عقل، عشق اور حیات انسانی


مخلوقات عالم میں سے انسان وہ مخلوق ہیں جن کا ہر لمحہ اپنی ذات کے ساتھ جنگ و جدل میں گزرتا ہے۔ ان کی ذات دو متضاد قوتوں کے درمیان میدان جنگ بنی رہتی ہے۔ ایک قوت کا تعلق ان کے خواہشات نفسانی سے ہے جو ہمیشہ فطری، عقلی اور انسانی حدود و قیود سے آزادی چاہتی ہیں۔ انسان کو اپنا اسیر بنانے پر بضد رہتی ہیں جبکہ دوسری قوت کا تعلق انسانی ارادے سے ہے جو ان بے لگام نفسانی خواہشات کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح طور پر گیارہ قسمیں کھا کر ان قوتوں کا ذکر سورة شمس میں کیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”اللہ تعالی نے نفس کی قسم کھائی اور پھر فرمایا کہ اس نفس کو ہم نے نیکی اور بدی کے بارے میں الہام کیا۔ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اس نے فلاح پائی اور جس بے اس کو گناہوں سے آلودہ کیا وہ برباد ہوگیا“۔

اب ذات نسانی میں وہ کون سی قوت ہے جو اس نیکی اور بدی کے فرق کو سمجھنے پر قدرت رکھتی ہے؟ کسی انسان کو یہ پتا کیسے چلے کہ یہ اچھائی ہے اور یہ برائی ہے؟

اس فرق کو واضح کرنے کے لئے قدرت نے انسان کو ”عقل“ کی قوت عطا کی ہے۔ عقل وہ اولین رہنما ہے جو انسانوں کو حیوانات کے صف سے جدا کرتی ہے۔

سید العلماء سید علی نقی نقوی ( رح) فرماتے ہیں کہ

”حیوان کا علم محسوسات کے دائرے میں اسیر ہے۔ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالم احساس و مشاہدہ کے ماورا اپنی عقل کی مدد سے کچھ حقیقتوں کا ادراک کرتا ہے اور معلومات سے مجہولات کا پتا لگاتا ہے“۔

عقل ہی کے طفیل انسان زندگی کی راہ کا تعین کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ یہ عقل ہی ہے جو انسان کو ہلاک سے بچاتی ہے۔ تعقل اور تفکر کے ذریعے انسان راہ سعادت کی تشخیص کر سکتا ہے۔ عقل و فکر ہی انسانیت کو عوج کمال پر منتج کرسکتی ہے۔ تعقل اور تفکر انسانیت کو ان کے حقیقی خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور ان کو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا ”خدا وند عالم نے ہدایت بشر کے لئے دو راہنما قرار دیے ہیں۔ ایک آشکار دوسرا پنہاں، خدا کی آشکار حجت انبیاء و اولیائے کرام ہیں اور باطنی حجت عقل ہے“۔

انسان کی نفسانی خواہشات ہمیشہ آزادی چاہتے ہیں۔ وہ انسان کو سرکشی کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اس طرح نفس انسانی خواہشات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اس دوران صرف عقل ہی کی توسط سے نفس کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ عقل و تفکر انسان کو حقیقتوں سے روشناس کر دیتا ہے۔ اس کو مضبوط قوت ارادی فراہم کرتا ہے۔

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”آدمی کا افضل ترین سرمایہ اس کی عقل ہے، کیونکہ اگر و ذلت سے دوچار ہوتا ہے تو عقل اسے عزت دلاتی ہے، اگر وہ گرنے لگتا ہے تو عقل اسے سنبھال لیتی ہے، اگر وہ گمراہ ہونے لگتا ہے تو عقل اسے راہ راست کی ہدایت کرتی ہے اور اگر وہ کوئی بات کرتا ہے تو عقل اسے ٹھوس بنا دیتی ہے“۔

قرآن مجید کی آیت کا مفہوم ہے کہ ”کیا انہوں نے زمین کی سیر و سیاحت نہیں کی کہ ان کو وہ دل میسر آجاتا جس کے ذریعے وہ تعقل کرتے۔ کہ ان کو وہ کان میسر آجاتے جن کے ذریعے وہ سن پاتے۔ اصل میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندے ہوتے ہیں جو ان کے سینوں میں موجود ہیں۔

جب طاغوت وقت ( فرعون ) نے حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں جادوگر بلا لئے۔ انھوں نے اپنی لاٹھیاں پھینکیں تو وہ بڑے بڑے سانپ بن گئے۔ جواب میں حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینگی تو وہ بڑا اژدہا بن گیا اور جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا۔

جادوگر جب یہ جان گئے کہ موسی علیہ السلام کا علم جادو نہیں بلکہ حقیقت ہے تو وہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔ مگر فرعون کی قوم چونکہ جاہل تھی انھوں نے حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے موسی علیہ السلام کو ان جادوگروں کا گورو تصور کیا۔ فرعون نے بھی اپنی قوم کی جہالت کو مزید ہوا دینے کے لئے اسی بات کو تقویت دی۔ انھوں اپنی قوم سے کہا کہ یہ ان کا بڑا گورو ہے سارا جادو تو اسی نے ان کو سکھایا ہے۔

جادوگر کافر ضرور تھے مگر عقل کے اندھے نہیں تھے۔ دنیا کی اتنی سیر و سیاحت بھی کر چکے تھے۔ وہ اپنی آنکھوں سے حق کو دیکھ بھی سکتے تھے اور سن بھی سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے حقیقت کو تسلیم کیا اور سجدے میں گر گئے۔ اپنی عقل کے درست استعمال نے ان کو عذاب الہی سے بچا لیا۔

دوسری طرف طاغوت وقت تھا۔ جن کی قوم اندھی تقلید میں مبتلا ہوچکی تھی۔ ان کو نا تو حق نظر آرہا تھا اور نہ ہی حق بات کو سن سکتے تھے۔ وہ اپنی قوم سمیت عذاب الہی کی گرفت میں آگیا اور غرق ہوگیا۔

”امریکن سکالر جان ہاسپرس کے مطابق علم کا منبع دراصل عقل ہے۔ استدلال ایک عمل ہے جو انسان کرتا ہے مگر عقل ایک صلاحیت ہے۔ یعنی عقل فکر کی صلاحیت کا نام ہے۔ اسی معنی میں انسانوں کو حیوان ناطق ( عقلی) کہا جاتا ہے۔ اگر ہم فکر کے اہل نہیں تب ہم کسی علم کا اکتساب نہیں کر سکتے۔ یہ صلاحیت کسی بھی علم کے حصول کے لئے ناگزیر ہے۔ خوا یہ علم حواس خارجی کے تجربہ سے حاصل کیا گیا ہو یا حواس باطنی کے تجربہ سے۔ عقل تمام علم کے لئے ایک لازمی شرط ہے“۔

انسان اپنی عقل و فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے حقیقتوں کا ادراک کرتا ہے اور معلوم حقیقتوں کے ذریعے نا معلوم حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔

افلاطون کے اس ایک جملے میں رمز حیات کا پورا سمندر موجزن ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ”عقل کی انتہا کو پہنچنے والے ہی عشق کی ابتداء کرتے ہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).