فیض میلہ اور معاشرے کے معمار


”ہم دیکھیں گے! “ کی تحریر کے ساتھ فیض احمد فیض کہ جوانی کی تصویر داہنی طرف موجود ہال نمبر 1 کے دروازے کے اوپر لٹک رہی تھی تو سامنے کی سرخ عمارت پر ”آج پابجولاں چلو“ کے الفاظ فیض کی تصویر کے ساتھ کسی مفتوح فوج کے جھنڈے کی مانند ایک بینر کی صورت میں لہرا رہے تھے۔ دو ماہ سے جس دن کا انتظار تھا وہ آج آن پہنچا تھا۔ فیض فیسٹیول شروع ہوئے دوسرا دن تھا۔ ایسا اہتمام شاید اقبال ڈے اور قائداعظم کی یاد میں بھی نہ ہوتا ہو جیسے آج کے دن الحمرا تھیٹر میں فیض احمد فیض کو عزت و تکریم بخشی جارہی تھی۔

میں وہاں اپنے آس پاس لگے بک سٹالز پر نظر دوڑا رہا تھا کہ اچانک میرے پیچھے سے آنے والی ایک میٹھی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت میڈیا رپورٹر ہاتھ میں مائیک تھامے کھڑی تھی۔ میرے دل کے تار بجنے لگے، ابھی محترمہ کو آنکھ بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا کہ انھوں نے سوال کر ڈالا کہ ”آپ فیض صاحب کے پیغام کو حال کل کی نوجوان نسل کے لئے کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ “ اب نوجوانوں کی جانے بلا کہ کون فیض؟

کیا پیغام؟ کون سا تناظر؟ اپنے زنگ آلود دماغ پر زور ڈالا کہ کوئی مناسب سا جواب سنا کر محترمہ سے جان چھڑائی جائے مگر اپنا دماغ تو قاصر تھا ایسا معرکہ سر کرنے سے۔ لہذا بڑبڑا دیے کے ”وقت پھر سے ان کے پیغام کو اجاگر کرنے کا ہے کیونکہ حالات کا یہی تقاضا ہے۔ “ مانا کہ اپنا تعلق وطن عزیز کے اس معمار طبقے سے ہے جس پر صبح نو لانے کی ذمہ داری ہے پر ہم اگر ملک کی تعمیر نو میں لگ جائیں تو ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور سنیپ چیٹ کون سنبھالے گا۔

لہذا ہم ان کے سحر سے نکلیں تو ہماری فیض صاحب سے شناسائی ہو۔ محترمہ کے ہم پر کیے گئے سوالیہ تشدد کا ایک زاویہ یہ بھی تھا ک اس میں نہ تو حریم شاہ کا ذکر تھا اور نہ ہی دیشا پٹانی کا لہذا ہمارے ذہن میں ان کے سوال کا کوئی موثر جواب نہ تھا۔ اب ہم آگے بڑھے اور ایک اسٹال پر ایک کتاب جس کا عنوان غالباً کچھ یوں تھا کہ ”چلی ہے عجب رسم کے کوئی نہ سر اٹھا کر چلے“ ہاتھ میں اٹھا لی۔ اپنا تو شوق تھا رومانوی شاعری کا پر اس کتاب میں محبوب کا دور دور تک کہیں ذکر نہ تھا البتہ کسی ورق پر آمریت تو کسی ورق پر تاریک شاموں کا ذکر تھا۔

اول تو ایسی باتیں ہمارے پسند آنے والی نہ تھی دوجا ساتھ آئے دوست نے بھی مشورہ دیا کے پی۔ ڈی۔ ایف میں مل جائے گی کیوں پیسے خرچ کرتے ہو۔ آؤ کچھ کھا لیتے ہیں لہذا کتاب وہیں چھوڑ کر ہم کھانے کے اسٹال پر جا پہنچے اور بریانی پر ہاتھ صاف کیے۔ اب سوچا کہ پورے میلے میں نہ تو یاسرہ رضوی کو مدعو کیا گیا ہے اور نہ ہی تہذیب ہافی کوتو پھر یہ کسی دیوانے کی ایجاد کردہ ”ترقی پسند“ نامی تحریک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سن کر اپنا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔

کیونکہ ہم تو طالب تھے انٹرٹینمنٹ کے اور یہ سب صاحب بات کرتے تھے سماجی اور سیاسی شعور کو اجاگر کرنے کی۔ جیسا کہ ہمارا اس محاورے پر کامل یقین ہے کہ ”بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی“ تو کافی سوچ و بچار کے بعد ہم نے ہال نمبر 2 کا رخ کیا جہاں ”رقص مئے تیز کرو“ کے نام سے ایک سیشن کا اہتمام کیا جانا تھا۔ کیونکہ اول تو رقص کا نام سن کر ہمارا دل للچایا اور دوسرا ہم نے یہ سوچا کہ وہاں کچھ اپنے کام کے چیز بھی مل جائے گی۔

ہال میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ہمارے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کیونکہ سٹیج پر ”بول زبان اب تک تیری ہے“ کے الفاظ نمایاں رسم الخط میں لکھے ہوئے تھے۔ اس پر چاندی یہ ہوئی کہ میزبان نے سیشن کا آغاز ”بول کے لب آزاد ہیں تیرے“ سے کیا۔ یہ آواز ہمارے کانوں میں پڑی ہی تھی کہ ہماری زباں سے خودبخود اگلا مصرعہ کچھ ان الفاظ میں نکلا کہ ”دور نہیں اب محبوب بھی پاس ہے تیرے۔ “ اب اس کے بعد جو ہوا اس سے بڑھ کر اچنبھے کی بات ہمارے لئے کوئی ہو نہیں سکتی تھی کیونکہ میزبان نے اگلا مصرعہ کچھ یوں ادا کیا کہ ”بول کہ سچ زندہ ہے اب تک۔

” اس کے بعد ہمارے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ ایک پل بھی وہاں رکا جائے کیونکہ یہاں پھر سے رومانیت سے ہٹ کر ادبی اور علمی خیالات کے اظہار کا سامان کیا گیا تھا لہٰذا ہم نے وہاں سے کوچ کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی کیوں کہ آج کے دن نہ تو ہم نے کرکٹ کھیلی تھی اور نہ ہی دوستوں کے ساتھ امپوریم یا پیکجز مال کا چکر کا ٹا تھا۔ ذہن میں خیال آیا کہ دن کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے کوئی تعمیری کام کیا جائے۔ اس غرض سے ہم نے رخ کیا علم کے سمندر“ جامعہ پنجاب ”کا۔

وہاں ایس۔ ٹی۔ سی۔ میں بیٹھ کر انکل چائے پی اور دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی لائف میں لڑکیوں سے دوستی کرنے کی افادیت اور اس سے منسلک نقصانات پر بحث کی۔ اسی دوران رات کے گیارہ بجکر 16 منٹ ہو چکے تھے اور نیند کا غلبہ بھی ہم پر حاوی ہو رہا تھا لہذا اس سوچ کے ساتھ کہ جلد یونیورسٹی واپس آ کر بہت تعمیری کام ہو گیا ہے، ہم نے ہاسٹل جا کر سونے کا فیصلہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).