ڈیجیٹل ملبوسات: 9500 ڈالرز کا قیمتی لباس جس کا حقیقی زندگی میں کوئی وجود ہی نہیں


سین فرانسسکو کی ایک سکیورٹی کمپنی کے اعلی عہدیدار رچرڈ ما نے رواں برس کے آغاز میں اپنی اہلیہ کے لیے 9500 ڈالر کا ایک لباس خریدا لیکن اس لباس کو ہاتھ میں پکڑنا یا اصل میں پہننا ممکن نہیں ہے۔

کسی بھی لباس کے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے، خاص کر تب جب لباس سرے سے اپنا وجود ہی نہ رکھتا ہو۔

یہ ایک ڈیجیٹل لباس ہے جسے ’دا فیبریکینٹ‘ نامی فیشن کمپنی نے تیار کیا ہے۔ انھوں نے اس لباس کو رچرڈ کی اہلیہ میری رین کے تصویر کی مناسبت سے تیار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آسکرز ایوارڈز کے فیشن

جب قیدی بنے فیشن ڈیزائنر!

دنیا میں پھیلے فیشن کے رنگ

اس تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا سکتا ہے اور اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں مانے گا کہ یہ لباس سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

ما کا کہنا ہے کہ ’بے شک یہ لباس بہت قیمتی ہے، لیکن یہ ایک طرح کی سرمایہ کاری بھی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی اہلیہ عام طور پر قیمتی کپڑے نہیں خریدتے لیکن اس لباس کو خریدتے وقت انھیں لگا کہ ایک لمبے عرصے تک یہ لباس قیمتی رہے گا۔‘

ڈیجیٹل فیشن

Carlings
کارلنگز کی ویب سائٹ پر موجوڈ تمام ڈیجیٹل سویٹر ایک ماہ میں بک گئے

انھوں نے کہا کہ ’آج سے دس سال بعد ہر کوئی ڈیجیٹیل کپڑے پہنے گا۔ یہ ایک یادگار کی طرح ہے۔ یہ اپنے دور کی ایک نشانی ہے۔‘

رین نے اپنے ذاتی فیس بک پیج اور وی چیٹ پر یہ تصویر شیئر کی ہے لیکن اس کے علاوہ مختلف سماجی پلیٹ فارمز پر یہ تصویر پوسٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈیجیٹل ملبوسات

ایک اور کمپنی ’کارلنگز‘ بھی اس طرح کے ڈیجیٹل کپڑے بنا رہی ہے۔ گذشتہ اکتوبر میں انھوں نے اپنے ڈیجیٹل ملبوسات کی فروخت شروع کی جس میں سب سے سستے لباس کی قیمت محض 11 ڈالر تھی۔

کارلنگز کے برانڈ ڈائریکٹر رونی میکالسن نے کہا کہ اصل میں ’سولڈ آؤٹ‘ کہنا بھی تھوڑا بیوقوفانہ بات لگتی ہے۔

اصولی طور پر ان ملبوسات کا ختم ہو جانا ناممکن ہے کیوںکہ یہ تو ڈیجیٹل ہیں، یعنی آپ جتنے چاہیں اُتنے لباس بنا سکتے ہیں۔ اس لیے ہم نے طے کیا کہ ہم اپنے ہر پراڈکٹ کو خاص بنانے کے لیے انھیں ایک محدود تعداد میں ہی بنائیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل استعمال کے لیے اشیا بنانے والے ڈیزائنر اب پرانی حدود سے باہر سوچ سکتے ہیں اور بہت کچھ نیا آزما سکتے ہیں۔

میکالسن نے کہا کہ ’آپ سفید ڈیجیٹل شرٹ تو نہیں خریدیں گے، ہے نا؟ اس کی نمائش کر کے کیا فائدہ؟ یعنی ڈیجیٹل کپڑوں میں ایسی بات ہونی چاہیے جس کی یا تو آپ نمائش کرنا چاہیں یا کچھ ایسا جسے اصل میں آپ خرید نہ سکیں یا پھر وہ بہت مہنگے ہوں۔‘

ڈیجیٹل فیشن

Carlings
کسی بھی لباس کے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے، خاص کر تب جب لباس کا اصل دنیا میں کوئی وجود ہی نہ ہو

کارلنگ کی ڈیجیٹل کلیکشن کو حقیقی زندگی میں پہنے جانے والے کپڑوں کے ڈیزائن کے اشتہار کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن کمپنی کو لگتا ہے کہ اس آئیڈیا میں دم ہے۔ ڈیجیٹل ملبوسات کا دوسرا کلیکشن سنہ 2019 کے آخر میں فروخت کیا جائے گا۔

دا فیبریکینٹ نامی کمپنی اپنی ویب سائٹ پر ہر ماہ ڈیجیٹل کپڑوں کی فروخت کرتی ہے۔ لیکن ان کپڑوں کو خریدنے والوں کے پاس وہ سافٹ ویئر اور ہنر ہونا چاہیے جس سے کپڑوں کو وہ اپنی تصاویر پر ٹھیک سے پہنا سکیں۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تک ڈیجیٹل فیشن مقبولیت حاصل نہیں کر لیتا، کمپنی کو اپنے گزارے کے لیے آمدنی کا کوئی اور راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔

دا فیبریکینٹ کے بانی کیری مرفی نے بتایا کہ ’ہم دوسری فیشن کمپنیوں کی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر فروخت کے لیے مارکیٹنگ جیسے معاملات میں مدد کرتے ہیں۔‘

یہ پوری طرح واضح نہیں ہے کہ کارلنگ سے کپڑے خریدنے والے یا دا فیبریکینٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنے والے لوگ کون ہیں۔

میکالسن نے بتایا کہ کارلنگز اب تک تقریباً 250 ڈیجیٹل کپڑے فروخت کر چکی ہے۔ جب انھیں انسٹاگرام پر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو صرف چار ایسے افراد کا پتا چلا جنھوں نے خریداری ذاتی سطح پر کی تھی اور ان کا کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تاہم ممکن ہے کہ خریدے جانے والے ڈیجیٹل کپڑوں کو نجی طور پر شیئر کیا گیا ہو۔

دا فیبریکینٹ کی ایک ڈیجیٹل ڈریس

The Fabricant
چند لوگ کسی خاص مقام کے لیے خاص لباس چاہتے ہیں

مارکیٹ پر تحقیق کرنے والی کمپنی این ڈی پی کے چیف تجزیہ کار مارشل کوہین ڈیجیٹل فیشن کو زبردست سمجھتے ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس عجیب و غریب فیشن ٹرینڈ کی عمر کتنی ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ ’کیا مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے اور اس کا کبھی اختتام نہیں ہو گا؟ نہیں۔‘

کوہین نے بتایا کہ ’یہ ٹیکنالوجی ان کے لیے کارگر ہے جو زبردست تصاویر لینا پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ کو وہ کپڑے نہیں پسند ہیں جو آپ نے پہنے ہوئے ہیں، لیکن وہ جگہ پسند ہے جہاں آپ یہ تصویر لے رہے ہیں، تو اب آپ کے پاس یہ موقع ہے کہ آپ اس تصویر میں کپڑے بدل سکیں۔

’ڈیجیٹلی بہتر بنائی جانے والی تصاویر میں یہ ممکن ہے کہ آپ سب سے نئے فیشن کے بہترین کپڑے پہنے دکھائی دے سکتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

کراچی فیشن ویک کا اختتام

لاہور میں عروسی فیشن ویک کا آغاز

حجاب کو فیشن بنانے پر خواتین ناخوش

ڈیجیٹل فیشن

EPIC GAMES
کمپیوٹر گیمز میں دلچسپی رکھنے والے افراد گیمز کے کرداروں جیسے کپڑوں کے لیے پیسے خرچ کرنے کو تیار ہیں

کمپیوٹر گیمز میں دلچسپی رکھنے والے افراد گیمز کے کرداروں جیسے کپڑوں کے لیے پیسے خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ دا فیبرکینٹ کو بھی ویڈیو گیمز نے ڈیجیٹل کپڑوں کی تخلیق کے لیے کسی حد تک متاثر کیا ہے۔

میکالسن نے بتایا کہ ’ویڈیو گیم فورٹنائٹ سے متاثر ملبوسات کی واحد وجہ یہی تھی کہ لوگوں کی ان کرداروں جیسی جلد اور لباس حاصل کرنے میں دلچسپی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ جس طرح ٹیکنالوجی اور لوگوں کی طرز زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ دنیا بدل رہی ہے۔‘

گیمز کے کرداروں جیسی جلد پر کام کرنے والے ڈیزائنرز کے لیے چیلنج اور بھی بڑا ہے۔ انھیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ جلد ان کی کہانی اور کردار کے مطابق ہو۔

کاسمیٹک کنسلٹنٹ جینیل جیمینیز نے بتایا کہ گیمنگ سے متعلق ملبوسات کو ایک بار تیار کرنے کے بعد اصل چیلنج شروع ہوتا ہے۔ جلد گیم میں مکمل طور پر فٹ ہونی چاہیے۔ ڈیجیٹل فیشن کے برعکس گیمز میں چلنا، ڈانس کرنا اور لڑائیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔

لیگ آف لیجینڈز جیسی گیمز کے لیے اسے تھری ڈی میں تیار کیا جاتا ہے۔ دھماکوں اور ساؤنڈ افیکٹس کے ساتھ سب کچھ اس گیم کے اعتبار سے قابل یقین لگنا چاہیے۔

ویڈیو گیمز میں ایک بڑی آبادی کی دلچسپی کی وجہ سے ڈیزائنرز کو یقین ہے کہ ڈیجیٹل کپڑوں کا مستقبل ہے۔

لندن کالج آف فیشن میں فیشن انوینشن ایجنسی کے سربراہ میتھیو ڈرنکواٹر کہتے ہیں کہ ’مستقبل میں ڈیجیٹل فیشن ہر طرح کے فیشن کے کاروبار کے لیے بزنس ماڈل ہو گا۔‘

ان کا خیال ہے کہ ’یہ سب کچھ تو نہیں بدل دے گا، لیکن فیشن کی دنیا کا ایک اہم حصہ ضرور ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp