میٹھے لوگوں کا عالمی دن


14 نومبر کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال ”World Diabetes Day“ یعنی میٹھے لوگوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو شوگر یعنی ذیابیطس سے آگاہی کے عالمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی تعداد بیالیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں شوگر کا مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل نے بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈیابیٹالوجی کے اشتراک سے ایک سروے کروایا۔

اٹھارہ ماہ جاری رہنے والے سروے کی رپورٹ گزشتہ برس جاری کی گئی جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک بڑی آبادی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اس ہوشربا رپورٹ کے مطابق 20 سال سے زائد عمر کے دو کروڑ چوہتر لاکھ افراد شوگر کی بیماری کا شکار ہیں۔ سروے کے مطابق پاکستان میں شوگر کے کل مریضوں میں مردوں کا تناسب 44 فیصد ہے جبکہ خواتین کا تناسب 56 فیصد ہے۔ بقائی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالباسط کے مطابق پاکستان اس وقت شوگر کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے۔

پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر اس پر بند نہ باندھا گیا اور شوگر کی بیماری اسی تیزی سے بڑھتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ آنے والے چند سال بعد شوگر کے مریضوں کے حوالے سے پاکستان کا شمار خدانخواستہ پہلے تین ممالک میں ہونے لگے گا۔

ذیابیطس یعنی شوگر کا مرض کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ شوگر کی ایک قسم ٹائپ ون بچوں میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریض بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

شوگر یا ذیابیطس کوئی موجودہ دور کی بیماری نہیں بلکہ یہ ایک قدیم بیماری ہے۔ اگر تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرض قبل مسیح میں بھی موجود تھا۔ 1552 قبل مسیح میں ہیسی را نامی مصری فزیشن نے زیادہ پیشاب آنے کے ساتھ لاغر پن کی علامات کو کسی نامعلوم بیماری سے تعبیر کیا۔ اس کے علاوہ بھی ماہرین ذیابیطس کے مطابق اس بیماری کے آثار زمانہ قدیم سے موجود ہیں۔

ذیابیطس یعنی شوگر کی بیماری سے مراد جسم میں گلوکوز کی مقدار کا نارمل سے بڑھ جانا ہے۔ شوگر کا مرض جسم میں معدے کے نیچے موجود ایک عضو لبلبہ کے فعل میں خرابی کے باعث ہوتا ہے۔ اس میں لبلبہ یا تو انسولین بالکل نہیں بنا رہا ہوتا یا جسم کی ضرورت سے کم مقدار میں بناتا ہے یا انسولین بنا تو رہا ہوتا ہے لیکن جسم میں کسی وجہ سے مزاحمت کی بنا پر وہ انسولین اپنا کام نہیں کر پا رہی ہوتی جس کے نتیجے میں خون میں شوگر کی مقدار نارمل سے تجاوز کر جاتی ہے۔

ماہرین ذیابیطس کے مطابق اگر آپ کی شوگر کا لیول صبح خالی پیٹ 70 سے 110 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور کھانے کے بعد 140 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر تک ہے تو آپ کو شوگر کی بیماری نہیں ہے۔ اگر آپ کا شوگر لیول کھانے سے پہلے 126 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور کھانے کے بعد 180 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر تک آتا ہے تو آپ پری ڈیابیٹک ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شوگر کی بارڈر لائن پر کھڑے ہیں اور مستقبل قریب میں آپ کو شوگر کی بیماری کے واضح امکانات ہیں لہذا اپنے ڈاکٹر سے فوری مشورہ کرکے لائف سٹائل میں تبدیلی لا کر آپ کافی عرصہ تک کے لیے شوگر کو مات دے سکتے ہیں۔ اگر آپ کا شوگر لیول اس سے زیادہ رہتا ہے تو آپ کو شوگر کی بیماری ہو چکی ہے۔

ماہرین ذیابیطس اور حالیہ تحقیقات کے مطابق موروثیت، موٹاپا، آرام پسندی، کھانے پینے میں بے اعتدالی، مرغن و نشاستہ دار عزاؤں کا بے دریغ استعمال اور باقاعدگی سے سیر نہ کرنا شوگر کے مرض کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ ان عوامل کے ساتھ ذہنی تفکرات بھی شوگر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سادہ طرز زندگی اپنا کر نہ صرف ذیابیطس سے بچا جا سکتا ہے بلکہ ذیابیطس کے مریض بھی خوشگوار اور لمبی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ شوگر سے بچنے کے لئے سادہ سے سادہ غذا کھائیں اور سنت نبوی کے مطابق بھوک رکھ کر کھائیں، فاسٹ فوڈز اور جنک فوڈز سے مکمل گریز کیجئے، صبح شام کم از کم آدھا گھنٹہ سیر کو اپنا معمول بنائیں۔

شوگر کا مرض تشخیص ہونے کے بعد مریض ایک دم پریشان ہو جاتا ہے۔ تشویش کی بجائے صرف اور صرف علاج کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ شوگر میں آپ تنہا نہیں ہیں بلکہ رپورٹس کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ اس بیماری میں مبتلا ہے۔ آپ باقاعدگی سے اپنے ڈاکٹر سے چیک اپ کروائیں اور ادویات کی خوراک ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق لیں، اپنی طرف سے مقدار خوراک میں کمی بیشی مت کیجئے۔ ماہرین کے مطابق شوگر اور بلڈ پریشر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لہٰذا بلڈ پریشر بھی وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔

اب تو تقریباً ہر بڑے سرکاری ہسپتال میں الگ سے شوگر سینٹر موجود ہیں جہاں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں شوگر کے مریض استفادہ کرتے ہیں۔

ایسے لوگ جو شوگر کی بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد مناسب علاج نہیں کرواتے یا ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے انھیں بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں زیادہ عرصے تک بے قابو شوگر دل، گردوں، آنکھوں، پٹھوں اور پاؤں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ پاکستان میں گردے فیل ہونے کی ایک بڑی وجہ بے قابو شوگر ہی ہے، آنکھوں کی بینائی بھی جا سکتی ہے اور لمبے عرصے تک خون میں شوگر کی زیادتی کی وجہ سے پاؤں کا زخم جلد مندمل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے پاؤں کاٹنا پڑتا ہے اس طرح شوگر مستقل معذوری کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا شوگر کو اتنا معمولی نہ لیں بلکہ باقاعدگی سے چیک اپ کروائیں اور اپنے ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیجئے۔

کچھ عطائی حضرات شوگر کا مکمل علاج کرنے کا دعویٰ کرے ہیں۔ ایسے کسی دعویٰ پر کان مت دھریں۔ تاحال پوری دنیا میں شوگر کا کوئی مکمل علاج دریافت نہیں ہوا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سے باقاعدہ چیک اپ، مناسب پرہیز، واک اور ادویات کے استعمال سے شوگر کو بآسانی مکمل کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے اور نارمل انسان کی طرح بھرپور اور لمبی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ کھانا بھوک رکھ کر اور وقفوں وقفوں سے کھائیں۔ گلوکومیٹر کے ساتھ شوگر باقاعدگی سے چیک کرتے رہیں اور ریکارڈ رکھیں۔ ڈاکٹر کا وزٹ کرتے وقت وہ ریکارڈ ساتھ لے کر جائیں۔ ڈاکٹر سے باقاعدہ چیک اپ، ہدایات پر عمل، واک اور مناسب پرہیز سے بعض مریضوں کو شوگر کنٹرول کے لئے ادویات کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔

شوگر کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف انجیکشن کے ذریعے انسولین لگانے کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ سال ہا سال کی ریسرچ سے یہ ثابت ہے کہ انجیکشن والی انسولین شوگر کے بہترین کنٹرول اور اچھی صحت کی ضامن ہے۔ کیونکہ یہ قدرتی انسولین ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ڈاکٹر صاحب آپ کو انجیکشن کے ذریعے انسولین لگانا تجویز کرتے ہیں تو باقاعدگی سے مجوزہ خوراک بے خوف و خطر لگائیں اور اردگرد لوگوں کی فضول باتوں پر کان مت دھریں۔ یاد رکھیں انجیکشن والی انسولین گردوں، جگر، پٹھوں کے لئے بیحد محفوظ ہے جبکہ بے قابو شوگر دل، آنکھوں، گردوں اور جسم کے دیگر اعضاء کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔

سادہ سے سادہ ترین طرز زندگی اپنائیں۔ شوگر دراصل طرز رہن سہن میں تبدیلی کا ہی نام ہے۔ آپ فطرت کے جتنا قریب تر ہوتے جائیں گے شوگر کی بیماری اتنا ہی آپ سے دور تر ہوتی جائے گی۔ شروع میں ہر ماہ اور بعدازاں کم از کم ہر تین ماہ بعد ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ضرور کروائیں۔ غذائی پرہیز اور واک کا شوگر کے علاج میں کلیدی کردار ہے۔ معروف اداکار عمر شریف عرصہ پچیس سال سے ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ عمر شریف کہتے ہیں کہ میں نے شوگر کی صورت میں ایک شیر پال رکھا ہے۔ میں شوگر کی مانتا ہوں اور شوگر میری۔ اسی طرح ہم دونوں مل جل کر راضی خوشی رہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).