کیا الطاف حسین نے انڈیا سے پہلی بار مدد کی اپیل کی ہے؟


الطاف حسین

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نے ایک حالیہ تقریر میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو سیاسی پناہ دی جائے۔ الطاف حسین کا موقف ہے کہ چونکہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھارت سے تھا لہذا انھیں بھارت میں رہائش کی اجازت دی جائے۔

کیا الطاف حسین کی یہ پہلی اپیل ہے؟

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین ماضی میں متعدد بار انڈیا سے مدد کی اپیلیں کر چکے ہیں۔

گزشتہ ماہ ان کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں وہ انڈیا کا قومی نغمہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ گا رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

الطاف حسین کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ

’الطاف حسین کا پاسپورٹ، شناختی کارڈ بلاک کیا جائے‘

’ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین لندن میں گرفتار‘

2015 میں انھوں نے انڈیا کے ساتھ اقوام متحدہ اور نیٹو سے مدد اور مداخلت کی اپیل کی تھی، جس پر اس وقت کی حکومت نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسے اعلان جنگ قرار دیا تھا تاہم بعد میں الطاف حسین نے وضاحت کی تھی کہ انھوں نے ایسی بات نہیں کی تھی۔

لندن میں مقیم الطاف حسین ٹیلیفون پر طویل دورانیے کی تقاریر کیا کرتے تھے، بعد میں جب پاکستان میں نجی نیوز چینلز کا آغاز ہوا تو یہ تقاریر نشر ہونے لگیں، نیوز چینلز کبھی کبھار تو بغیر کسی وقفے کے یہ تقاریر لائیو نشر کرتے تھے لیکن 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے ان کی تقاریر و تصاویر کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مدعی کا موقف تھا کہ وہ پاکستان کی فوج اور قومی سلامتی کے خلاف بات کرتے ہیں۔

الطاف حسین کا مارچ 2017 میں ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں انھوں نے انڈین وزیراعظم نردیندر مودی سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں موجود مہاجروں کی مدد کریں۔ بقول ان کے پاکستان میں مقیم مہاجر دراصل انڈین ہیں اس لیے وزیراعظم مودی کو ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

الطاف حسین

الطاف حسین جب تقریر کرتے تھے تو ہر ٹی وی چینل ان کا خطاب پورا پورا دکھاتا

اس سے قبل 22 اگست 2016 کو ایک ایسی ہی متنازعہ تقریر نے ان کی سیاست اور سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ اس کے بعد ان کا ایک معافی نامہ بھی شائع ہوا جس میں انھوں نے معذرت کی کہ ’اپنے ساتھیوں کے ماورائے عدالت قتل، ساتھیوں کی مسلسل گرفتاریوں اور ان کی مشکلات دیکھ دیکھ کر وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے اور ان کی وہ تقریر اس کا نتیجہ تھا‘۔

ان کے مطابق انھوں نے ’پاکستان کے خلاف جو الفاظ استعمال کیے وہ انتہائی ذہنی دباؤ کے نتیجے میں کیے۔‘

الطاف حسین کی فرسٹریشن

مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ستمبر 2013 میں کراچی میں بھتہ خوری، سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا گیا اور بعد میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس آپریشن کو نیشنل ایکشن پلان میں شامل کیا گیا۔ اس وقت کی ایم کیو ایم کو یہ شکایت تھی کہ آپریشن کا نشانہ ان کی جماعت ہے۔

اسی آپریشن میں مارچ 2015 میں ایم کیو ایم کے سیاسی مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جس کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت بکھر گئی۔ حیدر عباس رضوی، واسع جلیل سمیت بعض رہنما پاکستان سے باہر چلے گئے، کچھ نے مصطفیٰ کمال کا ساتھ دیا جنھوں نے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس دوران ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوا اور ایم کیو ایم کی قیادت الطاف حسین سے ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر فاروق ستار سے خالد مقبول صدیقی کے پاس منتقل ہو گئی۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے استاد اور لسانی سیاست پر کتاب کے مصنف فرحان صدیقی الطاف حسین کے بیان کو فرسٹریشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’اگست 2016 اور اس سے پہلے کراچی آپریشن شروع ہوا جس سے ایم کیو ایم کی طاقت اور کراچی پر کنٹرول میں کمی آئی۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں بٹ جانا، الطاف حسین کی سیاسی تنہائی، عام انتخابات میں ایم کیو ایم کراچی کی صرف 4 نشتوں پر کامیابی، ریاست کا یہ موقف کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے انڈیا اور اس کے ادارے را کے ساتھ روابط ہیں، وہ سب عوامل ہیں جنھوں نے اس فرسٹریشن کو تقویت دی۔‘

فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’اس بیان سے الطاف حسین نے نہ صرف اپنی سیاست کو مزید ایک دھچکہ دیا ہے بلکہ اپنے حمایتیوں اور انڈیا کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے کیونکہ عموعی طور پر جب اس طرح کے روابط ہوتے ہیں یا ریاستیں مداخلت کرتی ہیں تو یہ ڈھکے چھپے انداز میں کیا جاتا ہے‘۔

الطاف حسین

الطاف حسین نے سیاست تو مہاجروں کے حقوق کے لیے شروع کی لیکن آہستہ آہستہ اس کا رخ بدلتا گیا اور بالآخر یہ طاقت کی لڑائی بن گئی

الطاف حسین کی علیحدگی پسند سوچ

کراچی یونیورسٹی میں 11 جون 1978 میں الطاف حسین سمیت اردو آبادی کے نوجوانوں نے آل پاکستان مہاجر ایسوسی ایشن یا اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی جس نے 18 مارچ 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس نے اردو آبادی کا جو ووٹ مذہبی، مسلکی جماعتوں اور مسلم لیگ کے نام پر تقسیم ہوتا تھا اس کو یکجا کیا۔ اس کے بعد 29 برسوں تک ایم کیو ایم کی کراچی اور حیدرآباد پر بالادستی رہی۔ اس عرصے میں تنظیم کو تین آپریشنوں کا سامنا کرنا پڑا اور دو بار دھڑا بندی کا شکار ہوئی۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے استاد فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’مہاجر کمیونٹی ہمیشہ دو قومی نظریے کے پیچھے کھڑی رہی ہے لیکن الطاف حسین کی حالیہ تقریر سے واضح ہے کہ وہ (الطاف حسین) دو قومی نظریے کو نہیں مانتے اور ان کی روایتی سیاست جو کوٹہ سسٹم اور اس نکتے سے شروع ہوئی تھی کہ مہاجر کمیونٹی پاکستان میں بدحالی کا شکار ہے، ان کے آباؤ اجداد نے پاکستان بنایا اور انھیں وہ حقوق نہیں مل رہے جو ملنے چاہیں، وہ اب بدل چکی ہے۔ الطاف حسین کی اُس سیاست اور موجودہ سیاست میں کوئی ربط نہیں ہے جس سے کارکن اور لوگ پریشانی کا شکار ہیں‘۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’الطاف حسین پاکستان کی قومی سیاست سے تقریباً کنارہ کش اور علیحدگی پسند رہنما کے طور پر سامنے آرہے ہیں جس میں وہ سندھو دیش، آزاد بلوچستان کی بات کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی قومی سیاست میں ان کا کردار تقریباً ختم ہو گیا ہے‘۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ الطاف حسین لندن میں جس صورتحال سے گزر رہے ہیں ان میں نفرت انگیز تقریر کا مقدمہ جون میں شروع ہونے والا ہے، اس کے علاوہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس بھی زیر سماعت ہے اور جب تک یہ دونوں مقدمات کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتے وہ نہیں سمجھتے کہ کوئی بھی چیز آگے بڑھ سکے گی۔

کیا الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں نے انڈین حکومت کو سیاسی پناہ کی باقاعدہ درخواست دی ہے اس بارے میں جب ایم کیو ایم لندن کے رہنما ندیم احسن اور مصطفیٰ عزیز آبادی سے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp