کیا آپ محبت کی نفسیات سے واقف ہیں؟


کیا آپ نے زندگی میں کبھی محبت کی ہے؟

کیا صرف ایک بار محبت کی ہے یا بار بار کی ہے؟

کیا کوئی شخص بیک وقت ایک سے زیادہ انسانوں سے محبت کر سکتا ہے؟

محبت کا جنس اور شادی سے کیا تعلق ہے؟

یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب بعض لوگ مذہب میں ’بعض کلچر میں‘ بعض روایت میں اور بعض انسانی نفسیات میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب میں ایسے تمام مردوں اور عورتوں کے بارے میں سوچتا ہوں جن سے میں نے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں محبت کے موضوع پر تبادلہِ خیال کیا تو میں ان لوگوں کو مندرجہ ذیل گروہوں میں بانٹ سکتا ہوں۔

پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے زندگی میں کبھی رومانوی محبت نہیں کی۔ انہوں نے شادی کی اور بچے پیدا کیے لیکن اپنے شریکِ حیات کی کبھی محبت میں گرفتار نہیں ہوئے۔ ان کی شادی روایتی شادی تھی جس میں دو اجنبیوں کا نکاح پڑھا دیا گیا۔ وہ دو اجنبی ساری عمر دو اجنبی ہی رہے۔ نہ جذباتی قربت نہ ذہنی ہم آہنگی۔ وہ مرتے دم تک محبت کرنے کی حسرت ہی کرتے رہے۔

دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے زندگی میں ایک بار محبت کی اور بھرپور محبت کی۔ وہ اپنی محبت سے اتنے خوش تھے کہ شریکِ حیات کی وفات کے بعد بھی کسی اور سے محبت نہ کی۔ وہ لوگ بقول فراز

؎ ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز

تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے محبت بھی کی اور شادی بھی لیکن بدقسمتی سے ان کا محبوب ان کا شریکِ حیات نہ بن پایا اور شریکِ حیات محبوب نہ بن سکا۔

چوتھا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے زندگی میں ایک سے زیادہ بار محبت کی لیکن ایک وقت میں صرف ایک انسان سے محبت کی۔ اس محبت کے ختم ہونے یا محبوب کی وفات کے بعد دوسرا محبوب بنایا۔

پانچواں گروہ ان مردوں اور عورتوں کا ہے جنہوں نے بیک وقت ایک سے زیادہ انسانوں سے محبت کی۔ ان میں سے بعض ساری عمر وہ طرزِ زندگی نبھا پائے اور چند ایسے تھے جومسائل کا شکار ہو گئے۔ سماجی مسائل بھی اور نفسیاتی مسائل بھی۔ سماجی مسائل اس لیے کہ لوگوں نے اسے غیر اخلاقی جانا۔ نفسیاتی مسائل اس لیے کہ جب ان کے محبوب کو پتہ چلا کہ ان کے محبوب کا کوئی اور محبوب بھی ہے تو وہ یا تو احساسِ کمتری کا شکار ہو گئے یا حسد کی آگ میں جلنے لگے اور یا خوفزدہ ہو گئے کہ ان کا محبوب ان کو چھوڑ کر دوسرے محبوب کے پاس چلا جائے گا۔

چونکہ محبت کا تعلق جنس اور شادی سے اس لیے محبت کا جذبہ کئی مسائل اور تضادات کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ

جنس ایک جبلی اور جسمانی رشتہ ہے

محبت ایک نفسیاتی اور جذباتی رشتہ ہے

اور

شادی ایک سماجی اور ثقافتی رشتہ ہے

بعض مذاہب اور روایات اور کلچر کوشش کرتے ہیں کہ یہ تینوں رشتے یکجا ہو جائیں اور بعض دفعہ ہو بھی جاتے ہیں لیکن اکثر اوقات نہیں بھی ہوپاتے۔

بعض مذاہب نے مردوں کو تو ایک سے زیادہ عورتوں سے محبت کرنے اور شادی کرنے کی اجازت دے دی لیکن عورتوں کو ایسی آزادی سے محروم رکھا کیونکہ وہ مذاہب پدر سری نظام کے آئینہ دار تھے۔

جو لوگ ایک سے زیادہ انسانوں سے محبت کرتے ہیں ان میں سے نجانے کتنے لوگ محبت چھپ چھپ کر کرتے ہیں کیونکہ بہت سے انسانی معاشروں میں اب تک منافقت پائی جاتی ہے۔ لوگ سچ کے اظہار یا اعتراف سے گھبراتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ہنگامہ نہ بپا ہو جائے۔ وہ ہمبستری ایک سے اور تصور کسی اور کا کر رہے ہوتے ہیں۔

دلچسپی کی بات یہ ہے ایک سے زیادہ محبتیں جب تک راز رہیں کئی دفعہ کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا لیکن جونہی وہ راز فاش ہو جائے قیامت آ جاتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ محبتیں مسئلہ ہیں یا اس راز کا فاش ہو جانا مسئلہ۔

میں نے ایک شادی شدہ فنکارہ سے پوچھا کہ آپ نے شوہر کے علاوہ دومحبوب کیوں رکھے ہوئے ہیں تو کہنے لگیں ایک انسان دوسرے انسان کی تمامتر ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔

کارل مارکس کا خیال تھا کہ شادی میں دو انسان ایک دوسرے کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیتے ہیں۔ اس طرح شوہر بیوی پر پابندی لگاتا ہے کہ وہ دوسرے مردوں سے نہیں مل سکتی۔ اگر معاشرے کے بہت سے مرد ایسا کرنا شروع کر دیں تو باقی مردوں کو دو طرح کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کے لیے یا طوائف کے پاس جاتے ہیں یا کسی اور مرد کی بیوی سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔

جب مذہبی لوگ انسانی رشتوں کو اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو وہ بعض دفعہ انسان کی چند نفسیاتی ضروریات اور سماجی تضادات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

انسانی نفسیات بہت پیچیدہ ’پراسرار اور گنجلک ہے جو مذاہب کے روایتی دائرہِ اختیار سے باہر ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ محبت کی کئی قسمیں ہیں۔

رومانوی محبت میں جنس بھی شامل ہے۔

جذباتی محبت میں ماں کی بچوں کے لیے ’بھائی کی بہنوں کے لیے اور بچوں کی نانی نانا کے لیے محبت سبھی شامل ہیں۔ میرا ایک شعر ہے

؎ محبت ایک بچے کا کھلونا

محبت ایک بوڑھے کا عصا ہے

مرد عورت کی دوستانہ محبت میں رومانس شامل نہیں ہوتا اس لیے وہ PLATONICمحبت کہلاتی ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات ہیری سٹاک سالیوان کا موقف تھا کہ جب ایک انسان کے لیے دوسرے انسان کی خوشی اور غم اپنی خوشی اور غم کے برابر اہم ہو جائے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس شخص کو محبت ہو گئی ہے۔

کیا محبت دو انسانوں کا ذاتی تجربہ ہے؟

کینیڈا کے وزیرِ اعظم پیر ٹرودو نے کینیڈا کی پارلیمٹ میں کہا تھا کہ محبت اور جنس دو انسانوں کا ذاتی تجربہ ہے۔ یہ ان کے بیڈ روم کا تجربہ ہے اور مذہب قانون اور حکومت کو شہریوں کے بیڈ روم سے باہر رہنا چاہیے۔

بد قسمتی سے آج کے دور میں بھی بہت سے مذاہب ’کلچر اور قوانین ایسے ہیں جو عوام و خواص کی خواب گاہوں میں نہ صرف گھس جاتے ہیں بلکہ فتوے بھی صادر کرتے ہیں اور انہیں سرِ عام سنگسار کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

ہم آج بھی ایک منافق معاشرے میں زندہ ہیں جہاں چھپ کر سب کچھ جائز اور کھل کر سب کچھ ناجائز۔

بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ محبت ایک ایسا آزاد پرندہ ہے جسے کسی بھی مذہبی یا سماجی پنجرے میں زیادہ دیر تک بند نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail