تیس سال پرانی ایک جنسی ہراسانی کی دلچسپ داستان


یہ 1990 ء کی بات ہے، ہم شادمان ٹاؤن میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کے قریب ہی شادمان مسجد تھی، ہمارے بڑے برادر محترم فیصل کامرانی صاحب شاید پانچویں یا چھٹی جماعت کے طالب علم تھے، ہمارے گھر سے قریب ہی ایک بیکری تھی، ہم سب بھائی بہن اس بیکری سے اکثر چپس، بسکٹ اور پیسٹری وغیرہ خرید کر کھایا کرتے۔ مگر یہ واقعہ ہمارے برادر فیصل کامرانی صاحب کے بچپن کی ”حسین“ یادوں سے متعلق ہے، اس لئے ہم انہی کے تناظر میں اس واقعے کو بیان کرتے ہیں۔

ہمارے برادر چھت پر کھیل رہے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ اچانک انہوں نے ایک عجیب منظر دیکھا جو دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے۔ سامنے بیکری سے ایک برہنہ لڑکی نکل کر بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی اور دکان سے نکل کر بڑی کاوش سے اس کے سامنے بنے چھوٹے سے چوک تک پہنچ چکی تھی۔ اس کا ہاتھ دکان کے مالک لڑکے نے پکڑا ہوا تھا جو اسے بھاگنے نہ دے رہا تھا۔ یہ برہنہ لڑکی بری طرح زور لگا رہی تھی کہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ جائے۔

یاد رکھیے کہ ہم 1990 ء کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ڈش، ٹی وی، کیبل وغیرہ سے پہلے کی بات ہے۔ یہ انٹرنیٹ پر مٹھائی کی دکانوں کے کھلنے سے پہلے کی بات ہے۔ اس لئے یہ پانچویں جماعت کی نرم گرم یاد میرے برادر کے لئے Human Anatomy کی پہلی کلاس تھی مگر یہ سنسنی کے لمحات زیادہ دیر نہ چل سکے اور لوگ جمع ہو گئے اور ایک صاحب نے جلدی سے اس لڑکی پر چادر ڈال دی۔ اب حیران مجمعے نے اس دکاندار سے اور اس لڑکی سے ماجرا دریافت کیا۔

وہ لڑکی ”اوڈ“ تھی اور غریب طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس علاقے سے تھوڑی فاصلے پر اوڈوں کی کچی آبادی بھی تھی۔ اس ”مظلوم“ لڑکی کو آج کل کی صحافیانہ زبان تو آتی نہ تھی۔ اس نے اپنے دیہاتی لہجے میں کہا کہ۔ چلیے ہم آپ کو اس کی بات آج کل کی زبان میں ہی بتاتے ہیں، کہ ”یہ دکاندار مجھے جنسی طور پر ہراساں کر رہا تھا اور یہ اپنی عزت بچا کر بھاگ رہی تھی“۔ اہل محلہ اس بات پر فوراً مشتعل ہونے لگے مگر دکاندار نے تب بڑی پتے کی بات کی۔

اس نے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ”اگر میں اس لڑکی کی عزت پر حملہ کر رہا تھا تو یہ مکمل طور پر برہنہ کیسے ہے؟ دوئم بات یہ کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے اور یہ بھاگنے کی فکر میں ہے، تو میں بھاگنے کی فکر میں کیوں نہیں؟ “ بات منطقی تھی، لوگوں کے دل کو لگی۔ پھر لوگوں نے اس لڑکے کا موقف دریافت کیا، اس نے بتایا کہ کافی عرصے سے دکان میں چوریاں ہو رہی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہم ہر وقت کاؤنٹر پر نہیں بیٹھے ہوتے، کبھی سامان اٹھانے کے لئے یا بیت الخلاء جاتے ہیں۔

یہ لڑکی اور اس کی ساتھی لڑکی ایسے مواقع پر کبھی گلّا صاف کر دیتیں، کبھی کوئی سامان اٹھا کر بھاگ جاتیں۔ آج بھی یہ خواتین یہی کام کر رہی تھیں جب اس کو دیکھا تو دونوں لڑکیوں نے دوڑ لگائی اور ایک کے پاس مال تھا وہ نکل گئی اور دوسری نے جلدی سے کپڑے اتار دیے تا کہ دکاندار ڈر جائے مگر اس نے پھر بھی جانے نہ دیا اور پکڑ لیا۔ تحقیق سے دکاندار کی ہی بات درست ثابت ہوئی۔ میرے برادر اس واقعے کو بڑے جذبے سے یاد کرتے ہیں۔

کئی مرتبہ دوست احباب اس واقعے کو فرمائش کر کے ان سے سنتے ہیں۔ خیر مذاق برطرف مگر اس چھوٹے سے چوری کے واقعے میں تیس سال بعد بھی بہت سبق موجود ہیں۔ آج کی تاریخ تک ان دونوں چورنیوں کے ہی فارمولے پر جنسی ہراسانی کے الزام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ اتنا آسان الزام ہے، اس پر ہر کوئی اتنی آسانی سے یقین کر لیتا ہے، یہ اتنی چٹ پٹی بات ہے کہ فوراً پھیل جاتی ہے۔ جس پر الزام لگے وہ فوراً لوگوں کی نظر میں شیطان بن جاتا ہے، 30 سال پہلے کی وہ اچکی لڑکیاں یہ طریقہ سیکھ گئی تھیں جب کہ ہمارے معاشرے میں یہ طریقہ 2000 کی دہائی میں یہ ایک بڑا کاروبار بن گیا۔

جنسی ہراسانی کے اعلانات کے اس دور میں جو Me too کا زمانہ کہلاتا ہے۔ کسی بھی مخلوط ماحول میں کام کرنے والے مردوں میں ایک نوع کا شدید خوف بلکہ فوبیا پیدا ہو گیا ہے۔ وہ ہر لمحہ کانپتے رہتے ہیں کہ ان کی ترقی سے جلنے والی کوئی خاتون کولیگ جنسی ہراسانی کی شکایت لے کر سامنے آ سکتی ہے۔ اور اگر اتنی محنت نہ بھی کرنی ہو تو Me too کے # کے ساتھ اسٹیٹس تو لگایا جا ہی سکتا ہے۔ پھر مرد اساتذہ ہیں جو اپنی طالبات سے ڈر رہے ہیں کہ کسی کو فیل کیا یا کم نمبر دیے تو کہیں جنسی ہراسانی کا الزام نہ لگ جائے۔

ویسے یہ تو طے ہے کہ ہر الزام ہر مرتبہ ہی پہلی نظر میں ہی بلا تحقیق حق مان لیا جائے گا اور مرد کی بات سننے میں کسی کی کوئی دلچسپی نہ ہو گی۔ اس پوری صورتحال میں آج تیس سال بعد کی دنیا میں وہ چورنیا ں کامیاب ہیں اور وہ دکاندار ناکام۔ کون جانتا تھا کہ ان اچکیوں کا طریقہ بعد میں ایک جنگی ہتھیار بن جائے گا، ایک نظام بن جائے گا، ایک ایسا نظام جس کی پیشانی پر Me too لکھا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).