فلسفہ: زندہ قوموں کے لئے اثاثہ اور غلاموں کے لیے وقت کا زیاں


فلسفہ کا لفظ سنتے ہی جانے کیوں اِک گردان سی زباں پر محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً، ف سے فلسفہ، ف سے فضول، ف سے فارغ العقل، ف سے فالتو وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی ہما رے لبوں پر اک مسکراہٹ آ جاتی ہے جس کے پسِ منظر میں فلاسفروں کی فاتر العقلی سے منسلک لطائف کا انبار ہوتا ہے۔ جیسے کہ: کسی فلاسفر کا گزر کسی گاؤں سے ہوا۔ وہاں اس نے پہلی مرتبہ تیل کا کولھو دیکھا۔ کولھو چلانے والے بیل کی گردن میں ہلتی ہوئی گھنٹی بھی دیکھی اور کھڑا ہو کر سوچنے لگ گیا کہ آخر اس گھنٹی کا استعمال کیا ہے۔

کافی دیر کے بعد جب کولھو ک ا مالک آیا اور اس نے فلاسفر سے پوچھا کہ وہ کیوں کھڑا ہے تو فلاسفر نے پوچھا کہ اس بیل کے گلے میں یہ گھنٹی کیوں باندھی گئی ہے۔ کوھلو کا مالک بولا کہ جب کبھی میں دور ہوتا ہوں تو بیل کی حرکت اور گھنٹی کی آواز سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ بیل چل رہا ہے اور کام ہو رہا ہے۔ فلاسفر نے استفسار کیا کہ اگر بیل رُک جائے اور کھڑا ہو کر محض گردن ہلاتا رہے تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا۔ کولھو کا مالک مسکرایا اور کہا: جناب یہ بیل ہے فلاسفر نہیں ہے۔

ایک فلاسفر پہلی مرتبہ کسی گاؤں میں گیا۔ دیوار پر پہلی مرتبہ اُپلے لگے دیکھ کر کھڑا ہو کر کچھ سوچنے لگ گیا۔ کسی راھگیر نے رُک کر پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔ فلا سفر نے کہا کہ سوچ رہا ہوں کہ بھینس نے دیوار پہ چڑھ کر کیسے گوبر کیا ہو گا۔

کسی صاحب نے سوال کیا کہ آپ آسان الفاظ میں یہ سمجھا سکتے ہیں کہ فلسفہ ہے کیا چیز۔ یا یہ کہ کیا آپ فلسفے کی ایسی تعریف پیش کر سکتے ہیں جیسے کہ ہم فزکس، کیمسٹری، میتھ، بایؤلوجی، جیوگرافی، فلکیات کے علوم کی تعریف پیش کر کے، اِن مضا مین کی نوعیت و دائرہ کار کسی کہ سمجھا سکتے ہیں؟ میرا جواب یہ تھا کہ جن مضامین کے آپ نے نام لئے ہیں یہ ایسے علوم ہیں جن کا تعلُق مادے اور مادی اشیاء سے ہے، مادی اشیاء کو ہم چُھو سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، ان کو لیباٹری میں ٹیسٹ کر سکتے ہیں، یکساں حالات کی موجودگی میں، یکساں نتائج کی پیش گوئی کر سکتے ہیں، لہذا ہم اپنے اعضائے حواس کے ذریؔعے اِن اشیاء کا علم حاصل کر سکتے ہیں ان کی موجودگی یا عدم مجودگی کی تصدیق و تکذیب کر سکتے ہیں۔

لیکن فلسفہ اِن ظاہری اشیاء سے نہیں بلکہ اِن اشیاء کی حقیقتوں کا علم ہے۔ کسی شے کا علم، اس کے متعلقہ شعبہ علم سے ہوتا ہے جب کہ اُس متعلقہ شے کی حقیقت کا علم، اس شے کی مابعد الطبعیات میں ہوتا ہے۔ فلسفے کا تعلق چونکہ مابعد الطبعیاتی حقیقتوں سے ہے، اس بنا پر فلسفے کی آسان تعریف ممکن نہی ہے۔ تو موصوف نے مسکراتے ہوے ؔ کہا کہ اس کا مطلب ہوا کہ فلسفہ سمجھنے کے لئے پورا پاگل ہونا پڑتا ہے۔

بات پاگل ہونے یا نہ ہونے کی نہیں۔ مسؑلہ ہماری سمجھ اور نقطہٗ نظر کا ہے۔ پیدائش کے لمحے سے ہمارے علم کی بنیاد مادی اشیاء کے حوالے استوار کی جاتی ہے مثلاً، ’یہ‘ ماما ہیں، ’یہ‘ ابو ہیں، ’یہ‘ دودھ کا فیڈر ہے، ’یہ‘ کپ ہے، ’یہ‘ بستر ہے۔ غور کیجئے تو لفظ، ’یہ‘ کے تمام تر حوالے مادی اشیاء سے متعلق ہیں۔ یعنی پیدائیش سے ہی ہمیں تصؔورات کو سمجھنے کے لئے مادی حوالوں کا محتاج کر دیا جاتا ہے۔ تصؔورات کو ہم مادی حوالوں کے بغیر سمجھنے کے اہل ہی نہیں رہنے دیے جاتے۔ سائنس کا تعلق مادے اور مادی اشیاء سے ہوتا ہے اس بنا پر سائنس کو سمجھنا آسان ہوتا ہے جبکہ فلسفہ کا تعلق مادی اشیاء کی ما بعد الطبعیاتی حقیقتوں سے ہوتا ہے اس لئے فلسفہ کے تصورات کو سمجھنا مشکل ہوتا۔ ہم یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ موجودہ مادی شے اور اُس کی مابعد الطبعیاتی حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔

موصوف نے پھر مجھے روک کر حیرت سے پوچھا کہ کیا، موجودہ اشیاء کی حقیقت ان اشیاء سے الگ بھی ہو سکتی ہے۔ میرے اقرار پر، موصوف نے اک لطیفہ سنایا کہ: کسی گاؤں کے جاگیردار نے اپنے بیٹے کو وکالت پڑھنے ولایت بھیجا تا کہ واپس آ کر وکیل بن جانے سے اپنے زمینوں کے مسائل خود حل کر سکے گا۔ نیز لوگوں پر دھاک بیٹھے گی کہ کورٹ، کچہری میں خود اپنا آدمی موجود ہے تو عام لوگ دب کر رہیں گے۔ لہذا خوب خرچ بھیجتا رہا۔ کئی سال بعد بیٹا واپس آیا تو خوب خوشیاں منائی گئیں۔

اگلے روز ناشتہ کے وقت والد نے کہا، بیٹا آج چل کر جگہ کا انتخاب کر لو، تا کہ تمھارے لئے دفتر بنوا دوں۔ بیٹے نے کہا کہ دفتر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے وکالت نہیں پڑھی بلکہ میں ما بعد الطبعیات میں پی ایچ ڈی کر کے آیا ہوں۔ والد نے صدمے سے دل کو سنبھالتے ہوئے پوچھا کہ یہ ما بعد الطبعیات ہوتا کیا ہے۔ بیٹے نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا علم ہے جس کی بنا پر میں ثابت کر سکتا ہوں کہ ایک تو شے ہوتی ہے اور دوسرا اس کی حقیقت ہوتی ہے۔ والد نے کچھ توقف کے بعد، انڈا اُٹھا کر منہ میں رکھ لیا اور کھانے کے بعد کہا کہ میں نے انڈا کھا لیا ہے اب تم انڈے کی ما بعد الطبعیتاتی حقیقت کھا لو۔

فلاسفر لوگو: کبھی اپنی بیوی سے بھی کہہ کر دیکھو کہ: تم دو ہو۔ ایک تمھارا ما بعد الطبعیتاتی وجود، دوسرا تمھارا جسمانی وجود۔ بیوی تمھارے سر میں بیلن مار کر سمجھا دے گی کہ جا، اس ما بعد الطبعیتاتی وجود سے ناشتہ لے اور اسی کے ساتھ بچے پیدا کر۔ اسی لئے تم فلاسفر لوگ اکیلے رہ جاتے ہو اور شادی نہی کرتے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ فلاسفر وہ اندھا شخص ہوتا ہے جو اندھیری رات میں، سیاہ تاریک کمرے میں، ایسی سیاہ بلی تلاش کر رہا ہوتا ہے جو کمرے میں موجود نہیں ہوتی ہے۔

موصوف نے تنقید جا ری رکھتے ہوئے کہا کہ: آپ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر شخص فلسفی ہے۔ چاہے وہ مانے یا نہ مانے۔ یہ آپ کی اچھی زبردستی ہے۔ آپ تمام افراد کو کیوں فلاسفر بنانے پر تُلے ہیں۔ آپ کے خیال میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ اگر اپنی ذات تک محدود ہو تو یہ شخصی فلسفہ کہلاتا ہے، اور اگر اس میں آفاقیت ہو اور اس میں تمام عالمِ انسانی کو شامل کر لیا جائے تو یہ منظم فلسفہ کہلائے گا۔

محترم پروفیسر و فلاسفر صاحب، فلسفے اور آرٹ سے محبت اور غریبوں کی حمایت کے نعرے صرف پیٹ بھرائی کی بد ہضمی کے نتیجے ہیں۔ ہمارا مسئلہ، فلسفے اور نظریات نہیں ہیئں۔ بلکہ عزت سے حصولِ معاش اور خاندان کا تحفظ ہے۔ زیادہ ہو تو اپنے سے کم درجے کے افراد کا خیال کر لو، جتنا ہو سکے، غُربا کی مدد کر لو۔ یہ ہمارے فلسفے نہی بلکہ ہمارے مسائل ہیں۔ جن کو آپ زبردستی شخصی اور منظم فلسفے بنانے پر تُلے ہیں۔

میں نے کہا، میرے دوست: جن مسائل کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، مثلاً: آپ کی حیثیت سے متعلق مسائل، آپ کی معاش کے مسائل، کیا آپ کے اخراجات آپ کے وسائل کے مطابق ہیں یا نہیں، دوسروں کے لئے ان وسائل میں کتنا حصؔہ ہے، اپنی بھوک کے بعد دیگر انسانوں کی بھوک کے لئے آپ کیا سوچتے ہیں۔ معاشرے میں آپ کا کیا مقام ہے، ملک اور قوم میں آپ کا کیا مقام ہے اور جدید گلوبل ویلج میں، بین الاقوامی طور پر انسان اور انسانیت کی بھلائی کے لئے آپ کیا سوچتے ہیں۔

وہ کیا اقدار ہیں جو آپ کے خیال میں تمام انسانوں کے لئے لاگو ہونی چاہیے ہیں۔ کیا غریب اور امیر ایک برابر ہیں۔ کیا مذہب، معاش، رنگ اور پیسے کی بنا پر عزت اور حیثیت کا تعیؔن جائز ہے۔ آپ کو جس نے پیدا کیا، تو کیا وہ سب کا خالق ہے یا نہیں۔ اگر کوئی خالق ہے تو پھر ہم سب میں فرق کے اسباب کیا ہیں۔ اس فرق کو دور کیسے کیا جائے۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں تکلیفوں اور بیماریوں میں زندگی گزاری ہے تو ان کا کیا قصور ہے۔

کیا ان کی تکلیفوں کی تلافی ممکن ہے۔ مگر جب وہ تکلیفوں میں ہی مر چکے تو ان کو کوئی اجر ملے گا، یا کہ موت کے بعد یہ سب اگر ختم ہو جانا ہے۔ تو ہم بھی ظالم و غاصب کیوں نہ بن جا ئیں، زندگی کو اُمرا کی طرح عیش سے گزارتے ہیں۔ اگر آخرت نام کی کوئی چیز ہے تو وہ کون ہے جو ہماری تکالیف کا ازالہ اور اجر عطا کرے گا، اور غاصبوں و ظالموں کو سزا دے گا۔ وہ کیا معیاراور نظریات ہیں جن کی بنا پر آپ اپنے بچے کوجھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں۔ چوری، نشہ، بے راہروی سے روکتے ہیں۔ اچھے کام کی تلقین کرتے ہیں، بڑوں کا احترام، غریبوں کی مدد کرنا سکھاتے ہیں۔

موصوف نے کہا: پروفیسر صاحب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم ان سب باتوں کو سوچتے ہیں۔ مگر ہم مخبوط الحواس فلاسفر تو نہیں بن سکتے۔ ہر فلاسفر میں کوئی نہ کوئی خبط ہوتا ہے۔ لوگ پاگل کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پاگل کیا ہوتا ہے؟ پھر خود ہی بتایا کہ حقیقتاً ہر اس فرد کو پاگل کہا جاتا ہے جو عوام الناس کے پہلے سے طے شدہ معیار پر نہ چلے، اسے پاگل کہا جاتا ہے۔ سقراط اور قبل سقراط، سے لے کر آج تک کے ہر عظیم انسان، چاہے فلاسفر ہو، سائینسدان ہو، ادیب ہو، آرٹسٹ ہو، فوجی جنرل ہو، مذ ہبی مصلح ہو، ہر ایک کو عوام الناس نے پہلے پہل، پاگل ہی کہا ہے۔ کیونکہ وہ عام لوگوں کی روایات اور معیار کے مطابق نہیں سوچتے۔ اگر یہ لوگ عام لوگوں کی طرح سوچتے تو پاگل نہ کہلواتے لیکن پھر وہ عظیم بھی کبھی نہ بنتے اور وہ بھی عام لوگ ہی رہتے۔ اور انسانی تاریخ ان پاگل لوگوں کی عدم موجودگی میں اور ہی کچھ ہوتی۔

تھلیز نہ ہوتا تو سایئنسی سوچ کا آغاز نہ ہوتا، سقراط اپنی جان نہ دیتا تو اپنے نظریات کے لئے زہر پی کر جان قربان کرنے کا چلن نہ ہوتا۔ علم و سایئنس کے فروغ کے لئے اپنی ہی تحریر کردہ کُتب پر بٹھا کر، چوک میں زندہ جلائے جانے پر اگر یہ پاگل بھاگ جاتے تو آج علم نام کی چیز نہ ہوتی۔ قاتلانہ حملوں، کفر کے نام پرشہادتوں سے یہ پاگل ڈر جاتے تو آج ہم اور آپ کتاب کی بجائے کسی درخت کے نیچے بیٹھے، سادہو کے سامنے راکھ ملے بیٹھے ہوتے، اگر یہ پاگل لوگ نہ ہوتے جن کے سر پہ ان کی تحریر کردہ کُتب کو مار مار موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا نہ ملی ہوتی، تو آج ہم اشرف المخوقات تو کیا، انسان ہونے کے احساس سے بھی آگاہ نہ ہوتے۔

یہ پاگل لوگ پتھر مار مار کر شہر بدر نہ کیے جاتے تو آج ہم شھروں میں نہ ہوتے۔ نیوٹن جیسا پاگل نہ ہوتا اور عا م فرد کی طرح سیب اُٹھا کر کھا جاتا اور پاگل پن میں سوچ بچار نہ کرتا تو آج ہم آسمان پر جانے کی بات نہ کرسکتے۔ عام انسان تو چھوٹی سی کرسی اور فائدے کے لئے دھوکا، فراڈ، جھوٹ، رشوت تک میں ملوث رہتا ہے جب کہ یہ پاگل لوگ، عام لوگوں کی طرح نہیں سوچتے۔ یہ پاگل لوگ ہی ہیں جوعلم کے لئے ملک کی صدارت کی پیشکش تک ٹھکرا دیتے ہیں اور لیبا ٹری میں تجربات کرتے ہوئے دن رات کی تمیز کیے بغیر زندگی بسر کر دیتے ہیں۔

اگر یہ پاگل نہ ہوتے تو آج کائنات کو مسخر کرنے کی سوچ ہی نہ ہوتی۔ یہ پاگل لوگ ہی ہیں جن کی قربانیوں کے طفیل ہم موجودہ گلوبل ولیج کے باسی اور کائنات کے مسافر بنے ہیں، ہم کو تو ان پاگلوں کا مشکور ہونا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم کام تو کرتے نہیں اور کام کرنے والوں کو پاگل کہہ کر، دراصل اپنی کم ہمتی اور کم حوصلگی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ پاگل نہیں ہوتے بس اپنے کام میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ عام لوگوں کی ترجیحات کی طرح ان کی ترجیحات نہیں ہوتیں۔ ان کی مخصوص ترجیحات اور دیگر افعال سے قطع نظری کو، ہم عام لوگ مخبوط الحواسی اور پاگل پن کہتے ہیں۔

ناقد موصوف نے کہا۔ آپ مجھے باتوں میں اُلجھا کر خود کو مجھ سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ مختصر الفاظ میں بتایئے کہ فلسفہ ہمیں دیتا کیا ہے۔

میرا جواب یہ تھا کہ کیا آپ اپنے آپ کو جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کیا ہیں، آپ کن صلاحیتون کے مالک ہیں اور کیا آپ غلام بننے اور غلامی کی زندگی پسند کرتے ہیں۔ ناقد موصوف نے جواب دیا۔ یقینناً میں خود کو جاننا چاہتا ہوں اور غلامی سے نفرت کرتا ہوں۔

میں نے کہا، بالکُل ٹھیک۔ فلسفہ یہی کام کرتا ہے۔ موصوف نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور پوچھا۔ کیسے؟

میرا جواب یہ تھا: فلسفہ آپ کو ایک چیز دیتا ہے اور بدلے میں ایک چیز لیتا بھی ہے۔ اوؔل فلسفہ آپ کو خود آگاہی عطا کرتا ہے اور بدلے میں آپ سے جو کچھ لیتا ہے وہ ہے آپ سے بہترین غلام بننے کی صلاحیتیں۔ فلسفہ پڑھنے والا، اپنے آپ سے آگاہ ہوتا ہے اور کسی کا غلام نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ: زندہ قوموں کے لئے، ورثہ اور اثاثہ ہوتا ہے ؛ جبکہ غلاموں کے لیے وقت کا ضیاع۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).