موسمیاتی تبدیلی ’بائبل کے طاعون‘ کو کس طرح فروغ دے سکتی ہے؟


یمن کے دارالحکومت صنعا میں ٹڈی کا حملہ

یمن کے دارالحکومت صنعا میں ٹڈی کا حملہ

یہ دو حملوں کی کہانی ہے: 27 جولائی کو لاس ویگاس میں کدو کی فصل پر ’حملے‘ کی تصاویر دنیا بھر تک پہنچ گئیں۔

یہ کسی بھی چیز سے زیادہ پریشانی کا سبب بن گئی اور بنیادی طور پر اس صحرائی شہر کی چُندھیا دینے والی روشنی کی طرف راغب ہوئی تھیں۔

اسی دوران، خانہ جنگی سے تباہ حال ملک یمن میں کیڑوں کی ایسی یلغار ہوئی جو زیادہ تشویشناک ہے اور جس کا ذکر بھی کم ہوا۔

یہ ٹڈیوں کا حملہ تھا، جن کی خوراک فصلیں ہیں اور جو 60 سے زائد ملکوں خاص طور پر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ممالک میں ان فصلوں کو بری طرح نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

ایسے واقعات کی تعداد بڑھتی جائے گی اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے حشرات مزید تباہ کن اور غیر متوقع انداز میں حملہ کر سکتے ہیں۔

ٹڈیوں کے جتھے کی بھوک

اس کے شواہد پہلے سے موجود ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کا کیڑے مکوڑوں کے نظام انہضام پر براہ راست اثر پڑے گا۔

Desert Locus

FAO
صحرائی ٹڈے جلد ہی جھنڈ بنا لیتے ہیں اور یہ فصلوں کے لیے نقصان دہ ہیں

سنہ 2018 میں امریکی سائسندانوں نے ایک تحقیق سائنس جرنل میں شائع کی تھی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ گرم موسم کیڑے مکوڑوں کو زیادہ متحرک کرتا ہے اور وہ زیادہ تیزی سے افزائش نسل کرتے ہیں۔

یہ انھیں زیادہ بھوکا بناتا ہے اور ایک بالغ ٹڈا ایک دن میں اپنے وزن کے برابر خوراک کھا سکتا ہے

مانیٹرنگ

The researchers estimated that global damage caused by insect pests to wheat, rice and maize crops could increase from 10% to 25% per degree Celsius of warming.

محقیقین نے اندازہ لگایا ہے کہ فی ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بڑھنے سے فصلی کیڑوں کی وجہ سے گندم، چاول اور مکئی کی فصل کو ہونے والے عالمی نقصان میں 10 سے 25 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

The brunt of this damage could take place in regions of temperate climate, where most grain is produced.

اس نقصان کا نتیجہ معتدل آب و ہوا کے ایسے علاقوں میں ہوسکتا ہے ، جہاں زیادہ تر اناج پیدا ہوتا ہے۔

“With the exception of the tropics, warmer temperatures will increase the reproductive rates of insects. You have more insects, and they’re eating more,” wrote Curtis Deutsch, one the authors of the 2018 study.

سنہ 2018 میں کی جانی والی تحقیق کی مصنف کرٹس ڈوشے لکھتے ہیں ’خطہ استوا کے قریب واقع علاقوں کے علاوہ گرم درجہ حرارت کیڑوں کی تولیدی شرح میں اضافہ کرے گا۔ آپ کے پاس زیادہ کیڑے ہوں گے اور وہ زیادہ خوراک کھائیں گے۔‘

Man involved by a swarm of locusts in Israel in 2013

Warmer temperatures will make insects eat more and breed more – including locusts

While locusts are not the only species to devour crops, they are a the single most monitored by national and international authorities, thanks to their destructive potential.

اگرچہ ٹڈے حشرات کی واحد انواع نہیں ہے جو فصلوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں مگر یہ واحد کیڑے ہیں جن پر قومی اور بین الاقوامی حکام ان کی تباہ کن اثرات مرتب کرنی کی صلاحیت کی وجہ سے زیادہ نظر رکھتے ہیں۔

Efforts in the last four decades have kept them at bay but there have been serious outbreaks such as the 2004 Africa infestation, which caused estimated damages of $2.5 billion to crops

پچھلی چار دہائیوں میں کی جانے والی کوششوں نے انھیں بدحالی کا نشانہ بنایا ہے لیکن سنہ 2004 میں افریقہ میں وبا کی طرح ہجوم میں ان کے حملے نے فصلوں کو ڈھائی بلین تخمینے کا نقصان پہنچایا تھا۔

Food security

غذائی تحفظ

Although it is estimated that the global proportion of all insect damage caused by locusts is relatively small – academics have put it at only 0.2% – the effect of the swarm on a particular locality can be devastating.

البتہ اگرچہ یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ٹڈیوں کی وجہ سے ہونے والے تمام کیڑوں کو پہنچنے والے نقصان کا عالمی تناسب نسبتاً کم ہے – ماہرین تعلیم نے اسے صرف 0.2 فیصد تک پہنچایا ہے – کسی خاص جگہ پر بھیڑ کا اثر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

“Drier conditions in the future in the northern and southern limits of desert locust distribution area may produce more favourable habitats for this species and may have important negative impacts,” entomologist Michel Lecoq, one of the world’s leading experts in locusts, tells the BBC.

ٹڈیوں پر دنیا کے صف اول کے ماہرین میں سے ایک ماہر مائیکل لیکوق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مستقبل میں صحرا کی شمالی اور مغربی حد میں خشک سالی کے باعث ٹڈیوں کی افزائش نسل کے لیے مزید سازگار حالات بن سکتے ہیں اور اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔‘

“The stakes in terms of damage to crops, pasture and ultimately food and social security for many poor people in developing countries could be enormous,” Le Coq warns

لیکوق نے خبردار کیا کہ ’اس سے ترقی پذیر ممالک کے بہت سے غریب لوگوں کے لیے فصلوں، چراگاہوں اور بالآخر خوراک اور سماجی تحفظ کو پہنچنے والے نقصانات بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔‘

Illustration depicting a locus infestation in Syria in 1865

Locusts are one of the oldest plagues known to men and are mentioned in the Bible and the Koran

Destructive history

تباہ کن تاریخ

Plagues of the most devastating kind, the desert locust, have the potential to damage the livelihood of 10% of the world’s population, according to the FAO – the Food and Agriculture Organisation of the United Nations.

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق سب سے زیادہ تباہ کن طاعون کی قسم صحرائی ٹڈیاں ہیں جو دنیا کی دس فیصد آبادی کے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچانے کا قوی امکان رکھتی ہیں۔

Just a “small” swarm eats the same amount of food in one day as about 35,000 people.

ان ٹڈیوں کا ایک چھوٹا جھنڈ ایک دن میں 35000 افراد کی خوراک کے برابر خوراک کھاتا ہے۔

Their favourite “nibbles” include staple grains such as rice, maize and wheat.

ان کی پسندیدہ خوراک میں اناج کے پودے جیسا کے گندم، چاول اور مکئی شامل ہے۔

These creatures are some of mankind’s oldest foes – they even made an appearance in the Bible and the Koran.

جیسا کہ قرآن اور بائبل میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ مخلوق انسانیت کی سب سے پرانی دشمن ہے۔

In the ancient world, Roman historian Pliny the Elder said that 800,000 people had died in what is now Libya, Algeria, and Tunisia from famine caused by a locust plague.

قدیم دنیا میں یونانی مورخ پلینی دی ایلڈر نے کہا تھا کہ ٹڈیوں کے طاعون کی وجہ سے قحط سے 800،000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ علاقہ اب لیبیا، الجیریا اور تیونس ہیں۔

More recently, in 1958 in Ethiopia, a locust swarm said to cover more than 1000 square kilometres destroyed a reported 167,000 tonnes of grain – enough to feed a million people for a year

سنہ 1958 میں ایتھوپیا میں ٹڈیوں کے ایک جتھے نے 1000 مربع کلومیٹر سے زیادہ کے رقبے پر 167،000 ٹن اناج تباہ کیا تھا جو ایک سال کے لئے 10 لاکھ افراد کی خوراک کے لیے کافی تھا۔

A swarm of locusts and crops

Locusts have voracious appetites and can quickly cause great damage to crops

Temperate regions will be more affected by hungrier insects because their metabolism slows down if it gets too hot, which is already the case in tropical areas.

معتدل علاقے ان بھوکے کیڑوں سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ اگر یہ علاقے زیادہ گرم ہوں گیے تو ان کیڑوں کا نظام انھضام سست ہو جائے گا جیسا کہ یہ مسئلہ پہلے ہی استوائی خطے کی علاقوں کو درپیش ہے۔

In 2016 experts suspected global warming played a role when Argentina dealt with its biggest locust infestation in 60 years.

ماہرین کو شبہ ہے کہ سنہ 2016 میں جب ارجنٹینا کو گذشتہ 60 برسوں میں ٹڈیوں کے سب سے بڑے حملے کا سامنا تھا اس میں گلوبل وارمنگ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

A warmer and more humid winter is believed to have triggered the phenomenon.

گرم اور حبس والے موسم سرما کو اس رحجان کا زمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

Higher and longer flights

اونچی اور لمبی پروازیں

The FAO, which coordinates a global monitoring network specifically for desert locust activities, also warns that climate change could result in more favourable conditions for migration and distance covered – adult desert locusts can fly up to 150km in a single day

اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے خوراک جو ریگستان کی ٹڈیوں کی سرگرمیوں کے خصوصی عالمی نگرانی کے نیٹ ورک کو مربوط کرتا ہے، نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں نقل مکانی اور فاصلہ طے کرنے کے زیادہ سازگار حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک بالغ ٹڈی ایک دن میں 150 کلومیٹر تک اڑ سکتی ہے۔

“Under future warming, swarms could perhaps reach areas quicker than in the past,” the agency says.

اس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’مستقبل میں بڑھتی ہوئی گرمی کے سبب ماضی کے مقابلے میں شاید اب یہ جھتے علاقوں میں جلد پہنچ سکتے ہیں۔‘

Colombia's James Rodriguez celebrates a goal with a locust on his arm during a World Cup game in Brazil in 2014

Locusts even made an appearance at the 2014 World Cup

Warmer temperatures could also allow the insects to fly higher and overcome natural barriers like mountains, opening new migration routes, especially if wind patterns change as locusts are carried further.

گرم درجہ حرارت ان کیڑوں کو اونچا اڑنے اور قدرتی رکاوٹوں جیسا کے پہاڑوں کو عبور کرنے میں مدد دے سکتے ہیں اور ان کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے نیے راستے کھول سکتے ہیں خاص کر اگر ہوا کا رخ ان کی پرواز کی سمت میں ہو تو وہ انھیں مزید دور لے جا سکتی ہے۔

“In general, locust outbreaks are expected to become more frequent and severe under climate change,” says Arianne Cease, director of the Global Locust Initiative at Arizona State University

اریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں گلوبل لوکسٹ انیشیٹو کی ڈائریکٹر آرائن سیز کا کہنا ہے کہ ’عمومی طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ٹڈیوں میں حملے زیادہ ہونے اور بڑھنے کا امکان ہے۔‘

Sustenance farming regions are the most vulnerable to the devastation caused by locust swarms.

غذا کی کاشت کاری کرنے والے علاقوں کو ٹڈیوں کے حملے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔

But not only food-producing crops are at risk: in Pakistan, authorities have been dealing with an infestation that threatened cotton crops, a product responsible for almost half of the country’s exports.

لیکن نہ صرف غذائی فصلوں کو ہی خطرہ لاحق ہے بلکہ پاکستان میں حکام ایک ایسے حملے سے نمٹنے کے لئے کام کر رہے ہیں جس سے روئی کی فصل کو خطرہ لاحق ہے، جو ملک کی برآمدات کا نصف حصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp