سوداگر حکومت، شکر ہے جلاد حکومت نہ بن سکی


میر معین الملک المعروف میر منو اٹھارویں صدی میں مغل سلطنت میں لاہور کا گورنر تھا۔ احمد شاہ ابدالی کی سپاہ جب میر منو کی فوج کو شکست دے کر لاہور پر قابض ہوئی تو میر منو کو قیدی بنا کو احمد شاہ ابدالی کے سامنے پیش کیا گیا۔ احمد شاہ نے میر منو سے استفسار کیا ”فرض کرو میں تمھارے ہتھے چڑھ جاتا تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے“؟ میر منو نے جواب دیا، ”میں حضور کا سر تن سے جدا کر کے مغل بادشاہ کو پیش کرتا“۔ احمد شاہ نے کہا، ”اب جب کہ تم میرے رحم و کرم پر ہو تو مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو“؟ میر منو نے جواب میں کہا ”اگر آپ سوداگر ہو تو آپ مجھے فروخت کر دیجیے۔ اگر آپ ایک جلاد ہیں تو میرا سر تن سے جدا کیجیے۔ اگر آپ بادشاہ ہیں تو اپنی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری جان بخش دیجئیے“۔

جہلم کے مقام پر جب اسکندر اعظم اور راجہ پورس کی فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ یونانی فوج نے بہتر حکمت عملی کی بنیاد پر ہندوستانی راجے کی فوج کو زیر کر لیا۔ راجہ پورس جب پابجولاں ہو کر اسکندر اعظم کے سامنے پیش ہوا تو یونانی بادشاہ نے ہندوستانی راجے سے استفسار کیا کہ وہ اس سے کس رویے کی توقع رکھتا ہے۔ راجہ پورس نے اعتماد بھرے لہجے میں جواب دیا کہ وہ اس سے اسی برتاؤ کی امید رکھتا ہے جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے روا رکھتا ہے۔

شکست خوردہ راجہ پورس اور میر منو نے فاتحین کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اظہار کیا جو رہتی دنیا تک حریفوں کے دو مختلف جگہوں پر رویوں کا آشکار کرتا ہے۔ میدان جنگ میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہونے والے حریف ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے سارے جنگی حربے اور ہتھیار آزماتے ہیں۔ ہر جنگ کا ایک منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک فریق غالب رہتا ہے اور دوسرا مغلوب ہوتا یے۔ جب جنگ اختتام کو پہنچتی ہے تو لازماً رویے بھی بدل جاتے ہیں۔

اب مغلوب کی زندگی غالب فریق کی رہین منت ہوتی ہے۔ یہ مقام کسی فاتح کے لیے سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ اس گھڑی میں فاتح کا مفتوح سے برتاؤ اس کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ کیا وہ جلاد ہے یا سوداگر یا پھر بادشاہ جو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حریف کی جان بخشی کر دے۔ خاک اڑاتے سبک رفتار گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر فوج کی قیادت کر کے سلطنتوں کو روندنے والے بادشاہوں کا زمانہ لد گیا۔ فکر انسانی نے کروٹ لی اور عوام کی رائے پر حکمرانوں کے انتخاب کی بنیاد پڑی۔

مضبوط اور پائیدار جمہوری کلچر کے حامل معاشروں میں حکمرانوں کے عزل و نصب کی ایسی صحت مند روایت کا رواج پڑا کہ وہاں معینہ مدت کے بعد ایک حکمران کا رخصت ہونا اور دوسرے کا عنان اقتدار سنبھالنا ایک معمول کی کارروائی بن چکا ہے جو اکثر اوقات بڑی خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے۔ پاکستان جو جمہور کی حکمرانی کے نام پر بنا اور جہاں حکمرانوں کے انتخاب اور برخاست کو ایک جمہوری طریقہ کار کے مطابق طے پانا تھا وہاں بد قسمتی سے جمہوری کلچر پروان نہ چڑھ سکا۔

سیاسی جماعتوں میں برائے نام جمہوریت اس کلچر کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی جس کے طفیل جمہوریت پر کاربند سیاسی حکومت کو امور مملکت چلانے تھے۔ ہم سے بڑے بدقسمت اور روسیاہ شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں کیونکہ جمہوریت نام کا نظام مملکت، اس سے جڑے اصول اور نظریات اور ان کی روشنی میں امور حکومت نمٹانا ایک دیرینہ خواب ہے جو ہنوز تشنہ طلب ہے۔ جمہوری سوچ و فکر کے حامل حکمرانوں کی بجائے اگر ہمارے نصیب میں قرون اولیٰ کے جاہ و جلال اور رعب و دبدبے والے بادشاہ بھی ہوتے تو پھر بھی غنیمت ٹھہرتا لیکن یہاں تو حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ بادی النظر میں ہم سوداگروں اور جلادوں کے ہاتھ میں پھنس چکے ہیں۔

قومی تاریخی میں تواتر سے ایسے حکمران ہمارے نصیب اور اس ملک کے مقدر میں پتھر ڈالنے کے لیے ہم پر نازل ہوتے رہے ہیں۔ ان میں فوجی آمروں کے ساتھ ساتھ جمہوری لبادوں میں اوڑھے وہ حکمران بھی ہیں جو بزعم خود جمہوریت کے نام لیوا ہیں لیکن ان کے طرز حکمرانی کو بادشاہت سے مترادف قرار دیا گیا اور اس پر انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔ تاہم یہ حکمران بادشاہ بھی نہ بن سکے کہ کبھی سوداگر بن بیٹھے اور کبھی جلاد کا روپ دھار لیا۔

تاریخ میں اب کیا جھانکنا کہ ہماری تاریخ میں ایسے ایسے کریہہ نقوش ثبت ہیں کہ ان کا نظارہ چکرا کر رکھ دے۔ آج بھی یہ گھن چکر پوری ڈھٹائی سے کھیلا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں خیمہ زن ہوئی۔ تبدیلی کے ترسے عوام ایک جوہری اور خوشگوار تبدیلی کی امیدوں کے چراغ روشن کر کے بیٹھ گئے تھے۔ کسی شعبے میں ترقی و بہتری کے امکانات ابھی ہنوز دلی دور است والی کیفیت کا شکار ہیں۔ سیاسی حریفوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی میدان ہی مناسب فورم ہوتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف جب عدالتوں سے سزا یافتہ ہو کر جیل میں جا پہنچے تو بیماریاں ان پر ایسے حملہ آور ہوئیں جیسے کمزور شخص پر ہر ایک بندہ پل پڑتا ہے۔ نواز شریف کی بیماری نے تشویشناک صورت اختیار کی لیکن حکمران جماعت نے اسے مذاق اور ٹھٹھے کا نشانہ بنایا۔ وزیراعظم عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ نواز شریف شدید بیمار ہیں۔ نواز شریف عدالت کے حکم سے جیل سے اسپتال پہنچے اور ان کی بیماری کی شدت کے باعث انہیں باہر بھیجنے کا مشورہ دیا گیا۔

حکومتی وزراء نے اس پر بیان بازی شروع کر دی اور پھر جب کابینہ نے انہیں باہر بھیجنے کی اجازت دی تو اسے سات ارب کے بانڈ جمع کرانے سے مشروط کر دیا۔ قانون کی نظر میں اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور یہاں آکر حکومت نے ایک سوداگر کا روپ دھار لیا کہ جو سیاسی حریف سے پیسے وصول کر کے اپنے بیانیے کو تقویت دینا چاہتی تھی کہ ہم نے اخر کار قومی دولت لوٹنے والوں سے پیسے بر آمد کر کر کے ہی انہیں باہر جانے کی اجازت دی۔

نواز لیگ نے اسے مسترد کیا اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے میاں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دے دی اور حکومت کو ان کا نام غیر مشروط طور پر نکالنے کا حکم دیا۔ حکومت اب اس فیصلے کی لاکھ من مانی تشریح کرے لیکن اس پر سوداگر حکومت کا ٹھپا لگ چکا ہے اور اس فیصلے پر شکر بھی کرے کیونکہ اگر فیصلہ ان کے حق میں آتا اور نواز شریف کی بیرون ملک روانگی ممکن نہ ہو پاتی اور ان کی جان کو خدا نخواستہ کوئی نقصان پہنچتا تو موجودہ حکومت جلاد حکومت کے نام سے تاریخ میں میں یاد رکھی جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).