس کے تقدس میں اپنا سر ڈھانپ کر آتے جس طرح انہوں نے سکھوں کی خوشنودی کے لیے کانفرنس سے ایک دن پہلے کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں اپنا سر ڈھانپا ہوا تھا۔

بہرحال ان کے جانے کے بعد پوری تقریب کا نظم و ضبط خراب ہوگیا۔ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہاں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ ایک سیاسی جلسہ میں لیڈر تقریر کر کے چلا گیا اور جلسہ ختم ہوگیا۔ اسی افراتفری کے عالم میں ہی نعتیہ اور سیرت کتب پر انعامات دینے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ تقریب میں دوبارہ نظم و ضبط قائم کرنے کا اسٹیج سے کئی بار اعلان کیا گیا لیکن نظم و ضبط قائم نہیں ہوسکا۔ اسی افراتفری کی وجہ سے اسٹیج سیکریٹری بھی پریشان ہوگئے اور ذمہ داران بھی حواس باختہ تھے۔

کسی کی شیلڈ کسی کے ہاتھ میں اور کسی کی شیلڈ کسی کے ہاتھ میں چلی گئی، پھر بعد میں ان سے لے کر صحیح ہاتھوں میں پہنچائی گئی۔ ایک عام تقریب میں اس طرح کی کوتاہیاں تو چلتی ہیں لیکن حکومتی سطح پر ہونے والی تقریب جس میں صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کی خصوصی آمد ہوتو ایسی تقریب میں یہ کوتاہیاں زیب نہیں دیتیں۔

اس کانفرنس کا موضوع تو بہت اچھا تھا لیکن اس موضوع پر اظہارِ خیال کماحقہ نہیں ہوسکا۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں سے بعض حضرات کی گفتگو تو اس طرح کی تھی گویا کہ یہ کانفرنس وزیرِ اعظم کے اعزاز میں رکھی گئی ہو۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر تو گفتگو بہت ہی کم ہوئی۔ البتہ وزیر اعظم کی تعریف بہت زیادہ سننے میں آئی۔ یہاں تک کہ بعض مقررین نے تو صرف وزیرِ اعظم کے ہی گن گائے۔ ٹھیک ہے اگر وزیر اعظم کے انقلابی اقدامات کو سراہنا مقصود تھا تومقررین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ یہ کانفرنس اس مقصد کے لیے نہیں رکھی گئی اور اس کا محل ہر گز یہ کانفرنس نہیں ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد عمران خان پہلے وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا عزم کیا، لیکن وقت کا تقاضا اور کانفرنس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ صرف ان کے اس اعلان اور عزم پر ہی ڈھول پیٹا جائے۔ علماء اور مقررین کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت کے سامنے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی تجاویز پیش کرتے۔ حکومت کو مؤثر اور قابلِ عمل تجاویز پیش کرتے جس کا کچھ فائدہ ہوتا۔ صرف اس بات کی لکیر پیٹنے سے تو کچھ نہیں ہوگا البتہ آگے کا لائحہ عمل طے کیاجائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجائے۔

اس کانفرنس میں انصاف اور قانون کی بات بھی ہوئی کہ یہاں امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ قانون ہے، اچھا دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود وزیر اعظم تھے۔ حالانکہ یہ بات کوئی اور کرتا تو قابلِ فہم ہوتی کہ حکومت پر تنقید کی جارہی ہے لیکن خود وزیر اعظم کا یہ بات کہنا چہ معنی دارد؟ ہاں البتہ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہماری حکومت سے پہلے انصاف کاخون ہوتا تھا اور ہم نے اس شعبہ پر توجہ دی اور غریب کے لیے بھی انصاف کا حصول آسان بنایا اور ہم نے فلاں فلاں غریبوں کو انصاف دلایا۔

کاش کہ وزیر اعظم کوئی ایک مثال پیش کردیتے لیکن انہوں نے بھی عام سیاستدان کی طرح اس شعبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح کانفرنس میں وزیر اعظم نے جھوٹ کے متعلق کہا کہ ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ریاستِ مدینہ میں بھی جھوٹ نہیں بولا جاتا تھا۔ آپ کو بھی ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہے اور جھوٹ نہیں بولنا۔ یہ بات سن کر تو وہاں موجود کئی چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکھی گئی اور یہ تجزیہ کرتے سناگیا کہ وزیرِ اعظم صاحب سچ کا درس دے رہے ہیں اور وہ خود تو یوٹرن خان کے نام سے مشہور ہیں۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ اس حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیا کیا وعدے کیے تھے، سب جانتے ہیں۔ مہنگائی میں کمی، نوکریاں، آسان قرضہ اور لاکھوں گھر بنانے کے وعدے سمیت کئی وعدے تھے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ایک ایک کرکے سب وعدوں سے یوٹرن لیا گیا۔ کشمیر کے متعلق بات ہوئی کہ ہم کشمیریوں کو نہیں چھوڑیں گے، ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ بدقسمتی سے سب کچھ الفاظ کا گورکھ دھندہ تھا۔ جملے بازی کے ذریعے کانوں کو خوش کیا جارہا تھا۔ وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر پر ہی جشن منایا جارہا تھا۔ اس کانفرنس میں اول تا آخر شرکت کے بعد یہ احساس ہوا کہ حکومت کسی بھی معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ریاستِ مدینہ کا صرف نام لے کر کانوں کو خوش رکھے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ عملی اقدامات کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

حکومتی سطح پر ہونے والی اس کانفرنس میں کچھ کمی اور کوتاہیاں محسوس ہوئیں جن کو دو رکرنا آئندہ کے لیے ضروری ہے۔ اول تو یہ کہ وقت کی پابند ی کا خیال رکھا جائے، تمام مہمانوں کو وقت کا پابند بنایاجائے۔ جو شیڈول تیار کیا جائے، اس پر عملدر آمد کو یقینی بنایاجائے۔ دوسری بات یہ کہ کانفرنس میں شرکاء کی تعداد کے حساب سے کرسیاں لگائی جائیں اور اسی کے حساب سے انتظامات کیے جائیں۔ اس کانفرنس میں کرسیوں کا انتظام شرکاء کے حساب سے کم تھا۔

اس کانفرنس میں یا تو کرسیوں کا انتظام زیادہ ہونا چاہیے تھا یاپھر کم لوگوں کو بلانا چاہیے تھا۔ تقریب شروع ہونے سے کافی دیر پہلے ہی ہال مکمل طور پر بھر گیا تھا۔ پھر بعد میں مزید کرسیاں لگائی گئیں لیکن وہ بھی ناکافی ثابت ہوئیں۔ آخر میں ہال کے پچھلے حصے کی جانب شرکاء کو بٹھایا گیا۔ افراد کے زیادہ ہونے کی وجہ سے تقریب میں زیادہ تر افراتفری کی کیفیت رہی۔ حالانکہ حکومتی سطح پر ہونے والی کانفرنس میں بلائے جانے والے مہمان کوئی عام لوگ نہیں تھے بلکہ خاص تھے۔

ہر آنے والا فرد کسی نہ کسی ادارے یا محکمے سے تعلق رکھتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کانفرنس میں پچانوے فیصد سے زیادہ لوگ پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ تھے تو غلط نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود نظم و ضبط قائم رکھنے کا اعلان اسٹیج سے کیا جارہا تھا، حالانکہ جہاں بڑی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ ہوں وہاں اس اعلان کی قطعی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اسی طرح شرکاء کی کثرت اور تقریب کے اختتام میں تاخیر کی وجہ سے آخر میں کھانے کی جگہ پر جو بد نظمی بلکہ بدتمیزی دیکھی گئی، وہ قطعی طور پر ناقابلِ بیان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).