انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں راستوں کی بندش حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟


گورنمنٹ لال دید ہسپتال، سرینگر، کشمیر

سرینگر کے سب سے بڑے میٹرنٹی ہسپتال کے ویٹنگ ہال میں نظیر احمد اپنی بیوی کے ساتھ زمین پر بیٹھے ہیں۔ ویٹنگ ہال لوگوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا ہے اور لوگ زمین پر میٹ ڈالے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔

ویٹنگ ہال ان لوگوں سے بھرا ہوا ہے جن کے مریض اس ہسپتال میں داخل ہیں۔ رات کے وقت لوگ اسی ویٹنگ ہال کو سونے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

نظیر احمد کی سالی شمیمہ امید سے ہیں اور انھیں ڈسٹرکٹ ہسپتال بانڈی پورہ سے سرینگر ریفر کیا گیا ہے۔ ڈاکڑوں کے مطابق انھیں کسی بڑی پیچیدگی کا سامنا نہیں تھا تاہم بچہ صحت مند اور سائز میں بڑا ہونے کی وجہ سے انھیں سی سیکشن کی ضرورت ہے۔

نظیر احمد کو اپنی سالی کے ساتھ حاجن، بانڈی پورہ سے آنا پڑا جو ہسپتال سے 36 کلومیٹر دور ہے۔ اس سفر کے لیے کم سے کم ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی کشمیر پالیسی ’ایک ہندو نظریاتی پوزیشن ہے‘

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: کیا مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہے؟

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: ’ہمیں انسانیت نہیں کھونی چاہیے‘

شمیمہ کو اپنے بچے کی پیدائش میں پیچیدگیوں کے سبب فوری طور پر بانڈی پورہ ہسپتال سے سرینگر کے لال دید ہسپتال ریفر کیا گیا۔ یہ ان کا چوتھا بچہ تھا۔

نظیر احمد کہتے ہیں ’ہمارے پاس گھر میں کسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹ یا کوئی گاڑی نہیں ہے۔ ہم حاجن سے ہسپتال کی فراہم کردہ ایک ایمبولینس میں بہت مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے آئے۔‘

گورنمنٹ لال دید ہسپتال، سرینگر، کشمیر

واضح رہے کہ انڈیا کی حکومت نے رواں برس پانچ اگست کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین آئین کی شق 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔

اس اقدام کے ساتھ ہی تمام مواصلات اور انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئیں۔ عام زندگی مکمل طور پر رک گئی اور عام لوگوں کو اب تک شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سکول، دکانیں اور کاروبار گذشتہ 100 دن سے بند ہیں اور اس کے بعد سے پوری برادری خاموشی سے احتجاج کر رہی ہے۔

کشمیر کے لوگ گذشتہ تین دہائیوں سے کچھ خاص قسم کی پابندیوں اور شرائط کے عادی ہیں لیکن اس بار طبی سہولیات اور پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم دستیاب ہے جس سے مریضوں کو کافی حد تک مشکلات کا سامنا ہے۔

حالات کی وجہ سے کوئی حالیہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن لال دید ہسپتال کے سنہ 2018 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً 32 متوقع ماؤں کو ہر روز کشمیر کے مختلف ہسپتالوں سے لال دید ہسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔

بچوں کی نگہداشت کا ہسپتال ہونے کے ناطے اور دوسرے ہسپتالوں سے ریفر کیے جانے والے مریضوں کے باعث اس ہستپال میں زیادہ رش ہوتا ہے۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کم سے کم ہر تین میں سے ایک کیس کو لال دید ہسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔

شمیمہ کے ساتھ ایک اے ایس ایچ اے یعنی تسلیم شدہ سماجی صحت کارکن رفیقہ بھی تھیں جو انڈیا کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے ذریعے قائم کردہ ایک کمیونٹی ہیلتھ ورکر ہیں۔

’ہم رفیقہ کے مشکور ہیں جنھوں نے ہمارا یہاں ایسی مشکل صورت حال میں ساتھ دیا جہاں ہم توقع بھی نہیں کر سکتے کہ اگلے ہی لمحے کیا ہوگا؟‘ نظیر نے مزید کہا ’ہمیں ہسپتال پہنچنے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار تھا کیونکہ رکاوٹوں کی وجہ سے بہت ساری جگہوں پر سڑکیں بند ہیں۔‘

گورنمنٹ لال دید ہسپتال، سرینگر، کشمیر

شمیمہ کے ساتھ حاجن سے سرینگر جانے والی رفیقہ بھی پچھلے چار دنوں سے ہسپتال میں ان کے ساتھ سری نگر میں پھنس گئی ہیں۔

رفیقہ کا کہنا ہے کہ ’مریض کی حالت مستحکم ہے اور بچی بھی صحت مند ہے، لیکن پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں جا نہیں سکتی۔ مجھے مریض کے فارغ ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا اور مجھے ایمبولینس میں ان کے ساتھ واپس جانا پڑے گا۔‘

یہ واحد معاملہ نہیں ہے جہاں مریض اور تیمارداروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ درجنوں مریضوں اور تیمارداروں کو روز مرّہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ 71 دن کی ناکہ بندی کے بعد 14 اکتوبر کو پوسٹ پیڈ موبائل سروسز بحال کر دی گئیں لیکن پری پیڈ اور انٹرنیٹ سروسز ابھی تک کام نہیں کر رہی ہیں۔

تاجا اپنی بہو مُبینہ کے ساتھ آئی ہیں جو اپنے پہلے بچے سے حاملہ تھیں۔ انھیں حمل کے ابتدائی دنوں سے ہی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے امراض کی تشخیص ہوئی تھی۔ ایک شام کو انھوں نے سر میں شدید درد کی شکایت کی۔

یہ بھی پڑھیے

’دفعہ 35 اے گئی تو کشمیر فلسطین بن جائے گا‘

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

انڈیا کا کشمیر کی ’نیم خودمختار‘ حیثیت ختم کرنے کا اعلان

ان کے شوہر اعجاز احمد وانی گھر تھے اور وہ انھیں مقامی ڈاکٹر کے پاس لے گئے جنھوں نے مُبینہ کو چیک کیا اور ان کا بلڈ پریشر ہائی ہونے کی تصدیق کی۔ اعجاز انھیں سیدھا ڈسٹرکٹ ہسپتال اننت ناگ لے گئے جہاں مُبینہ سے کچھ بنیادی ٹیسٹ کروانے کو کہا گیا۔

اعجاز کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹروں نے ہمیں مُبینہ کو سرینگر کے سرکاری زچگی کے ہسپتال لے جانے کے لیے کہا کیوںکہ انھیں ہائی بلڈ پریشر تھا اور اگر وہ ایسے حالات میں بچے کو جنم دیں گی تو وہ اس صورت حال پر قابو نہیں پا سکیں گے۔‘

اعجاز کو فوری طور پر ہسپتال پہنچنے کے لیے ایک نجی کار بک کرنا پڑی جو قاضی گنڈ سے 75 کلومیٹر دور ہے۔

مُبینہ کی ساس تاجا کا کہنا ہے ’جیسے ہی ڈاکٹروں نے تجویز دی، ہم نے انھیں نجی ہسپتال لے جانے کا سوچا۔ میرے بیٹے نے ایک کار بک کروائی اور جب ہم سرینگر جا رہے تھے تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ ہمیں سیدھا لال دید ہسپتال جانا چاہیے۔‘

تاجا کے خاندان کے ارکان مُبینہ کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتال آتے ہیں لیکن جب بھی وہ واپس جاتے ہیں تو انھیں ٹیکسی کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں یا نجی گاڑی کا بندوبست کرنا پڑتا ہے چونکہ قاضی گنڈ سے سری نگر کے درمیان فاصلہ کم نہیں ہے۔

مریضوں کو لگتا ہے کہ مناسب نقل و حمل کے بغیر کسی مریض کے ساتھ آنا ممکن نہیں جہاں کوئی بھی پیچیدہ صورت حال پیدا ہو سکتی ہے یا ڈاکٹر کی عدم دستیابی کے ساتھ کسی بھی لمحے ڈیلیوری ہو سکتی ہے۔

لال دید ہسپتال کا نام للیشوری (1392-1320) کے نام پر رکھا گیا تھا جنھیں مقامی طور پر عموماً لال دید کے نام سے جانا جاتا ہے۔

للیشوری برصغیر پاک و ہند میں فلسفے کے کشمیر شیوازم شاخ کے ایک کشمیری صوفی تھے۔ سرینگر سٹی کے قلب میں وزیر باغ میں واقع یہ ہسپتال وادی کا سب سے بڑا میٹرنٹی ہسپتال ہے۔ 22 اضلاع اور نواحی علاقوں کے تمام مریض حمل کے دوران یا کسی بھی قسم کی پیچیدگی کے لیے اس ہسپتال میں آتے ہیں۔

گورنمنٹ لال دید ہسپتال، سرینگر، کشمیر

جاوید احمد کی بہن یاسمینہ حمل کی آخری سہہ ماہی میں تھیں جب انھیں خون کی کمی کی تشخیص ہوئی۔ 26 اکتوبر کی رات کو انھیں دردِ زہ شروع ہوا۔

ان کے شوہر اور دیور انھیں فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال بجبہاڑہ لے گئے۔ ڈاکٹر نے انھیں چیک کیا اور اہل خانہ کو بتایا کہ یاسمینہ کو خون کی ضرورت پڑسکتی ہے یہاں تک کہ انھیں کچھ پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جاوید احمد کا کہنا ہے ’ڈاکڑوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ کسی بھی قسم کی پیچیدگی سے بچنے کے یاسمینہ کو لال دید ہسپتال لے جائیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہاں عملے کی کمی ہے اور وہ مریض کا علاج کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پہلے تو ٹرانسپورٹ نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ 20 منٹ کی دوری کو اس حالت میں عبور کرنے میں گھنٹوں لگتے ہیں اور ان کی حالت طویل فاصلے تک سفر کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp