یہ کیسا فلسفہ: ’ریپ کے بدلے ریپ!‘


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

میری طرح اگر آپ نے بھی ’پرائم اور سوپر پرائم ٹائم‘ ٹی وی ڈبیٹس دیکھنا یا سننا (حالانکہ وہاں سننے کے لیے زیادہ کچھ ہوتا نھیں ہے) بند کر دیا ہوتا تو آپ بھی شاید انڈین فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر کے اس غیر معمولی فلسفے سے محروم رہ جاتے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے ’قتل کے بدلے قتل‘ اور ان کی عورتوں کے ’ریپ کے بدلے ریپ‘ سے ہی انصاف کا تقاضہ پورا ہوسکتا ہے۔

گزشتہ تین ماہ سے کشمیر اور کشمیری افراد کچھ لوگوں کے دل و دماغ پر پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے خصوصی اختیارات ختم کیے گئے تو حکمراں بی جے پی سے وابستہ ایک رہنما نے کہا کہ اب ’گوری کشمیری‘ لڑکیوں سے شادی کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، جیسے پہلے کبھی کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے پر کوئی پابندی رہی ہو۔ بس مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ لڑکے جن لڑکیوں سے شادی کرنا چاہتے ہیں وہ لڑکیاں بھی لڑکوں میں کچھ خوبیاں تلاش کرتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو میری شادی کب کی مادھوری دکشت سے ہوچکی ہوتی۔

کتوبر میں انسانی حقوق پر ایک مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے نیم فوجی دستے ’سی آر پی ایف‘ کی ایک جونیئر افسر نے کہا کہ انھیں ایسے ضوابط منظور نہیں ہیں جو فوجیوں کے ہاتھ باندھتے ہوں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’وہ کوکھ نھیں پلنے دیں گے، جس کوکھ سے افضل (افضل گورو کو ہندوستانی پارلیمان پر حملے کے سلسلے میں پھانسی دی گئی تھی) نکلے گا‘ اور ان کی تقریر کے سب سے اشتعال انگیز حصے چلانے سے قبل ایک ٹی وی اینکر نے کہا کہ ’خوشبو چوہان کا پورا دیش دیوانہ ہو گیا ہے۔۔۔لاکھوں لوگ اس ویڈیو کو سوشل سائٹس پر دیکھ اور شیئر کر چکے ہیں، آپ بھی سنیے خوشبو کی باتیں اور ہو جائیے ان کے دیوانے‘!

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

بہن، پلیز، ہم سے نہ ہوگا

نہ ریپ کے بدلے ریپ نہ قتل کے بدلے قتل، نہ ہمیں کسی کشمیری لڑکی سے صرف اس لیے شادی کرنی ہے کہ وہ گوری ہے اور نہ کسی افسر کا اس لیے دیوانہ ہونا ہے کہ وہ کسی کی کوکھ اجاڑنے کی بات کر رہی ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ جب سابق فوجی افسر نے لائیو ڈیبیٹ کے دوران ریپ کے بدلے ریپ کی وکالت کی تو اینکر کو کیا کرنا چاہیے تھا؟

کیا انھیں پینل سے یہ کہہ کر ہٹا دیا جانا چاہیے تھا کہ ان کے نظریات اشتعال انگیز ہیں اور مہذب بحث و مباحثے کے دائرے میں نھیں آتے یا انھیں ان کے نظریات کی وجہ سے ہی بلایا گیا تھا کیونکہ آجکل کے ماحول میں کچھ لوگوں کو اس طرح کی اشتعال انگیزی بہت پسند آتی ہے۔

میں بھی ایک ’چیٹ شو‘ کا ایڈیٹر ہوں اور یہ بالکل معمول کی پریکٹس ہے کہ ڈیبیٹ میں شرکت کی دعوت دینے سے قبل مجوزہ مہمانوں کے پروفائل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان کے نظریات کیا ہیں اور وہ کس انداز میں ان کا اظہار کرتے ہیں؟ زبان پر قابو رہتا ہے یا نہیں کیونکہ خاص طور پر لائیو ڈیبیٹ میں آپ کسی ایسے شخص کو مدعو کرنے کا خطرہ مول نھیں لے سکتے جو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتا ہو۔

اس لیے ٹریک ریکارڈ بہت اہم ہوتا ہے، آپ کے چینل پر مہمان جو کچھ کہہ کر جاتا ہے اس کی قانونی ذمہ داری صرف مہمان تک ہی محدود نہیں رہتی، اس کے لیے چینل بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

لیکن انڈیا میں ٹی وی چینلوں پر بہت سی ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جن کے سنگین قانونی مضمرات ہوسکتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ لیکن لوگ زیادہ فکر نہیں کرتے شاید اس وجہ سے کہ جس انصاف کا ذکر ریٹائرڈ فوجی افسر نے کیا اس کے پہیے بہت آہستہ گھومتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مہمان کچھ غلط کہنے اور ٹی وی چینل انھیں بلا روک ٹوک کہنے دینے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے!

ریٹائرڈ فوجی افسر کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا ہے اور ہوسکتا ہے کہ انھیں یہ بات سمجھ آجائے کہ وہ انصاف کا جو طریقہ تجویز کر رہے ہیں، ایک مہذب معاشرے میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اگر نہیں آتی تو انھیں سمجھانا اینکر کا کام ہے۔ وہ ادب کے ساتھ ایسے مہمانوں سے کہہ سکتے ہیں کہ تشریف لانے کے لیے بہت شکریہ، باقی بحث ہم آپ کے بغیر ہی پوری کر لیں گے، آپ گھر جاکر آرام کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چینل یہ چاہتا ہے کہ اینکر ایسا کرے؟

انڈیا میں ٹی وی ڈبیٹ کافی بدنام بھی ہیں اور مقبول بھی۔ اب کچھ چینل اپنی ڈبیٹس کو یہ کہہ کر پروموٹ کرتے ہیں کہ اگر آپ شور شرابے اور ’تو تو میں میں‘ سے عاجز آ چکے ہیں اور اصلی اشوز پر ’انفارمڈ ڈبیٹ‘ سننا چاہتے ہیں، تو ہمارے چینل کا رخ کیجیے۔

لیکن فی الحال ان کی آواز سننے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ یہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا بھی مسئلہ ہے، چینل پر آپ کو وہی سنائی دے گا یا نظر آئے گا جو چینل کو لگتا ہے کہ آپ سننا یا دیکھنا چاہتے ہیں۔

باقی آپ خود سمجھدار ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp