نیپال: ’ہم اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضہ میں نہیں رہنے دیں گے‘


نیپال میں مظاہروں میں اضافے کے دوران ملک کے وزیر اعظم کے پی اولی نے اتوار کے روز کہا ہے کہ کالا پانی نیپال، انڈیا اور تبت کے مابین ایک سہہ فریقی مسئلہ ہے اور انڈیا کو فوری طور پر وہاں سے اپنی فوج ہٹا لینی چاہیے۔

کے پی اولی نے کہا کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب نیپال کے وزیر اعظم نے انڈیا کے نئے سرکاری نقشے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر عوامی طور پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔

انڈیا نے نئے نقشے میں کالا پانی کو اپنے علاقے کے طور پر پیش کیا ہے۔ کالا پانی نیپال کے مغربی سرے پر واقع ہے۔ وزیر اعظم کے پی اولی کے بیان پر ابھی تک انڈیا سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم انڈیا کا کہنا ہے کہ نیپال کی سرحد پر انڈیا کے نئے نقشے میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔

کے پی اولی نے اتوار کے روز نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے نیپال یوتھ ونگ ’نیپال یوا سنگم‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’ہم اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں رہنے دیں گے۔ انڈیا یہاں سے فوری طور پر نکلے۔‘

تاہم نیپالی وزیر اعظم نے نیپال کی جانب سے ایک ترمیم شدہ نقشہ جاری کرنے کے مشورے کو مسترد کر دیا۔ مسٹر اولی نے کہا: ’اگر انڈیا ہماری سرزمین سے فوج واپس لے لے گا تو ہم اس کے بارے میں بات کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

نیپال انڈیا سے ناراض کیوں؟

چینی سڑک نیپال تک پہنچ گئی تو انڈیا کیا کرے گا

انڈیا کے نقشے میں کالا پانی کو شامل کیے جانے پر نیپال میں ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں۔ اس معاملے پر حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں متحد ہیں۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے چھ نومبر کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کالاپانی نیپال کا حصہ ہے۔

نیپالی کانگریس کے ترجمان وشو پرکاش شرما نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پارٹی کے سربراہ شیر بہادر دیوبا نے آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ جس نیپالی سرزمین پر انڈین فوجی ہیں انھیں وہاں سے جانے کے لیے کہا جائے۔

مظاہر

نیپال میں گذشتہ کئی دنوں سے مظاہرے جاری ہیں

سماج وادی پارٹی نیپال کے رہنما اور سابق وزیر اعظم بابو رام بھٹّارئی نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم اولی انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے کالا پانی کے علاقے کے بارے میں بات کریں۔

جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقے بنانے کے بعد انڈیا نے ایک نیا نقشہ جاری کیا تھا۔ نقشے میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ حصوں کو شامل کیا گیا تھا۔

نیپالی وزیر اعظم نے اتوار کے روز کہا کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ اولی نے کہا: ’حکومت اس سرحدی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرے گی۔ غیر ملکی فوجیں ہماری سرزمین سے واپس جائیں۔ اپنی زمین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم کسی اور کی زمین نہیں چاہتے تو ہمارے ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی سرزمین سے فوجیوں کو واپس بلانا چاہیے۔‘

اولی نے کہا: ‘کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نقشے کو درست کرنا چاہیے۔ یہ تو ہم ابھی کر سکتے ہیں۔ یہیں پر کرسکتے ہیں۔ یہ نقشے کی بات نہیں ہے۔ معاملہ اپنی زمین واپس لینے کا ہے۔ ہماری حکومت زمین واپس لے گی۔ نقشہ تو پریس میں پرنٹ ہو جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ نقشہ چھاپنے کا نہیں ہے۔ نیپال اپنی سرزمین واپس لینے کا اہل ہے۔ ہم نے ساتھ مل کر یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور یہ ساتھ بہت اہم ہے۔‘

اس سے قبل مسٹر اولی پر تنقید ہو رہی تھی کہ وہ کالا پانی کے معاملے کا ذکر نہیں کر رہے ہیں۔

نیپالی وزیر اعظم نے کہا: ’ان مسائل کا حل کشیدگی سے نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ خود کو ہیرو بنانے کے لیے جبکہ کچھ لوگ خود کو زیادہ محب وطن ظاہر کرنے کے لیے اسے اٹھا رہے ہیں۔ لیکن حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ نیپالی حکومت نیپالی عوام کی ہے اور ہم کسی کو بھی اپنی زمین کا ایک انچ بھی نہیں لینے دیں گے۔‘

کے پی اولی اور نریندر مودی

نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی او انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی

نیپال کے حکام کے مطابق ’انڈیا نے سنہ 1962 میں چین کے ساتھ ہونے والی جنگ کے بعد نیپال کی شمالی پٹی سے اپنی تمام سرحدی چوکیوں کو ختم کردیا تھا لیکن کالا پانی سے نہیں۔ اور لیپولیکھ درے پر تنازع سنہ 2014 میں اس وقت شروع ہوا جب انڈیا اور چین نے نیپال کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے لیپولیکھ درے کے ذریعے دوطرفہ تجارتی راہداری بنانے پر اتفاق کیا۔ نیپال نے اس معاملے کو چین اور انڈیا دونوں کے سامنے پیش کیا لیکن اس پر باضابطہ طور پر کبھی بھی تبادلہ خیال نہیں ہوا۔

کالاپانی تنازع کیا ہے؟

کالاپانی انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے پتھوڑا گڑھ ضلع میں 35 مربع کلومیٹر اراضی پر محیط علاقہ ہے۔ یہاں ’انڈو تبت‘ سرحدی پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔ انڈین ریاست اتراکھنڈ کی سرحد نیپال سے 80.5 کلومیٹر اور چین سے 344 کلومیٹر تک ملتی ہے۔ دریائے کالی کی ابتدا بھی کالاپانی ہے۔ انڈیا نے اس دریا کو بھی نئے نقشہ میں شامل کیا ہے۔

سنہ 1816 میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے مابین سگولی معاہدہ ہوا تھا۔ اس وقت دریائے کالی کی مغربی سرحد پر مشرقی انڈیا اور نیپال کے مابین نشاندہی کی گئی تھی۔ جب 1962 میں انڈیا اور چین کے مابین جنگ ہوئی تو انڈین فوج نے کالا پانی میں ایک چوکی تعمیر کی تھی۔

نیپال کا دعویٰ ہے کہ سنہ 1961 میں ہند چین جنگ سے قبل نیپال نے یہاں مردم شماری کروائی تھی اور انڈیا نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ نیپال کا کہنا ہے کہ کالاپانی میں انڈیا کی موجودگی سگولی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp