فیضان نظر والے بابا جی اور جاتی امرا میں بہار کی کونپلیں


سیاست ممکنات کا کھیل ہے، مفادات کا کھیل ہے مفادات پر زک پہنچ رہی ہو تو دشمنی دوستی میں بدل جایا کرتی ہے۔ وہ چہرے جنھیں دیکھنا گوارا نہیں ہوتا ان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے گلے شکوے ہوتے ہیں شکررنجی دور ہوتی ہے نئے عہد و پیمان ہوتے ہیں پھر گاڑی چل سو چل واصف علی واصف مرحوم نے کہا تھا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے یہاں جو نظر آتا ہے وہ ہو رہا نہیں ہوتا اور جو نظر نہیں آتا وہ ہو رہا ہوتا ہے۔ واصف مرحوم کے اس جملے کے عین مطابق آج کل مملکت خداداد میں پس پردہ بہت ساری ڈویلپمنٹ ہو چُکی ہیں۔ بظاہر نظر نہ آنے والے معاملات ہو چُکے ہیں اور جو نظر آ رہا ہے وہ اصل میں کچھ نہیں۔

پاکستان میں طاقت کا چشمہ راولپنڈی میں ہے اس چشمے سے سیراب ہونے کے لیے بہت سوں کی خواہش ہوتی ہے۔ چشمہ کا رکھوالا اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اس تک رسائی دیتا ہے جس شخص کو اس چشمے تک رسائی مل جاتی ہے وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین شخص سمجھتا ہے گویا اُس نے آب حیات نوش کیا ہے۔

ماضی میں ایسا بھی ہوا کہ کہیں لوگوں کو اس چشمہ تک رسائی دینے کے بعد انھیں پیاسا واپس بھیج کر کسی اور کو سیراب ہونے کا موقع دیا گیا اور وہ حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے سندھ سے تعلق رکھنے والے غلام مصطفیٰ جتوئی کی تاریخ سب کے سامنے ہے

میاں شہباز شریف کو گیم چینجر کہا جاتا ہے وہ ناممکن کو ممکن میں بدلنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور ایسا ہی پچھلے تین چار ہفتوں میں ہوا۔ جس وقت مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ کا کاروں کراچی سے چل رہا تھا میاں شہباز شریف سپہ سالار ہاؤس کے بالکل سامنے بنگلوں کی قطار میں ایک بنگلے کے مکین ”بابا جی“ سے راز و نیاز کر رہے تھے۔ یہ بابا جی اتنے طاقتور ہیں کہ طاقت کا اصل مرکز ان کے کہے ہوئے کو رد نہیں کر سکتا میاں محمد شریف جب تک حیات تھے وہ طاقتور لوگوں اور میاں نواز شریف کے درمیان الجھے معاملات کو سلجھانے کے فرائض سرانجام دیتے اُن کی رحلت کے بعد یہ فریضہ میاں شہبازشریف اور اُن کی والدہ محترمہ سرانجام دے رہی ہیں۔

ایک دو تین ملاقاتیں ہوئی اس کے بعد بنگلے کے مکین بابا جی کو جاتی امرا لاہور ماں جی کی قدم بوسی کے لیے لے جایا گیا۔ ماں جی نے شریف خاندان کو مشکلات سے نکالنے کی بات کی بابا جی نے ماں جی اور شبہاز شریف سے وعدہ لیا کہ آئندہ آپ کے خاندان کی طرف سے مقتدر قوتوں پر الفاظ کی سنگ باری نہیں کی جائے گی بابا جی کی مانی گئی جس کا ثبوت مریم نواز کی رہائی کے بعد بھی اُن کی طرف سے الفاظ کی سنگ باری نہیں ہوئی ان تمام معاملات کو طے کرنے کے بعد بابا جی شریف خاندان کو تسلی دیتے ہوئے راولپنڈی کی طرف عازم سفر ہوئے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنی ہر تقریر میں این آر او نہ دینے کی بات کرتے ہیں انھیں ادراک تھا این آر دینا اُن کے اختیار میں نہیں بلکہ وہ ان طاقتوں کو باور کروا رہے تھے جنہیں این آر او دینے کا اختیار ہے کہ کہیں میری مرضی کے بغیر این ار او نہ دے دینا۔

شریف خاندان اور بابا جی کے درمیان ہوئے معاملات سے عمران خان بالکل بے خبر تھے۔ میاں نواز شریف کی بگڑی صحت کی صورتحال کے باعث بیرون ملک لے جانے کی تیاریاں ہو رہی تھی کہ وزیراعظم کو اس سارے معاملے کی بھنک پڑ گئی انھوں نے میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کو مشروط کر دیا۔

شریف خاندان نے اسے تسلیم نہیں کیا اور پرلے روز میاں شہبازشریف نے اپنی پریس کانفرنس میں اس سارے معاملے کو عدالت لے جانے کا اعلان کیا انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ”میں اُن کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے معاملات کو یکسو کیا“ میاں نواز شریف کا بیرون ملک جانے کا معاملہ عدالت میں ہے اور قرین قیاس ہے کہ عدالت انسانی ہمدردی کی بناء پر بغیر کسی شرط سے اُن کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حُکم دے گی۔

میں نے اپنے ذرائع سے پوچھا کہ میاں نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ کا کیا بنے گا اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جگہ پر قائم ہے میاں شہبازشریف اور اُن کی والدہ محترمہ کی گئی کاوش سے اُس بیانیہ پر زک نہیں لگے گی۔

خواجہ آصف کا اسمبلی میں اپنی تقریر میں یہ کہنا کہ آنے والے چار سے چھ ہفتے اہم ہیں۔ چوہدریوں کے دل میں شریف خاندان کے لیے ہمدردی کا پیدا ہونا۔ جی ڈی اے کے رہنماؤں کا یہ کہنا کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے باہر جانے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، یہ سب اس طرف اشارے ہیں کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ تبدیلی کی اس لہر میں تحریک انصاف کے ہاتھوں سے پہلے مرحلے میں پنجاب لیا جا سکتا ہے پھر مارچ تک ان ہاؤس تبدیلی کی بساط بچھائے جائے گی۔ کپتان کا جانا ٹھہر گیا کیونکہ بابا جی کی کوششوں سے شریف خاندان دوبارہ مقتدر قوتوں کی گُڈ بک میں آ گئے ہیں۔ بابا جی اتنے طاقتور ہیں کہ طاقت کا مرکز بھی اُن کے کہے ہوئے کو رد نہیں کر سکتا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui