موسمیاتی تبدیلی: ’کثیرالمنزلہ عمارتوں جتنی بلند برفانی پہاڑیوں کو منہدم ہوتے دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا‘


سو نتالی سنہ 2012 میں پہلی مرتبہ سائبیریا کے علاقے ’ڈووینی یار‘ پہنچیں۔

اس وقت وہ ایک ریسرچ فیلو تھیں جو کہ پرمافروسٹ یعنی ہزاروں سال سے مستقل طور منجمد زمینوں کے پگھلنے کے اثرات کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ وہ اس جگہ کی تصاویر پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکی تھیں۔

ڈووینی یار میں تیزی سے پگھلتی برف نے سائبیریا کے ٹنڈرا میدانوں کے وسط میں ایک دیو ہیکل گڑھا پیدا کر دیا تھا۔ مگر وہ اسے بذاتِ خود دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

امریکی ریاست میساچوسٹس کے ووڈز ہول ریسرچ سینٹر سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی حیران کن تھا۔ میں اب بھی اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھ میں ایک سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ مجھے کثیرالمنزلہ عمارتوں جتنی بڑی پہاڑیوں کو منہدم ہوتے دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

سطح سمندر میں اضافے کے اثرات ’گہرے‘ ہوں گے

امریکہ میں سخت ترین سردی کی لہر، آٹھ افراد ہلاک

یورپ میں گرمی کی لہر، جون میں ریکارڈ درجہ حرارت

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب آپ یہاں چلتے ہیں تو آپ کو ان جمے ہوئے میدانوں میں درختوں کے تنوں کی طرح ابھری ہوئی چیزیں دکھائی دیتے ہیں مگر وہ تنے نہیں بلکہ میمتھ (قدیم برفانی ہاتھی) اور برفانی دور کے دیگر جانوروں کی دیوقامت ہڈیاں ہوتی ہیں۔‘

نتالی جو بیان کر رہی ہیں وہ تیزی سے گرم ہوتے ہوئے آرکٹک خطے میں نظر آنے والے ڈرامائی اثرات ہیں۔

پرمافروسٹ پگھل رہا ہے اور اپنے اندر چھپے پراسرار راز منکشف کر رہا ہے۔

برفانی دور کے فوسلز کے علاوہ یہاں بڑی مقدار میں کاربن اور میتھین گیس، زہریلا مرکری (پارہ) اور قدیم بیماریاں موجود ہیں۔

نامیاتی مادوں سے مالا مال اس پرمافروسٹ میں اندازاً 1500 ارب ٹن کاربن موجود ہے۔ نتالی بتاتی ہیں کہ یہ ‘فضا میں موجود کاربن سے دو گنا زیادہ جبکہ دنیا بھر کے جنگلات میں ذخیرہ شدہ کاربن سے تین گنا زیادہ ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 2100 سے قبل 30 سے 70 فیصد پرمافروسٹ پگھل جائے گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں سے کس قدر مؤثر انداز میں نمٹتے ہیں۔

ان کے مطابق ’اگر ہم موجودہ شرح پر ہی ایندھن جلاتے رہے تو 70 فیصد پرمافروسٹ علاقے پگھل جائیں گے جبکہ اگر اس شرح میں زبردست کمی لائی جائے تو یہ 30 فیصد ہو جائیں گے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’30 سے 70 فیصد جو علاقے پگھلیں گے ان میں پھنسے ہوئے آرگینک مادوں کو جرثومے توڑنا شروع کر دیں گے۔ وہ اسے توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین کا اخراج ہوتا ہے۔‘

پگھلنے والی تقریباً دس فیصد کاربن سے ممکنہ طور پر فضا میں 130 سے 150 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے طور پر شامل ہو جائے گی۔

یہ سنہ 2100 تک ہر سال امریکہ کی جانب سے کاربن کے اخراج کی موجودہ شرح کے برابر ہے۔

پگھلتے ہوئے پرمافروسٹ کی وجہ سے سب سے زیادہ کاربن اخراج کے ذمہ دار ممالک کے فہرست میں ایک نیا ملک دوسرے نمبر پر آیا ہے اور جسے اب تک بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کے ماڈلز میں شمار نہیں کیا گیا ہے۔

نتالی کہتی ہیں کہ ’لوگ کاربن بم کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جیولوجیکل ٹائم سکیل پر یہ کوئی سست رفتار اخراج نہیں۔‘

’یہ کاربن کا ایک تالاب ہے جو ایک جانب بند پڑا ہے اور کرۂ ارض کے درجۂ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کے لیے جب کاربن کے اخراج کا حساب لگائے جاتے ہیں تو اس کا شمار نہیں کیا جاتا۔‘

سنہ 2018-2019 کی کرۂ شمالی کی سردیاں پولر ورٹیکس کی وجہ سے شہہ سرخیوں میں رہیں جبکہ شمالی امریکہ میں درجہ حرارت غیر معمولی حد تک کم رہا۔

ریاست انڈیانا کے شہر ساؤتھ بینڈ میں جنوری سنہ 2019 میں درجہ حرارت منفی 29 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو کہ اس شہر کے سنہ 1936 کے پچھلے ریکارڈ سے تقریباً دگنا کم تھا۔

مگر ان سب خبروں میں جس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا وہ یہ کہ زمین کے انتہائی شمال میں آرکٹک سرکل یعنی دائرہ قطب شمالی میں اس کے بالکل الٹ ہو رہا تھا۔

جنوری سنہ 2019 میں ہی بحرِ آرکٹک میں اوسطاً ایک کروڑ 35 لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر برف جمی جو کہ سنہ 1981 تا سنہ 2010 کی طویل مدتی اوسط سے آٹھ لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر کم جبکہ جنوری 2018 کی ریکارڈ کمی سے تھوڑی ہی زیادہ تھی۔

نومبر میں جب درجہ حرارت منفی 25 تک ہونا چاہیے تھا تب قطبِ شمالی میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے 1.2 ڈگری زیادہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ آرکٹک باقی کرۂ ارض کے مقابلے میں دو گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے (جو کہ سورج کی شعاعوں کو منعکس کرنے کی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے بھی ہے)۔

سمندروں اور فضا پر نظر رکھنے والے امریکی حکومت کے ادارے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کے آرکٹک ریسرچ پروگرام کی مینیجر اور آرکٹک کی سالانہ ماحولیاتی تحقیق آرکٹک رپورٹ کارڈ کی مدیر ایمیلی اوسبورن تصدیق کرتی ہیں کہ ’ہم پرمافروسٹ کے پگھلنے میں بڑا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’فضا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے وجہ سے برفانی میدان پگھل رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان علاقوں کا ارضی منظر بکھر رہا ہے۔ چیزیں اتنی تیزی سے اور ان طریقوں سے تبدیل ہو رہی ہیں جن کی محققین نے توقع بھی نہیں کی تھی۔‘

ناروے میں یونیورسٹی سینٹر سوالبارڈ میں پروفیسر اور ایجوکیشن کی نائب ڈین ہان کرسچنسن کے ایک مشترکہ طور پر تحریر کردہ تحقیقی مطالعے میں 20 میٹر (یعنی 65 فٹ) کی گہرائی میں پرمافروسٹ کے درجۂ حرارت کا جائزہ لیا اور ان کے علم میں یہ بات آئی کہ سنہ 2000 سے اب تک درجۂ حرارت میں 0.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔

یہ گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ مختصر المدتی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہو سکتی۔

کرسچنسن جو کہ انٹرنیشنل پرمافروسٹ ایسوسی ایشن کی صدر بھی ہیں، انھوں نے بتایا کہ ’پرمافروسٹ کے اندر درجہ حرارت نسبتاً تیزی سے بڑھ رہا ہے چنانچہ پہلے جو کچھ منجمد تھا اس کا اب اخراج ہو سکتا ہے۔‘

سنہ 2016 میں سوالبارڈ میں خزاں کا درجۂ حرارت پورے نومبر میں صفر سے اوپر رہا۔ کرسچنسن کہتی ہیں ہمارے پاس 1898 تک کے جو سب سے پرانے ریکارڈز موجود ہیں، ان کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد کافی زیادہ بارشیں ہوئیں۔ یہاں بارشیں عموماً برفانی ہوتی ہیں۔ یہاں سڑکوں پر سینکڑوں میٹر تک کیچڑ بہہ رہا تھا۔ ہمیں کئی علاقے لوگوں سے خالی کروانے پڑے۔‘

شمالی امریکی پرمافروسٹ میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیاں خطرے کی علامت ہیں۔ نتالی جن کے کام کا علاقہ سائیبیریا سے الاسکا منتقل ہو چکا ہے، کہتی ہیں کہ ’الاسکا کے آرکٹک علاقے میں کچھ جگہوں پر آپ اڑان بھریں تو نیچے آپ کو زمین میں سوئس پنیر کی طرح گڑھے اور زمین کے دھنسنے سے بننے والی جھیلیں نظر آتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جو پانی سطح کے قریب تھا وہ اب تالاب بن چکا ہے۔‘

ان میں سے کئی تالابوں میں میتھین گیس کے بلبلے اٹھتے رہتے ہیں کیونکہ خوردبینی جرثوموں کو اچانک اپنی خوراک کے لیے اتنی بڑی مقدار میں قدیم آرگینک مواد مل جاتا ہے جسے کھانے سے میتھین گیس پیدا ہوتی ہے۔

نتالی کہتی ہیں کہ ’ہم اکثر جھیلیں پیدل پار کر لیتے ہیں کیونکہ ان کی گہرائی بہت کم ہوتی ہے اور کچھ جگہوں پر اتنے بلبلے اٹھ رہے ہوتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ گرم پانی کے ٹب میں ہوں۔‘

مگر مستقل طور پر منجمد رہنے والی زمین سے خارج ہونے والی چیزوں میں صرف میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی شامل نہیں۔

سنہ 2016 کی گرمیوں میں قطبی ہرنوں کے خانہ بدوش چرواہوں کا ایک گروہ ایک پراسرار بیماری کا نشانہ بننا شروع ہوا اور خطے میں آخری مرتبہ سنہ 1941 میں دیکھی گئی بیماری ’سائبیریائی طاعون‘ کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔

جب ایک نوجوان لڑکا اور 2500 قطبی ہرن ہلاک ہوئے تو اس بیماری کو اینتھریکس کے طور پر شناخت کر لیا گیا۔

اس کی ابتدا ایک ایسے قطبی ہرن کی پگھلتی ہوئی لاش سے ہوئی تھی جو 75 سال قبل اینتھریکس کی وبا کا نشانہ بنا تھا۔

سنہ 2018 کے آرکٹک رپورٹ کارڈ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’ممکنہ طور پر کرۂ ارض سے ختم ہوچکے امراض مثلاً ہسپانوی فلو، چیچک یا طاعون اب بھی پرمافروسٹ میں منجمد ہوسکتے ہیں۔‘

سنہ 2014 میں ہونے والی ایک فرانسیسی تحقیق میں پرمافروسٹ سے ایک 30 ہزار سال قدیم منجمد وائرس کو نکالا گیا اور لیبارٹری میں اسے گرمی پہنچائی گئی تو وہ 300 صدیاں گزر جانے کے باوجود فوراً زندہ ہوگیا۔ (اس حوالے سے مزید یہاں پڑھیے)

انسانیت کی تباہی کے ان خدشات میں ایک اور خطرے کا اضافہ سنہ 2016 میں اس وقت ہوا جب ناروے کے آرکٹک میں آنے والے ایک حصے میں قائم ڈومز ڈے والٹ جہاں دنیا کے لاکھوں پودوں کے بیج ہمیشہ کے لیے محفوظ کیے گئے ہیں، میں پگھلتی ہوئی برف کا پانی داخل ہوگیا۔

اس کے علاوہ گلوبل ٹیریسٹریئل نیٹ ورک فار پرما فروسٹ کے ارکان میں سوئیڈش نیوکلیئر ویسٹ مینیجمنٹ بھی ہے جو کہ ممکنہ طور پر ایٹمی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مستقل طور پر منجمد پرمافروسٹ پر منحصر ہیں۔

جب بی بی سی فیوچر نے اس موقع پر ان سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

طویل عرصے سے محفوظ رہنے والے انسانی آثارِ قدیمہ بھی ممکنہ طور پر ظاہر ہورہے ہوں گے مگر اتنی ہی جلدی غائب بھی ہو جائیں گے۔ گرین لینڈ میں 4000 سال سے محفوظ حالت میں رہنے والی ایک اسکیمو سائٹ اب بہہ جانے کے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔

یہ پرمافروسٹ میں محفوظ ایک لاکھ 80 ہزار آثارِ قدیمہ کے مقامات میں سے صرف ایک ہے۔ ایسی سائٹس میں عموماً نرم بافتے اور کپڑے تک محفوظ رہ جاتے ہیں مگر پگھلنے پر یہ فوراً سڑ کر ختم ہوسکتے ہیں۔

یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس یا فکرمند سائنسدانوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والے ایڈم مرخم کہتے ہیں کہ ’انسانوں کی وجہ سے ہونے والی تیز تر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی سائٹس یا ان میں موجود نوادرات اپنی دریافت سے پہلے ہی ضائع ہو جائیں گے۔‘

مگر زیادہ جدید (اور ضروری) انسانی کچرا مثلاً باریک سمندری پلاسٹک وغیرہ نہیں سڑے گا۔

عالمی بحری لہروں کی وجہ سے زیادہ تر پلاسٹک کچرا آرکٹک آ پہنچتا ہے جہاں یہ سمندری برف یا پھر پرمافروسٹ میں جم جاتا ہے۔

سمندروں میں پائے جانے والے خوردبینی پلاسٹک کے ذرات پر ہونے والی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ ان کا تناسب دنیا بھر کے سمندروں کے مقابلے میں بحرِ آرکٹک میں سب سے زیادہ تھا۔

بحیرہ گرین لینڈ میں مائیکرو پلاسٹک کے ارتکاز میں 2004 سے 2015 کے درمیان دو گنا اضافہ ہوا۔

اوسبورن بتاتی ہیں کہ ‘سائنسدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ مائیکرو پلاسٹک پورے سمندر میں جمع ہو رہے ہیں اور آرکٹک میں پھینکے جا رہے ہیں۔

’ہمیں اس سے قبل یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ سائنسدان اب یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ یہ مائیکرو پلاسٹک کن اجزاء پر مشتمل ہیں اور کس قسم کی مچھلیاں انھیں اپنی خوراک بنا رہی ہیں، اور یہ کہ کہیں ہم بھی ان مچھلیوں کو کھا کر مائیکرو پلاسٹک تو نہیں کھا رہے؟

پگھلتے ہوئے پرمافروسٹ کی وجہ سے مرکری بھی غذائی چین میں شامل ہو رہا ہے۔ پورے کرۂ ارض میں سب سے زیادہ مرکری آرکٹک میں پایا جاتا ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کا اندازہ ہے کہ قطبی برف اور پرمافروسٹ میں کوئی 16 لاکھ 56 ہزار ٹن مرکری پھنسا ہوا ہے جو کہ دنیا بھر کی دیگر تمام زمین، سمندروں اور فضا سے دو گنا ہے۔

نتالی بتاتی ہیں کہ ’جن جگہوں پر بڑی مقدار میں نامیاتی مواد موجود ہوتا ہے وہاں اکثر مرکری اس مواد کے ساتھ خود کو جوڑ لیتا ہے۔

’جانداروں کے جسم اسے خارج نہیں کرتے چنانچہ یہ غذائی چین میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ پرمافروسٹ میں بھی بے تحاشہ مرکری موجود ہے اور جہاں سے یہ ویٹ لینڈز یعنی آب گاہوں میں جمع ہوجاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ جانداروں کی جانب سے مرکری جذب کرنے کے لیے بالکل مناسب ماحول ہوتا ہے اور پھر یہ غذائی چین میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ جنگلی حیات، انسانوں اور ماہی گیری کی صنعت کے لیے نقصاندہ ہے۔’

کیا آرکٹک کے پگھلنے کے کچھ مثبت اثرات بھی ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسے آرکٹک میں زیادہ درخت اور سبزہ جنم لے سکتا ہے جو کہ بعد میں چل کر زیادہ کاربن استعمال کر کے فضاء صاف کرے اور جانوروں کے لیے مزید چراگاہیں فراہم کرے؟

اوسبورن تسلیم کرتی ہیں کہ ’آرکٹک سبز ہورہا ہے‘ مگر وہ بتاتی ہیں کہ جانوروں کی آبادیوں پر ہونے والی تحقیق کے مطابق ’گرم تر درجہ حرارت کی وجہ سے مختلف وائرس اور امراض بھی بڑی تعداد میں پھلنے پھولنے لگتے ہیں، چنانچہ اس گرم موسم کی وجہ سے ہم بڑی تعداد میں قطبی ہرنوں کو بیمار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

’یہ وہ ماحول بالکل بھی نہیں ہے جو اس گرم درجۂ حرارت پر باقی رہ سکے۔‘

نتالی کہتی ہیں کہ کئی علاقے ’ٹنڈرا براؤننگ‘ نامی مرحلے کا بھی سامنا کر رہے ہیں جس میں بلند درجۂ حرارت کی وجہ سے سطح پر موجود پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں پودے مر جاتے ہیں۔

کچھ دیگر علاقوں میں زمین کے دھنسنے کی وجہ سے اچانک سیلاب بھی آ رہے ہیں۔ نتالی کہتی ہیں کہ ‘یہ سال 2050 یا 2100 میں نہیں بلکہ ابھی ہو رہا ہے۔ آپ لوگوں کو کہتے سنیں گے کہ ‘ہم تو وہاں سے پھل چنتے تھے‘ اور اب آپ وہاں دیکھیں تو وہ جگہ ویٹ لینڈ میں بدل چکی ہے۔‘

مگر نتالی گفتگو کا مایوس کن اختتام نہیں چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آرکٹک کی تقدیر ابھی ہمارے ہاتھوں سے نکلی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بین الاقوامی برادری کے اقدامات کا کاربن کے اخراج کی مقدار اور پرمافروسٹ کے پگھلنے والے رقبے پر قابلِ قدر اثر پڑے گا۔ ہمیں جس قدر ہو سکے اتنے پرمافروسٹ کو منجمد رکھنا ہو گا اور ہمارا اس پر کچھ کنٹرول بھی ہے۔‘

ہمارا کاربن کا اخراج ’جیسے چل رہا ہے ویسے‘ جاری نہیں رہ سکتا۔ آرکٹک اس پر منحصر ہے اور ہم آرکٹک پر منحصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp