دھرنا سیاست اور عوام


ملکی سیاست جس دوراہے پر آکھڑی ہوئی ہے اس سے حکومت سمیت ملکی سیاستدانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے سیاستدانوں کی جذباتی اور جارحانہ سیاست عوام کے لئے سوہان روح بنتی جا رہی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک اپنے کارکنان کے لئے کوئی ایسا ادارہ نہیں بنایا جہاں ان کی سیاسی شعور کی پختگی کے لئے تربیت کی جاتی ہو تاکہ سیاسی کارکنان ایسی سیاست کا حصہ بن سکیں جو ملک و ملت کے مفادات کی ضامن ہو۔ پاکستان کی احتجاجی و دھرنا سیاست نے عوام کو ہمیشہ مایوس کیا جس کے باعث عوام کا اب روایتی دھرنا سیاست سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔

اگر ملک میں ہونیوالے دھرنوں کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تواسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے پہلا دھرنا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما مفتی جعفر حسین کی قیادت میں جنرل ضیاء کے زکوۃ آرڈیننس کے خلاف دیا گیا تھا پانچ جولائی 1980 ء کو دیے جانیوالے اس دھرنے کے اگلے روز ہی جنرل ضیاء نے اہل تشیع کو اس آرڈیننس سے مستثنیٰ قرار دیدیا تھا۔ اگر ملکی احتجاجی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو ملک میں دھرنوں کی سیاست کا موجد جماعت اسلامی کو کہا جاتا ہے میر مرتضی بھٹوقتل کے ایک ماہ بعد سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے بے نظیر حکومت کے خلاف اکتوبر 1996 ء میں ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیا اور نومبر میں سابق صدر مملکت فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کر دیا۔

دوسرا دھرنا دسمبر 2010 ء میں صیہونی قوتوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اور مذہب کے قانون میں ترمیم کے ممکنہ خدشات کے پیش نظر سابق امیر جماعت اسلامی منور حسین کی قیادت میں پارلیمنٹ کے نزدیک پریڈ گراؤنڈ میں علامتی دھرنا دیا گیا۔ جنوری 2013 ء میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ملک میں بہتر گورننس کے انقلاب اور انتخابات کے نظام میں شفافیت کے لئے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور ایک سال بعد تحریک انصاف حکومتی پارٹی نے انتخابات میں مبینہ طور پر کی گئی دھاندلی کے خلاف اسلام میں آباد میں دھرنا دیا اور اس دھرنا میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت بھی شریک رہی اور یہ ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا جو تین ماہ سے زائد مدت تک جاری رہا یہی نہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گذشتہ حکومت کے دور اقتدار میں بطور اپوزیشن ڈرون حملوں کے خلاف دھرنا دیا اور یورپی یونین اور امریکی فوجیوں کے لئے راشن لے جانے والے ٹرک روک دیے تھے۔

2017  میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے اسلام آباد کی جانب مارچ کرتے ہوئے الیکشن بل 2017 ء آئینی ترمیم میں حلف نامہ کے الفاظ کو بدلنے کے خلاف دھرنا دیدیا اور مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد سے استعفیٰ لیا جائے اس مطالبہ کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دے دیا اور خادم حسین رضوی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے اور ایک معاہدے کے تحت یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔

اب جمعیت علمائے اسلام نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کراچی سے مارچ شروع کیا اور اسلام آباد پہنچتے ہی یہ آزادی مارچ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کے مطالبے کے ساتھ دھرنا میں تبدیل ہو گیالیکن استعفیٰ تو نہیں ملا لیکن مولانا چند دنوں بعد ہی دھرنا شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کے ساتھ اپنے کارکنان سمیت پلان بی میں داخل ہو گئے۔ ملک کا سیاسی نظام ان دنوں بہت سی پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار ہے ملک میں ایسی بے یقینی کی صورتحال نے جنم لے لیا ملکی سیاست میں اس انداز سے اتھل پتھل ہو رہی ہے جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے عوام جو پہلے ہی مسائل کی دلدل میں پور پور ڈوبی ہوئی ہے ان مسائل کے حل کے لئے واضح حکمت عملی اور اقدامات ترجیہی بنیادوں پر نہیں اٹھائے جا رہے۔

پاکستان میں بد قسمتی سے سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری نے پورے سیاسی نظام کو ڈکٹیٹ کیا ہوا ہے گذشتہ تین دہائیوں سے ایسے سیاسی نظام کو پروان چڑھایا گیا جہاں غریب اور امیر کے درمیان طبقاتی سرخ لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ سیاسدانوں کی کرپشن و بدعنوانی ’نا اہلیت اور مفادت کی سیاست کی ترجیحات نے ملکی سیاسی نظام کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا جہاں اب یہ نظام بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے سیاستدانوں نے جو منافقانہ سیاست کے بیج بوئے وہ اب کھل کر ان کے سامنے آرہے ہیں۔

ملک میں جو مفاداتی سیاست کی گرہ سے بندھی ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت کی آبیاری ملکی سیاستدانوں نے کی اس کے ثمرات سے یہ خود تو فیض یاب ہوتے رہے لیکن عوام جمہوری لوازمات سے یکسر محروم ہی رہی۔ جب بھی ان کے مفادات خطرات سے دوچار ہوتے ہیں تو ملک میں ایک احتجاجی سیاست کی لہر جنم لے لیتی ہے حکومت اور اداروں پر اس احتجاجی سیاست کے ذریعے اتنا دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے کہ معاملہ کچھ لو اور دو پر آکر ختم ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کے اس احتجاجی اور دھرنا سیاست کے باعث عوام بالکل بیزار ہو چکی ہے کیونکہ اب تک ملک میں جتنے بھی احتجاج ’لانگ مارچ یا دھرنے ہوئے وہ صرف مفادات کے حصول یا اقتدار حاصل کرنے کے لئے کیے گئے جس کے باعث عوام کے مسائل میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ملک کی معشیت کو جہاں ناقابل تلافی نقصان ہوا وہیں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک ترقی کے زینہ پر قدم نہیں رکھ سکا مفاد عامہ سے عاری اس احتجاجی سیاست نے ملک و ملت کے مسائل اور چیلجز میں اضافہ کیا۔

المیہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی احتجاجی تحریکوں نے جنم لیا اس میں سے بیشتر اس لئے کامیاب ہوئیں کیونکہ یہ تحریکیں عوام کو درپیش گھمبیر مسائل کے پیش نظر چلائی گئی تھی جس کے باعث حکومتوں کی تبدیلیاں اور ممالک کی بہتر گورننس کے لئے نظام وضع کیے گئے لیکن پاکستان میں جتنی بھی احتجاجی تحریکیں چلائی گئی ان کا محور و مرکز صرف ذاتی مفادات اور اقتدار کا حصول ہی رہا جس کے باعث ملکی سیاست کرپٹ و بدعنوان سیاستدانوں کی محافظ بن چکی ہے۔

عام آدمی جو آج بھی مہلک مسائل کے باعث پریشان اور بدحال ہے دانشمندوں کے لئے تاریخ اپنے اندر سبق سموئے ہوئے ہے اگر پاکستان میں امریکہ ’برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح طالع آزمائی نہ ہوتی تو آج یہ ملک بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں کے ہم آہنگ ہو کر ترقی یافتہ ممالک کے ہم رکاب ہوتاہم جہوریت پر تجربات کرنے کے باوجود عوام کو حقیقی قیادت فراہم نہیں کر سکے ہم آج بھی دنیاکے مہذب و ترقی یافتہ معاشروں کے مقابلہ میں نصف صدی پیچھے ہیں ان حالات میں سوال یہ ہے کہ کمزور جمہوری نظام اور سیاستدانوں کی مفادات سے جڑی سیاست کب تک عوام کی خواہشات‘ امیدوں اور جذبات سے کھیلتی رہے گی ملک کی احتجاجی اور روایتی سیاست تب تک ملک و ملت کے مفادات کو ڈستی رہیگی جب تک عوام خود اس فرسودہ نظام اور اس سے جڑے طوطا چشم سیاستدانوں کو اپنے دوام سے عبرت کا رزق نہیں بنائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).