ہزارہ ایکسپریس وے: وزیرِ اعظم عمران خان آج سی پیک کے تحت بننے والی شاہراہ کا افتتاح کریں گے


ہزارہ ایکسپریس وے، سی پیک، پاک چین اقتصادی راہداری

حکام کے مطابق اس ایکسپریس وے کی تعمیر سے حسن ابدال اور ہزارہ ڈویژن کی آبادی کو فائدہ ہوگا جبکہ سفر کے اوقات میں کمی ہوجائے گی، مگر اس بات سے سب متفق نظر نہیں آتے

وزیرِ اعظم عمران خان آج پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت پنجاب کے علاقے حسن ابدال سے لے کر تھاکوٹ تک 180 کلومیٹر زیرِ تعمیر ہزارہ ایکسپریس وے (ایم-15) کا آج افتتاح کریں گے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن کے کمشنر سید ظہیر السلام نے بی بی سی کو کہ بتایا پیر کو شاہ مقصود سے مانسہرہ تک بننے والی روڈ کا افتتاح کیا جائے گا۔

اس سڑک کے بننے سے اسلام آباد، راولپنڈی سے وادی کاغان کا سفر صرف چار سے پانچ گھنٹے کا رہ جائے گا

واضح رہے کہ اس سے قبل حسن ابدال سے شاہ مقصود، ہری پور تک روڈ گذشتہ سال عوام کے لیے کھولا گیا تھا۔

سید ظہیر السلام کے مطابق مانسہرہ تک روڈ کے افتتاح سے عوام کو ٹریفک جام سے نجات حاصل ہوگی جبکہ علاقے کے اندر سیاحت میں بھی اضافہ ہونے کی توقع موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سی پیک کی تعمیر پر انڈیا کے کیا تحفظات ہیں؟

پاکستانی فضائیہ موٹر وے پر مشقیں کیوں کرتی ہے؟

’را گلگت بلتستان میں سی پیک کو نشانہ بنا سکتی ہے‘

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ترجمان محمد مصطفیٰ کے مطابق اس کی تعمیر کا تخمینہ تقریبا 137 ارب روپے ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس کا مانسہرہ سے تھاکوٹ جانے والا دوسرا حصہ فروری 2020 میں مکمل کر لیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور چین کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار ہونے والی اس سڑک میں دو جدید ترین ٹنل، نو فلائی اوور اور 47 پل تعمیر کیے گئے ہیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ یہ دنیا کا خوبصورت ترین ایکسپریس وے ہوگا جس کے ارد گرد کی خوبصورتی دیکھ کر لوگ بار بار یہاں سفر کرنے کی خواہش کریں گے۔

پاکستان اور چین کے تعلقات پر نظر رکھنے والے صحافی زبیر ایوب کے مطابق شمالی علاقہ جات میں شاہراہ قراقرم اپنی تعمیر سے بھی سالوں پہلے ہی سے سلک روٹ یا بین الاقوامی روٹ تھا، جو اس خطے میں چین کے ساتھ سیاسی، سماجی، کاروباری اور دیگر رابطوں کا بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔

1960 اور 1970 کی دہائی میں چین اور پاکستان نے مل کر شاہراہ قراقرم بنائی، جسے چین نے اپنی کاروباری نقل و حرکت کے لیے استعمال کیا۔

ان کے مطابق اب بھی چین نئے ہزارہ ایکسپریس وے کو اپنے کاروباری مقاصد اور رابطوں کے لیے استعمال کرے گا۔

ہزارہ ایکسپریس وے، سی پیک، پاک چین اقتصادی راہداری

کارکن ہزارہ ایکسپریس وے پر کام میں مصروف

پاکستان کے ساتھ ملحق چین کے جنوب میں واقع مسلمان اکثریتی صوبوں میں چین نئے صنعتی شہر تعمیر کر رہا ہے۔ اسی طرح ان علاقوں سے اگر مصنوعات کو دنیا بھر کی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے چین کی بندرگاہ تک پہنچائی جائیں تو کوئی چار ہزار کلومیٹر سے زائد راستہ بنتا ہے جبکہ پاکستان کے راستے گوادر پورٹ تک صرف 2300 کلو میٹر راستہ بنتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ روٹ چین کے لیے کتنا فائدہ مند ہے۔

’معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی توقع‘

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ترجمان محمد مصطفیٰ کے مطابق ہزارہ ایکسپریس وے کا منصوبہ سی پیک منصوبوں میں ایک اہم ترین منصوبہ ہے۔ یہ پاکستان اور چین کے درمیاں تجارت کی مرکزی شاہراہ ہوگی جس پر بین الاقوامی ٹریفک سفر کرے گی۔

آغاز ہی سے توقع کی جا رہی ہے کہ اس پر روزانہ 10 ہزار گاڑیاں سفر کریں گی جبکہ سال 2020 میں توقع ہے کہ اس پر روزانہ 28 ہزار گاڑیاں سفر کریں گی۔ اس منصوبے کی بدولت مختلف مد میں 38 ارب روپیہ کی سالانہ بچت ہوسکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا براہ راست فائدہ ہزارہ ڈویژن اور پنجاب میں موجود حسن ابدال کی 70 لاکھ آبادی کو نئے روزگار اور معاشی سرگرمیاں زیادہ ہونے کی صورت میں فائدہ ہوگا، بلکہ اس سے اسلام آباد سے مانسہرہ کا سفر کم ہو کر دو سے ڈھائی گھنٹے تک رہ جائے گا، جبکہ اسلام آباد سے وادی کاغان جانے کا راستہ بھی کم ہو کر چار سے پانچ گھنٹے تک ہوگا۔

’سہولت، مگر سب کے لیے نہیں‘

صحافی زبیر ایوب کے مطابق حویلیاں کے قریب ایک صنعتی ایریا تعمیر کیا جا رہا ہے جس سے ٹرانسپورٹ، سیاحت اور اشیاء کی خرید و فروخت کے بھی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

تاہم ایبٹ آباد کے تاجر اس بات سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں۔

مقامی تاجر رہنما اور کاروباری شخصیت محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ سی پیک اور ہزارہ ایکسپریس وے کی تعمیر اور اس کی افادیت پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اس کی تعمیر سے ہری پور، ایبٹ آباد اور مقامی علاقوں کی کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد ایک گرمائی علاقہ ہے۔ یہاں پر مقامی کاروباری افراد کو اس وقت کاروبار ملتا ہے جب سیاح اور سیزن کے دوران رہائش اختیار کرنے والے لوگ آتے ہیں اورپھر دوسرے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ مگر ایکسپریس وے کی تعمیر کے دوران تو اس کا خیال ہی نہیں رکھا گیا ہے۔ ایبٹ آباد شہر کے لیے کوئی بھی مناسب انٹرچینج نہیں ہے، جس سے مقامی کاروباری افراد کو سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔

ہزارہ ڈویژن کی مقامی آبادیوں نے ایکسپریس وے کے کھلنے پرخوشی کا اظہار کیا ہے۔ روزانہ حویلیاں سے ایبٹ آباد سفر کرنے والی خاتون استاد انیلہ بی بی کا کہنا تھا کہ کہنے کو تو ڈیوٹی اوقات آٹھ بجے شروع ہوتے ہیں اور دو بجے چھٹی ہوتی ہے، مگر ٹریفک اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ صبح ہمیں سکول وقت پر پہنچنے کے لیے چھ بجے گھر سے نکلنا پڑتا ہے اور چھٹی کے بعد کہیں چار، پانچ بجے گھر پہنچتے ہیں۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ ایکسپریس وے کھلنے کے بعد ٹریفک کا بہاؤ کم ہوگا اور ہماری بھی زندگی کسی معمول کے مطابق چل سکے گی۔

کاغان ناران ہوٹل ایوسی ایشن کے صدر سیٹھ مطیع الرحمٰن نے ایکسپریس وے کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایبٹ آباد، مانسہرہ شہر میں ٹریفک کے رش اور بلاک ہونے کی وجہ سے اسلام آباد سے آٹھ سے دس گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا تھا مگر اب یہ سیاح سہولت کے ساتھ مانسہرہ دو سے ڈھائی گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں اور مانسہرہ سے ڈھائی سے تین گھنٹے میں ناران تک پہنچ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی سیاحوں نے تو کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کی وجہ سے دوبارہ رخ کرنے سے بھی توبہ کرلی تھی اور روڈ کی یہ سہولت ہونے کے بعد امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیاح علاقے کا رخ کریں گے جس سے مقامی روزگار اور ترقی میں اضافہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp