مریخ پر آکسیجن کی مقدار کا کیا معمہ ہے


سیارہ مریخ پر بھیجے گئے کیوریوسٹی مشن پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مریخ کی ہوا میں موجود آکسیجن کی مقدار اور ہیئت میں جس طرح کی تبدیلیاں آ رہی ہیں ان کی وضاحت اب تک معلوم کیمیائی تعاملات یا طریقوں سے نہیں کی جا سکتی۔

سرخ سیارے پر آکسیجن گیس کی پیمائش کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ موسم بہار اور گرما کے دوران مریخ کی ’ہوا‘ میں موجود آکسیجن کی مقدار میں 30 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

یہ اضافہ ایک معمہ بنا ہوا ہے البتہ محققین اس کے حل کے امکانات کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

اگرچہ بظاہر ان تغیرات کا سبب مریخ کی جیولوجی یا ساخت ہے، تاہم اس عمل کی وضاحت میں خلائی سائنسدان وہاں مائکروبیئل زندگی یا خورد اجسام کی موجودگی کو بھی رد نہیں کرتے۔

یہ نتائج زمین کے چھ جبکہ مریخ کے تین برس کے دوران جمع شدہ معلومات کے تجزیے سے حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ تجزیہ کیوریوسٹی میں نصب ’سامپل اینالِسس‘ نامی کیمیائی تجربہ گاہ میں کیا گیا ہے۔

سائنسدانوں نے گیل کریٹر (گڑھا) کے بالکل اوپر پائی جانے والی گیسوں میں موسمی تبدیلیوں کی پیمائش کی ہے۔ گیل کریٹر مریخ کی سطح پر گڑھے نما قدرے نشیبی مقام جہاں کیوریوسٹی مشن اترا تھا۔

مریخ کی فضا کا بہت بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، جبکہ سالمی (مالیکیولر) نائٹروجن، آرگن، سالمی آکسیجن اور میتھین گیسوں کی بھی کم مقدار پائی جاتی ہے۔

نائٹروجن اور آرگن میں معمول کے مطابق موسمی تبدیلیاں نظر آئیں جن کا انحصار ہوا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار پر تھا۔ انھیں توقع تھی کہ آکسیجن میں بھی ایسی ہی تبدیلی ہوگی، مگر ایسا نہیں ہوا۔

مریخ کے شمالی نصف کرّہ میں ہر موسم بہار میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ اور موسم خزاں میں کمی واقع ہوئی۔

سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ممکن ہے کاربن ڈائی آکسائڈ یا پانی کے سالموں کے فضا میں ٹوٹنے سے اضافی آکسیجن پیدا ہوئی ہو۔ لیکن اس کے لیے تو وہاں موجود پانی کی پانچ گنا سے بھی زیادہ مقدار درکار ہوتی، جبکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے ٹوٹنے کا عمل انتہائی سُست ہوتا ہے اور اس سے اتنے کم وقت میں اتنی اضافی آکسیجن پیدا نہیں ہو سکتی۔

برطانیہ میں اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر منیش پٹیل کہتے ہیں ’ہم جانتے ہیں کہ مریخ پر سورج کی روشنی کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کو توڑ کر آکسیجن کے پیدا اور فنا ہونے کا سبب بنتی ہے۔ جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ اس میں اتنا فرق کیوں ہے۔ یہ ہماری توقع سے زیادہ ہے۔‘

امریکا میں یونیورسٹی آف میری لینڈ سے وابستہ ڈاکٹر ٹیماتھی میککونوچی کا کہنا ہے کہ ’آپ مریخ کی فضا میں موجود آبی بخارات کے سالموں کی مقدار ناپ سکتے ہیں، اور ساتھ ہی آکسیجن کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ وہاں اتنے آبی سالمے ہی ہے نہیں۔‘

محققین نے اس نکتے پر بھی غور کیا ہے کہ آکسیجن کی مقدار میں اضافے کے بعد اس میں خزاں کے موسم میں کمی کیوں ہو جاتی ہے۔ ایک خیال ہے کہ شمسی تابکاری آکسیجن کے سالموں کو اس کے جوہر یعنی ایٹم میں توڑ دیتی ہے اور یہ جوہر بعد میں خلا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ مگر جب سائنسدانوں نے اس عمل کا حساب لگایا تو پتا چلا کہ اس طرح آکسیجن کے فنا ہونے کے لیے کم سے کم دس برس لگنے چاہییں۔

پھر آکسیجن کی مقدار میں موسمی اضافہ سال بسال یکساں نہیں ہے۔ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ہے جو آکسیجن بنانے اور پھر اسے ختم کرنے کا سبب ہے۔

میککونوچی کہتے ہیں کہ مریخ کی سطح کے نیچے آکسیجن کا منبع موجود ہے، ’میرے خیال میں یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں (آکسیجن کا) کوئی ذخیرہ ہے جو فضا اور مٹی کے درمیان گھٹتا بڑھتا رہا ہے۔‘

اس بات کے کچھ شواہد ناسا کے وائکِنگ لینڈرز سے بھی ملتے ہیں جو ستّر کی دہائی میں سرخ سیارے (مریخ) پر بھیجے گئے تھے۔ ایک خانے میں جہاں مریخ کی مٹی موجود تھی جب نمی بڑھی تو وہاں آکسیجن کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا۔

لیکن ڈاکٹر میککونوچی کہتے ہیں کہ وائکنگ کے خانے کا درجۂ حرارت موسم بہار اور گرما میں مریخ کی سطح کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ اس وجہ سے ان نتائج کا اطلاق مریخ کی فضا پر نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول ’یہ ایک اہم اشارہ ہے، مگر اس سے ہمیں اس گتھی کو سلجھانے میں براہ راست کوئی مدد نہیں ملتی۔‘

مریخ کی فضا موسم بہار اور گرما میں زیادہ مرطوب ہو جاتی ہے۔ سردیوں میں قطبین پر برف جم جاتی ہے۔ اور پھر گرمیوں میں وہاں سے پانی کے بخارات نکلتے رہتے ہیں۔

اُس وقت پورے سیارے کی رطوبیت اور آکسیجن کے اخراج میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

حیرت انگیز طور آکسیجن میں آنے والی تبدیلیاں ویسی ہی ہیں جیسی میتھین میں آتی ہیں، جو ناقابلِ فہم طور پر گرمیوں میں 60 فی صد تک بڑھ جاتی ہے۔

مریخ پر متھین کی موجودگی کا معمہ بھی کم الجھن کا باعث نہیں کیونکہ یہ گیس زمین پر تو نامیاتی یعنی زندہ اجسام سے پیدا ہوتی ہے اور مریخ پر اس کی موجودگی کا سبب بعض مریخیاتی یا جیولوجیکل عوامل بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس کی سطح کے نیچے خوردبینی زندہ اجسام کی موجودگی کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے۔

آکسیجن بھی خوردبینی اجسام سے پیدا ہو سکتی ہے۔

اس لیے مریخ کی سطح پر آکسیجن کی مقدار میں کمی بیشی کے اسباب میں حیاتی عوامل کے عمل دخل کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس بات کو سائنسی طور پر ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔

اس بات کا موہوم سا امکان ہے، مگر ہم آکسیجن میں کمی بیشی کے عمل کو ابھی اس حد تک نہیں سمجھ پائے ہیں کہ اسے وہاں زندگی کی موجودگی کا ایک اشارہ تصور کر لیں۔

اس کے علاوہ مریخ کی ذیلی سطح زندہ رہنے کے لیے بالکل سازگار نہیں کیونکہ ایک تو تابکار شعاعیں بڑی مقدار میں مریخ کی فضا سے چھن کر وہاں پہنچتی ہیں، دوسرے وہاں کے درجۂ حرارت میں بہت زیادہ کمی بیشی پائی جاتی ہے اور تیسرا وہاں پانی انتہائی محدود مقدار میں دستیاب ہے۔

امریکا میں یونیورسٹی آف مِشی گن کے پروفیسر سوشیل آتریا کہتے ہیں ’مریخ گاڑی پر اس وقت جو آلات نصب ہیں ان کی مدد سے ہم یہ معلوم کرنے سے قاصر ہیں کہ موسم بہار میں آکسیجن کی مقدار میں ہونے والے اضافے کا سبب حیاتی ہے۔ اس کے برعکس غیرحیاتی عوامل زیادہ قرین از قیاس لگتے ہیں۔ اس لیے اس عمل میں ہمیں خوردبینی اجسام کے کردار کو رد کرنا ہوگا۔‘

البتہ ان کا خیال ہے کہ جب مستقبل میں ہم کوئی مشن بھیجیں گے تو وہ ایسے آلات سے لیس ہوگا جو مریخ کے قابل رہائش ہونے کا پتا لگانے میں زیادہ معاون ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر پیٹل کا کہنا ہے کہ ’مجھے مریخ کی تاریخ میں اس کی ذیلی سطح میں کسی نہ کسی حیاتی عمل کے امکان کا تو یقین ہے، مگر ایک سائنسدان کی حیثیت سے میں صرف وہی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مشاہدہ کیا جا سکے، جبکہ ایک غیر معمولی دعوے کے لیے غیر معمولی مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

یہ خیال کہ مریخ کی آکسیجن مٹی میں کیمیائی صورت میں قید ہو کر رہ گئی ہے، حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آکسیجن کا سالمہ انتہائی فعال ہوتا ہے اور اپنی شکل بدل کر کسی بھی چیز کے ساتھ چپک کر خود کو برقرار رکھتا ہے اور سازگار حالات میں پھر سے اپنی اصل پر آ جاتا ہے۔

مریخ کی مٹی میں ’پرکلوریٹ‘ نامی ایک مستحکم مرکب کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ اپنی آکسیجن کو بآسانی نہیں چھوڑتا، مگر ممکن ہے کہ طاقتور تابکار شعاعوں کی زد میں آنے سے اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ واقع ہو جاتی ہو۔

پروفیسر آتریا کہتے ہیں کہ ’مریخ کی سطح اور ذیلی سطح میں کم سے کم تین غیرحیاتی منبعوں پرکلوریٹس، ہائڈروجن پر آکسائڈ اور بعض معدنیات میں آکسیجن پائی جاتی ہے۔

پچھلی چند دہائیوں کے دوران مریخ سے متعلق ہمارے علم میں گرانقدر اضافہ ہوا ہے لیکن اب بھی بہت سی گتھیاں سلجھانا باقی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp