بابا گرونانک کے وارثوں کا جرگہ بلایا جائے؟


گرونانک نومبر 1449 میں ضلع شیخوپورہ کے گاؤں تلونڈی میں پیدا ہوے جواب ”ننکانہ صاحب“ کہلاتا ہے۔ ان کے والد مہتہ کالو پسر رام داس اور ماں ترپتا کھشتری ذات کے متوسط درجہ کے ہندو اور برادری میں محترم تھے۔ نانک کا نام ان کی بہن بی بی نانکی کی مناسبت سے رکھا گیا۔ نانکی کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ کہ وہ اپنے نانکے یعنی ننھیال گھر میں پیدا ہوی تھیں۔ افغانوں نے 1459 میں دہلی میں سلطنت لودھی قایم کی ً ہندوستان کی مختصر تاریخ ً میں وہیلر نے کہا کہ ً وہ ہندووں اور ان کے مذہب کے شدید مخالف تھے۔

انہوں نے مندر توڑے اور ان کمروں میں مساجد بنایں جیسے محمود غزنوی کے دور میں۔ ہوتا تھا۔ ا سلطنت کے ایک سلطان نے ایک برہمن کو یہ کہنے پر قتل کروادیا تھا کہ خدا کی نظر میں ہندو اور مسلمان دونوں کا مذہب برابر کی قبولیت رکھتا ہے۔ افغانوں نے ہندوستان میں بدنامی کمائی۔ ان کا جذبہ انتقام ضرب المثل بن گیا کوئی شخص ہاتھی، ناگ اورافغان کے ہندوستان سے محفوظ نہیں، خود گورنانک نے بھی اپنی پیدایش کے وقت ہندوستان کا سیاسی اور مذہبی ماحول یوں بیان کیا ”کل کاتی راجے قصائی دھرم پنکھ کر اڈگیا کوڑ اماس سچ چندرما دسے ناہی کہیہ چڑھیا“ مفہوم بادشاہ قصائی ہیں، ظلم و اسبداد ان کا خنجر ہے اور احساس فرض پر لگا کر اڑ گیا ہے۔

جھوٹ اماوس کی رات کی مانند محیط ہے۔ اور صداقت کہیں جلوہ گر نہیں۔ وار مجھ شلوک 16 ً 1 ً۔ افغان عہد حکومت میں ہر جانب پھیلی ہوئی سیاسی طوایف الملوکی اور لاقانونیت کے علاوہ معاشرہ بھی نہایت مایوس کن طور پر منقسم تھا۔ بے لگام افغان ہندوستان پر حملہ آور اور حکومت کے دایرہ اختیار سے باہر تھے۔ وہ ہندووں کے سخت دشمن تھے جن کے درمیان یہ آباد ہوگے۔ اور ان پر اثرورسوخ رکھتے تھے۔ ہر ایک وہ کچھ کررہا تھا جو کہ ان کی نظر میں درست تھا۔ اور اسے سزادینے کی پوری آزادی حاصل تھی۔

چنانچہ سولہویں صدی کی ابتدا میں ہندو ذہن جلدیا رجعت پسند نہیں رہا تھا۔ یہ اسلام کا خمیرہ لگنے کے بعد کی صورتحال کے پیش نظر تیزی سے تبدیل ہوا۔ رمانند اور گورکھ نے مذہبی برادری کا پرچار کیا اور چیتن نے عقیدے کی سطح پر ذات کا تصور دہرایا۔ کبیر نے استعاروں اور تمثیلات کو مسترد کرکے لوگوں کو ان کی زبان میں بات کی اور والبھ نے کہا موثر بھگتی دنیا کے عام فرایض سے مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن یہ نیک اور قابل افراد اس زندگی کی کم ماییگی سے اس قدر متاثر رکھتے ہیں کہ انہوں نے انسان کی سماجی حالت میں بہتری لانے کو غوروفکر کے قابل نہ سمجھا۔

بنیادی طور پر انہوں نے مذہبی طبقے یا بت پرستی اور کثرت پرستی کی جہالت سے نجات کو ہی اپنا مقصد بنایا۔ انہوں نے مطمین و صابر سادھوں ً متوکلین ً کے ساتھ پاکیزہ محبتیں تشکیل دیں یا پھر اپنے ساتھی انسانوں کو تمام مذہبی اور سماجی زنجیریں اتار کر زمانوں کی جہالت سے اور آزاد صورت میں نمودار ہونے کا درس دینے کی بجاے خود کوحصول عرفان کی خاطر مراقبے میں منہمک کرلیا۔ یہ وہ دور تھا جب گرو نانک نے جنم لیا۔ اور انہوں نے معاشرتی اصلاح کا کام اسی صورت کے حامل معاشرے میں شروع کیا۔

سیاسی لاقانونیت سماجی بے نظمی مذہبی بے ایمانی اخلاقی گراوٹ اور روحانی غلامی ْ یہ تھا کہ اس دور کا نظام۔ اور ملک کو اس مایوس کن صورتحال سے باہر نکالنے والے انسان کی راہ میں سب سے بڑی مشکل یہی تھی۔ بیشک رامانند اور کورگھ کبیر شمالی ہندوستان کے لوگوں کو روحانی غفلت سے سے نکالنے کا کام شروع کرچکے تھے۔ سکھوں کی تاریخ سے یہ بات کافی حد تک عیاں ہے کہ گرونانک ہی یہ انتہای اہم اصلاح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قصوں اور روایتوں کے مطابق گرونانک کی پیدایش چمکتے ہوئے چاند والی رات میں تقریبا ایک بجے ہوئی تو کچھ مافوق الفطرت علامات صاف دکھائی دے رہی تھیں اور دایہ بچے کا پر نور چہرہ دیکھ کر ششدر رہ گی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نانک کے والد نے جس پنڈت کو زایچہ بنانے کیلے بلایا اس نے بچے کی عظمت کی پیشنگوئی کی۔ گرونانک نے بچپن سے ہی ممتاز روحانی زندگی کی علامات ظاہر کرنا شروع کردی تھیں۔

گرو نانک کی ایک جنم ساکھی میں ان کی پیدایش 3 بیساکھ 1526 سمیت ہے جو 1469 کے ماہ اپریل کا وسط بنتا ہے۔ بھای گرداس نے بھی اپنی واروں میں اسی ماہ بیساکھ کا بالواسط ذکر کیا ہے۔ یہ بات یقین سے نہیں کی جاسکتی ہے کہ کون سی تاریخ درست ہے۔ سیوارام سنگھ تھاپڑ نے یہ نومبر کی تاریخ پیش کی ہے کیونکہ ً کارتک پکش ً کے پورے چاند والا دن نومبر میں آتا ہے نہ کہ اپریل میں۔ انڈیا آفس لندن میں رکھی ہوئی سب سے پرانی جنم ساکھی میں بھی ماہ اپریل کا ذکر ہے۔

لیکن اگر یہ بات درست ہوتی تو سکھ اپریل کی بجائے نومبر میں گرونانک کی پیدایش کا تہوار کیوں مناتے۔ ہندووں کی چار ذاتیں اور مسلمانوں کے چار فرقے ہیں۔ خودغرضی ظلم خود نمای اور آپس کی بیکار جدوجہد۔ ہندووں کے پاس گنگا بنارس ہیں جبکہ مسلمانوں کے پاس خانہ کعبہ اور مکہ۔ مسلمان ختنہ کرواتے ہیں جبکہ ہندو مقدس دھاگے اور ماتھے پر تلک کیلے پرجوش ہیں۔ ایک رام کو پکارتا ہے تو دوسرا رحیم کو لیکن نام ایک ہی ہے۔

اور متضاد سمتوں میں بھٹک رہے ہیں۔ وہ اپنے ویدوں اور قرآن کو بھول چکے ہیں۔ اور دنیا لوبھ ً حرص ً میں لت پت ہے۔ سچ کو کچھ پوچھتا نہیں جبکہ برہمن اور ملا بیکار جھگڑوں میں مررہے ہیں۔ آواگون کے سلسلے نے ان کے ذہنوں میں کوی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ سیوارام تھاپڑ اپنی کتاب گرونانک میں لکھتے ہیں کہ تب بابا نانک مقدس مقامات اور عوامی تہواروں میں آئے لیکن انہوں نے تمام تہواروں اور رسومات کو محبت اور خدا کی بھگتی کے بغیر بیکار پایا۔ بابا نانک چیتن اور کبیر گرونانک کے ہمعصر تھے۔ کبیر پہلے اور چیتن بعد میں پیدا ہوئے۔ اور گرونانک 17 برس چھوٹے تھے۔

گرونانک کے بارے میں یہ بھی پڑھنے کو ملاہے کہ انہوں نے مکہ، مدینہ اور بغداد کا بھی سفر کیا۔ اس سفر میں مردانا بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب وہ تھکے ماندے رات کو مکہ پہنچے تو رات کو سوتے وقت انہوں نے اپنے پاؤں خانہ کبعہ کی طرف پھیلادیئے۔ وہاں ایک مولوی نے ان کو ٹھوکر مارکر جگایا اور کہا کہ اے کافر تو حج کرنے آیا ہے اور تجھے انتا بھی پتہ نہیں کہ تونے خانہ خدا کی طرف ٹانگیں پھیلا رکھی ہیں؟ گرونانک نے بڑے سکون سے جواب دیا خضور جس طرح خانہ خدا نہ ہو، میری ٹانگین اس طرف کردیجیے۔

مولوی نے جس طرف گرونانک کی ٹانگین گھماتا اسی طرف خدا کا جلوہ نظرآتا اور وہ جس پر چلانے لگا کہ اللہ اللہ، ہندوستان سے کوئی خدا رسیدہ بزرگ آیا ہے جوکہ لوگوں کو خدا کا دیدار کروادیتاہے۔ بابا گرونانک نے اپنے آخری سال کرتار پور میں گزارے، یہاں ہزاروں لوگ ان کا دیدار کرنے آتے تھے، وہ کسی ایک مذہب یا قوم برادری کے نہیں ہوتے تھے بلکہ سب ہی بابا کے پاس چلے آتے تھے۔ بابا گرونانک نے اپنی زندگی میں اپنی گدی بھائی لہنا کو سونپ دی۔

بعدازاں اپنے خاندان اور خادموں کو جمع کیا اور خدا کی حمد وثنا بیان کی۔ اتنے میں بابا گرونانک مراقبے میں چلے گئے اور اسی حالت میں ان کا وصال ہوا۔ جس کے بعد ان کے ہندووں اور مسلمان مریدوں کا جھگڑا ہوگیا، جوکہ کافی شدید تھا، وہ خاصا وقت ایک دوسرے سے الجھے رہے، خاصی تلخ صورتحال ہوگئی۔ مسلمان مریدوں کا تکرار تھا کہ بابا گرونانک ہمارا تھا، ہم دفانیں گے، ادھر ہندو بضد تھے کہ نہیں بابا گرونانک ہمارا ہے، ہم اپنی رسم کے مطابق سنسکار کریں گے۔

آخر پر ایک سمجھدار نے کہا کہ بابا گرونانک کی موجودگی میں بھلا لڑنے اور الجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسا کرو دونوں اپنے اپنے پھول بابا جی کے جسم پر رکھ دیں صبح جس فریق کے پھول نہ مرجھائیں وہی بابا گرونانک کا وارث ہوگا۔ دلچسپ صورتحال اسوقت ہوئی جب دونوں فریقین کے پھول تازہ تھے اور مہک رہے تھے، ادھر جب چادر ہٹائی گئی تو بابا گرونانک کا جسم ہی غائب تھا، اس کے بعد کی صورتحال مختلف حوالوں سے یوں بیان کی جاتی ہے کہ بابا گرونانک کی میت پر ڈٖالی گئی چادر کو مسلمانوں اور ہندووں نے برابرتقسیم کیا، اس کا ایک حصہ مسلمانوں نے دفنایا جبکہ دوسرے کو ہندووں نے سنسکار کیا۔

بابا گرونانک کے بارے میں جتنا پڑھنے کا موقعہ ملاہے، بابا جی تو سب کے سانجھے اور قابل احترام ہیں لیکن ہماری ریاست، حکومت سرداروں کو بابا جی کا ”وارث“ قراردے رہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس صورتحال میں پریشانی سے دوچار ہوں، شدید الجھن میں ہوں۔ اپنے بزرگ گرونانک کو ڈھونڈ رہاہوں، جس کے لئے ہمارے مسلمان بزرگ، ہندووں سے الجھے ہی نہیں لڑ پڑے تھے۔ فیصلہ پھولوں پر ہونے لگا تو بابا گرونانک نے مسلمانوں کو محبت دی، جس کے وہ دوسرے کے مقابلے میں برابر کے حقدار تھے۔

میرے خیال میں اس بات پر تحقیق ہونی چاہیے کہ بابا گرونانک جوکہ ہمارے تھے، اور ہیں، وہ کہاں ہیں، ادھر کرتار پور میں سرداروں مطلب ”سکھوں“ کو چودھری ضرور بنایا جائے لیکن بابا گرونانک کے وارث اور محبت کرنیوالے ہم مسلمان بھی ہیں، یوں ہماری حکومت، مسلمانوں اور ہندووں کو بھی پورا حق دے تاکہ ہم بھی بابا گرونانک کے پاس حاضری دے سکیں، ان کے پاس بیٹھ سکیں، منتیں مان سکیں، اپنے دکھوں کے مدواے کے لئے چڑھاوے چڑھا سکیں، اس فورم پر میری تجویز ہوگی کہ بابا گرونانک کے وارثوں کا فیصلہ کرنے کے لئے مسلمانوں، سکھوں اور ہندووں کا جرگہ بلایا جائے اور بابا گرونانک کی روحانی وارثت کو برابر تقسیم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).