MosquesofIndia#: بابری مسجد کی یاد میں انڈیا کی مساجد ٹرینڈ کرنے لگیں


مسجد

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے

نالہ پابند نے نہیں ہے

مرزا اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر انڈیا میں مسلمانوں کے احتجاج کے نئے طریقے کا غماز ہے۔ ٹوئٹر پر صبح صبح MosquesofIndia# یعنی انڈیا کی مساجد ٹرینڈ کر رہا تھا اور صارفین نے جتنی تعداد میں تصاویر ڈالیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت دیدہ زیب تصاویر جہاں اپنی فن تعمیر کی داد وصول کر رہی تھیں وہیں اپنے پس منظر کو بھی بیان کر رہی تھیں۔

اس ٹرینڈ کو شروع کرنے والی ارینا اکبر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘بابری مسجد کے فیصلے کے بعد ہم بہت غمزدہ تھے تو ہمیں یہ خیال آیا کہ انڈیا کی مساجد کا ایک ہیش ٹیگ شروع کیا جائے۔’

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی معروف مساجد کے دلکش مناظر

چیچنیا میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح

مسجد

اپنے پہلے ٹویٹ میں ارینا اکبر نے اس ہیش ٹیگ کی تجویز پیش کی اور ٹوئٹر صارفین سے کہا کہ وہ انڈیا کے شہروں، قصبوں، گاؤں سے مساجد کی تصاویر شیئر کریں خواہ وہ تاریخ اور بڑی مساجد ہوں یا کہ چھوٹی اور سادہ کیونکہ مساجد تو عبادت گاہیں ہیں۔

انھوں نے اس کے ساتھ لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کی تصویر شیئر کی اور اس کے بارے میں لکھا کہ اسے اورنگزیب نے تعمیر کرایا تھا اور یہ آج بھی موجود ہے۔

https://twitter.com/irenaakbar/status/1195285063295832065

ان کے اس ہیش ٹیگ کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں مساجد کی تصاویر پوسٹ کیں اور ان کے بارے میں لکھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی ارینا اکبر نے کہا کہ انھیں یہ امید نہیں تھی کہ ان کی اس ٹویٹ کو اس قدر پزیرائی ملے گی اور وہ انڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز میں کئی گھنٹوں تک سرفہرست ہو گا۔

مسجد

انھوں نے کہا کہ یہ صبح تک پہلے نمبر پر تھا لیکن اچانک وہ غائب ہو گیا ہے۔ وہ یہ اعتراف کرتی ہیں کہ ہیش ٹيگ کی عمر کم ہوتی ہے لیکن وہ اچانک غائب نہیں ہوتا اور وہ بھی ایسے کہ پہلے 20 میں بھی نہ ہو۔

بہر حال بہت سے صارفین نے ان کی اپیل پر لبیک کہا اور نادر تصاویر پوسٹ کیں۔ یہاں ہم ان کا سرسری نمونہ پیش کرتے ہیں:

https://twitter.com/36th_Chamber/status/1195487565803077632

ایک صارف نے کشمیر کی مسجد حضرت بل کی تصویر پیش کرتے ہوئے لکھا یہ کشمیر کی مسجد ہے نہ کہ انڈیا کی، کیونکہ کشمیر کبھی بھی انڈیا نہیں ہے، نہ تھا، نہ ہو گا۔

اوکیژنل ٹوٹ نامی ایک صارف نے جنوبی ہند کے شہر بنگلور کی خضریہ مسجد کی تصاویر پوسٹ کی اور اس کے ساتھ لکھا باہر کے صحن میں فوارہ ہے اور اس کی اصل عمارت صرف چار ستون پر ہے جو کہ گنبد کے نیچے ہے۔

https://twitter.com/occasionaltoot/status/1195575736112824322

رومیزکیو نامی ایک صارف نے شاہ ہمدان مسجد کی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سری نگر میں دریائے جہلم کے کنارے آباد یہ مسجد کشمیر کی قدیم ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے۔

مسجد

اسے سب سے پہلے سلطان سکندر نے 1395 میں صوفی بزرگ علی ہمدان کے اعزاز میں تعمیر کروایا تھا۔ سنہ 1732 میں اس کو از سر نو تعمیر کیا گیا۔

انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ ان کی تصویر نہیں ہے۔

https://twitter.com/rumiesque/status/1195528253340962817

مصعب قاضی نامی ایک صارف نے لکھا کہ انڈیا کے مغربی ساحل کوکن کی پٹی پر کئی خوبصورت مساجد ہیں۔ یہاں اسلام سب سے پہلے سنہ 636 میں پہنچا تھا۔ انھوں نے رتناگری ضلعے کی چند مساجد کی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔

مسجد

سید اظہر نامی ٹوئٹر صارف نے جنوبی ریاست کرناٹک میں سریرنگاپٹنم قلعے کی تصویر پوسٹ کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ مسجد ‘شیر میسور’ ٹیپو سلطان کے عہد میں 1786-87 میں تعمیر کی گئی۔ یہ بنگلور دروازے کے پاس ہے اور اس کے دو مینار ہیں۔

https://twitter.com/SyedAzharAamiri/status/1195535694216622080

بعض افراد نے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی پرانی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔

ارینا اکبر نے بھی ایک تصویر شیئر کی ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ‘ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک بابری مسجد تھی۔ یہ مسجد 1528 میں تعمیر کی گئی، 1949 میں اس کی توہین کی گئی، 1992 میں منہدم کر دی گئی لیکن یہ ہماری یادوں میں زندہ رہے گی۔’

https://twitter.com/jeffkim_07/status/1195292257512914944

پن ڈراپ وائلینس نامی ایک صارف نے ایک مسجد کی تصویر پوسٹ کی ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ واحد مسجد ہے جسے بابر نے پانی پت میں ابراہیم لودھی کے خلاف فتح کے بعد بنوایا تھا۔ ایودھیا کی بابری مسجد تو ان کے ایک جنرل نے تعمیر کروائی تھی۔

https://twitter.com/pindropviolence/status/1195392562829262849

جیف کم نامی ایک صارف نے ایک مسجد کے دروازے کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’یہ ایران نہیں ہے۔ یہ خوبصورت دروازہ آپ کو تہران کی گلیوں کی یاد دلا سکتا ہے لیکن یہ ایران نہیں ہے۔ یہ مغل مسجد ہے جو ممبئی میں ہے اور 1800 میں تعمیر کی گئی ہے۔‘

https://twitter.com/DEAURANGZEB/status/1195386620926578688

دی اورنگزیب نامی صارف نے علی عادل شاہ کی تعمیر کردہ جامع مسجد کی تصویر پوسٹ کی ہے جو کہ سنہ 1578 میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کے ساتھ لکھا ہے ’میں نے یہاں دو سال نماز ادا کی ہے۔ الحمدللہ‘

مسجد

گوتم نامی صارف نے لکھا کہ انھیں ’تمام مساجد میں گلابی مسجد پسند آئی۔ یہ مسجد مسحور کن طور پر اس وقت خوبصورت نظر آتی ہے جب اس کے پس منظر میں کالے بادل ہوں۔‘

https://twitter.com/Goutham09828240/status/1195313972901113856

ارینا اکبر نے بتایا انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ ان کی اس تحریک میں غیرمسلموں نے بھی شرکت کی اور انھوں نے بھی تصاویر پوسٹ کیں۔

دی ادیب نامی صارف نے بدایوں کی جامع مسجد کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ تیسری قدیم ترین اور ملک کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس مسجد کا اندرونی حصہ کسی بھی مسجد سے بڑا ہے اور اس کا گنبد انڈیا کی کسی بھی مسجد کے گنبد سے بڑا ہے۔

https://twitter.com/Delhiite_/status/1195375599767867392

زماں نامی ایک صارف نے گوا کی ایک مسجد کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘یہ صفا شاہوری مسجد ہے جو کہ گوا میں پونڈا کے مقام پر ہے اور اسے ابراہیم عادل شاہ نے سنہ 1560 میں تعمیر کروایا تھا۔’

بہت سے لوگوں نے دہلی کی جامع مسجد اور بھوپال کی جامع مسجد اور موتی مساجد کی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔

https://twitter.com/_iAhtisham/status/1195404164374781953

احتشام نے کشمیر کی ایک مسجد کی تصویر پوسٹ کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ پاتھر مسجد ملکہ نور جہاں نے تعمیر کروائی تھی اور یہ کشمیر کی قدیم ترین مساجد میں شمار ہے۔

مسجد

ارینا اکبر نے بتایا کہ ان مساجد کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کتنا تنوع ہے، جتنا تنوع تہذیب و ثقافت میں ہے اتنا ہی مساجد کی فن تعمیر میں بھی ہے اور یہ مسلمانوں کا عظیم ورثہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp