ماؤزے تنگ کا بُت۔ مکمل کالم


”مسٹر رے“ چین میں ہمارا تیسرا ٹور گائیڈ ہے، یہ ایک دلچسپ شخصیت کا مالک ہے، بیجنگ سے چنگ شا کی پرواز جب ہوائی اڈے پر پہنچی تو وہاں رے نے ہمارا استقبال کیا، رے کا تکیہ کلام ہے ”میں مقامی آدمی ہوں“ اور یہ فقرہ جب وہ چینی سے انگریزی میں ترجمہ کرتا ہے تو کچھ یوں کہتا ہے ”I am the local people“۔ جس ملک میں مسافروں کو ٹرین سے اترنے کے لیے ”پلیز گٹ آؤٹ آف دی ٹرین“ کہا جاتا ہو وہاں رے جیسوں کا دم غنیمت ہے۔

رے کی قدر ہمیں اُس وقت بھی محسوس ہوئی جب اُس نے ہمیں اوپر تلے دو عجائب گھروں کی سیر کروائی اور یہ ثابت کیا کہ اسے انگریزی کے علاوہ تاریخ پر بھی عبورحاصل ہے۔ ہنان چین کا ایک بڑا صوبہ ہے اور چنگ شا اِس کا صدر مقا م ہے، اسے ماؤزے تنگ کا شہر بھی کہا جاتا ہے، ماؤ کا گاؤں یہاں سے ذرا فاصلے پر ہے لیکن ماؤ کو چنگ شا زیادہ پسند تھا، وہ سولہ برس کی عمر میں یہاں آ گیا تھا اور پھر یہیں اُس نے اپنے دوستیاں بنائیں۔

چین کی تاریخ پانچ ہزار سال پر پھیلی ہے اور چنگ شا اِس کا ایک تاریخی شہر ہے، دوسری جنگ عظیم میں یہ شہر تقریباً تباہ ہو گیا تھا پھر نئے سرے اِس کی تعمیر کی گئی، 1999 میں یہاں پہلا شاپنگ مال بنا تھا، آج مگر اِس شہر کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بیس برس پہلے یہاں دھول اڑتی ہوگی۔ شہر میں اب زیر زمین ٹرین چلتی ہے جس کی تین لائنیں ہیں اور بیجنگ کی طرح یہ بھی کھچا کھچ بھری رہتی ہیں۔ چنگ شا کے بیچوں بیچ ایک سمندر کی طرح کا بہتا ہوا دریا ہے جس سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہے، دونوں حصوں کو ملانے کے لیے عظیم الشان پُل تعمیر کیے گئے ہیں، دریا کے دونوں طرف بلند و بالا عمارتیں، دفاتر، اپارٹمنٹس اور شاپنگ مالز کی قطاریں ہیں، رات کو اِن عمارتوں میں روشنیاں جگ مگ کرتی ہیں تو یہ شہر بالکل امریکہ کا کوئی ترقی یافتہ حصہ لگتا ہے۔

رے نے بتایا کہ جو دریا چنگ شا سے گزرتا ہے وہ تقریباً آٹھ سو کلومیٹر طویل ہے، مجھے اِس میں کچھ شبہ ہے کیونکہ یہ چینی لوگ دیوار چین کو بھی دس ہزار کلومیٹر طویل بتاتے ہیں لہذا اِن کی گنتی پر مجھے اعتبار نہیں۔ ہمارے گروپ کے ارکان کو گنتے وقت بھی انہوں نے یہی حرکت کی، اپنی طرف سے بندے پورے کر لے چل دیے بعد میں معلوم ہوا کہ آزربائجان والے پانچ لوگ گم ہو گئے ہیں، بڑی مشکل سے انہیں تلاش کرکے واپس بس میں بٹھایا۔ وہ واپس آزربائجان جانا چاہتے تھے!

جتنی تاریخ چین کے پاس ہے اُس حساب سے ہنان اور چنگ شا کے عجائب گھر دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی۔ ہنان میوزیم ایک وسیع و عریض عمارت میں ہے، یہاں داخلے کے لیے ہمیں پاسپورٹ دکھانے پڑے جس کی تُک مجھے سمجھ نہیں آئی پھر یاد آیا کہ ہم ایک کمیونسٹ ملک میں ہیں جہاں چپے چپے پر جاسوسی کیمرے ایسے لگے ہیں کہ کوئی کونا حکومت کی نظر سے اوجھل نہیں ہے، حتّیٰ کہ یونیورسٹی کے کلاس روم کی مانیٹرنگ کے لیے بھی کیمرے نصب ہیں۔

میوزیم کی عمارت ضرورت سے زیادہ بڑی تھی، اگر یہاں موجود تمام نوادرات اکٹھے کیے جائیں تو زیادہ سے زیادہ چار پانچ کمروں میں پورے آ جائیں گے۔ ایک چیز البتہ خاصے کی تھی اور وہ تھی ہنوط شدہ ممی۔ دو ہزار سال پہلے ہان خاندان کے دور حکمرانی میں یہ عقیدہ تھا کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اُس کی روح کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے مادی جسم کی ضرورت ہوتی ہے سو لوگ مرنے کے بعد خود کو فرعونوں کی طرح ”محفوظ“ کروا لیتے تھے، ایسی ہی ایک عورت کی دو ہزار سال پرانی ممی یہاں کھدائی کے دوران ملی جس کے سر کے بال تک محفوظ تھے، یہ ایک حیرت انگیز دریافت تھی کیونکہ اِس کی حالت مصر کے فرعونوں سے بہتر تھی۔

ہان خاندان کی اِس عورت کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ امر ہو جائے گی، اسے کیا پتا تھا کہ دو ہزار سال بعد وہ ہنان کے عجائب گھر میں برہنہ لاش بنی ہوگی۔ دوسرا عجائب گھر چنگ شا کا تھا، یہاں پرانے برتنوں کے علاوہ جو چیز دیکھنے لائق تھی وہ چین کے مشہور شاعر اور سیاست دان QuYuanکا مجسمہ تھا، اِس شخص کو اپنے شہر سے اِس قدر محبت تھی کہ جب یہ شہر تباہ ہو رہا تھا تو اِس سے وہ منظر دیکھا نہیں گیا اور اِس نے خود کو ایک بھاری پتھر سے باندھ کر دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔

دریا اِس شہر کی جان ہے، اِس کے بیچ چینیوں نے ایک جزیرہ نما بنایا ہے جہاں مالٹوں کے باغات ہیں اسی لیے اسے اورنج آئی لینڈ کہتے ہیں۔ بذریعہ سڑک آپ یہاں تک آ سکتے ہیں مگر گاڑی پارک کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی ٹرین آپ کو دریا تک لے جاتی ہے جس کے ایک طرف باغات ہیں، ساتھ ہی چہل قدمی کے لیے چوڑے فٹ پاتھ، پھر دریا اور پرے دوسرے کنارے کی طرف اسکائی سکریپر۔ یہاں ماؤزے تنگ کا ایک عظیم الشان بت تراش کر بنایا گیا ہے، بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے کسی پہاڑ کو تراش کر یہ بُت بنایا گیا ہو، ماؤ کا یہ بُت اِس قدر خوبصورت ہے کہ بالکل ماؤ کا نہیں لگتا کیونکہ ماؤ کے سر پر اتنے بال تھے اور نہ ہی آنجناب کی ناک ایسی ستواں تھی۔

یہ لوگ ماؤ کو اپنا قائد ضرور مانتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ ہر عمارت، سڑک یا سرکاری منصوبہ ماؤ زے تنگ کے نام پر ہو، چنگ شا کا میوزیم تک ماؤ کے نام پر نہیں، ہمیں یہ بات اِن سے سیکھ لینی چاہیے، قائد اعظم اور اقبال کے علاوہ بھی کسی عمارت یا شاہراہ کا نام رکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ ہم نے ہر شخص کو ہی متنازعہ بنا دیا ہے اور ہر رول ماڈل کے منہ پر کالک مل دی ہے، کوئلوں کی دلالی کے علاوہ ہمیں کوئی کام بھی تو نہیں آتا!

کوئی کچھ بھی کہے چین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، چنگ شا کوئی ایسا شہر نہیں جس کا شمار چین کے پہلے پانچ بڑے شہروں میں ہوتا ہو مگر اِس ستّر اسّی لاکھ کے شہر کی اٹھان کسی بھی مغربی ملک کے شہر سے کم نہیں۔ چین نے معاشی ترقی کا ماڈل بے حد کامیابی سے چلایا ہے اور اِس مقصد کے لیے انہوں نے بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اظہار اور ایسی دیگر ”خرافات“ کی قربانی دی ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ انسانوں کو قابو میں رکھ کر کوئی بھی ماڈل چلانا آسان کام نہیں مگر چین نے یہ معجزہ کر دکھایا ہے، امیر اور غریب کا فرق اب بھی ہے مگر پہلے سے بہت کم، غریب شہروں اور کم اہمیت کے صوبوں میں بھی انفراسٹرکچر اور بنیادی ضرورتیں پوری ہیں، بھوک ننگ سے نجات تقریباً پا چکے ہیں، شہروں میں غریب تو نظر آتے ہیں مگر فقیر نہ ہونے کے برابرہیں۔

لوگ اپنی زیادہ تر خریداری ایک چینی ایپ کے ذریعے کرتے ہیں، بس پر سفر کرنا ہو، کسی جگہ کی سیر کرنی ہو یا کوئی بھی کام کرنا ہو اُس ایپ کا بار کوڈ دکھا یا جاتا ہے، انٹر نیٹ کا مکمل کنٹرول چونکہ حکومت کے پاس ہے سو عوام کی ہر حرکت کا ریکارڈ حکومت چاہے تو حاصل کر سکتی ہے، تاہم عوام کو اِس بات میں شبہ ہے، اُن کا خیال ہے کہ اُن کی پرائیویسی قانون کے تحت محفوظ ہے۔ یقینا مغربی ممالک میں سوشل سیکورٹی نمبر وغیرہ کے ذریعے یہی ریکارڈ رکھا جاتا ہے مگر جمہوری حکومت کے پاس یہ معلومات انتہائی رازداری کے ساتھ رکھی جاتی ہیں اور فرد کی آزادی عدالتیں اور پارلیمان یقینی بناتے ہیں جبکہ یہاں ایک غیر جمہوری کمیونسٹ حکومت اِس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ فرد کی آزادی کہاں شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس قیمت پر چین نے معاشی ترقی کی، کیا غریب ممالک کو وہی ماڈل اپنا کر شخصی آزادیوں کی قربانی دے دینی چاہیے؟ اس کا جواب پھر کبھی۔

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا )

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada