“سندھی بہن کا سندھو: “سائیں، اب اس زندگی کا کیا کروں؟


میرا وہ سندھی دوست سالہا سال سے اسلام آباد میں مقیم تھا۔ تھا تو صحافی لیکن ایک اخبار کے نیوز ڈیسک پہ کام کرنے سے زیادہ واقعات سنانے اور قصے، کہانیاں سننے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ ہمدرد آدمی تھا، چناچہ ادیب اور شاعر بھی تھا۔ سندھ کے تمام علاقائی اور قوم پرست ادیب، شاعر، سیاستدان اس کے دوست تھے۔ لیکن مجال ہے کہ اس نے ہمیں کبھی اپنا کوئی شعر سنایا ہو۔ جب بھی اس سے اس کا کوئی شعر سننے کی فرمائش کرتے تو وہ ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ معنی خیز جواب دیتا ”سائیں، آپ ماحول تو بناؤ، پھر دیکھو میری شاعری“۔ لیکن ہم نیوز ڈیسک کے تمام ساتھی اپنی محدود تنخواہوں میں سندھی شاعری سننے کے لئے ”ماحول بنانے“ کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ چناچہ نہ کبھی ایسا ماحول بنا اور نہ کبھی سندھ کی مٹی میں گندھی ہوئی شاعری سے فیض پانے کا اعزاز حاصل ہوا۔

ہمیں یاد نہیں کہ ہم نے کبھی صدیق سندھو کو اپنے گاؤں جاتے دیکھا ہو۔ عید وغیرہ کی چھٹیوں پہ سب پردیسی اپنے اپنے علاقوں کی طرف لوٹ جاتے۔ عید سے پہلے اور فوری بعد کام کرنے کی ذمہ داری جڑواں شہر میں رہنے والوں کے ذمے رہتی تھی۔ صدیق سندھو نے کئی عیدیں ہمارے ساتھ گزاریں۔ اندرون سندھ کے کسی گاؤں کے رہنے والے سندھو نے کبھی اپنے گاؤں کا نام نہیں بتایا۔ پوچھنے پر جواب دیتا، سائیں، تمہین نہیں پتہ، ہمارے بہت سے رواج ہماری مجبوری ہوتے ہیں، گاؤں کا نام جان کر کیا کرو گے؟ البتہ یہ سب کو معلوم تھا کہ صدیق سندھو کی ایک بہن حیدر آباد رہتی ہے۔ سندھو کبھی کہیں گیا بھی تو اسی بہن کے پاس۔ اس کے علاوہ اس کے کسی عزیز رشتہ دار کے بارے میں کسی کوکوئی علم نہیں تھا۔ صدیق سائیں نے حیدر آباد میں ہی تعلیم حاصل کی تھی۔

پچاس، پچپن سال کی عمر ہو گی۔ مونچھ، شیو اور سر کے بالوں میں اکثریت سفید بالوں کی۔ بڑی بڑی ہونٹوں پہ گرتی بلکہ لٹکتی ہوئی مونچھیں۔ سندھی ٹوپی اور اجرک اس کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتی تھیں کہ ہر وقت اور ہر لباس کے ساتھ سندھی ٹوپی اور اجرک پہنتا تھا۔ کبھی پینٹ کوٹ بھی پہنتا تو سر پہ ٹوپی اور کوٹ کے نیچے اجرک لپیٹ لیتا۔ جس دن ترنگ میں ہوتا تو اس دن آنکھوں میں سرما لگا لیتا۔ سنیئر ہونے کے باوجود دفتر کے کئی ساتھی صدیق سندھو کو مذاق میں چھیڑتے رہتے تھے۔ نرم دل، انسان دوست، ہمدرد اور حساس انسان ہونے کی وجہ سے میں سندھو صاحب سے ہمیشہ احترام سے پیش آتا۔

وہ ہمیشہ مجھ سے پہلے ہی دفتر پہنچ جاتا تھا۔ جس دن وہ معنی خیز مسکراہٹ سے استقبال کرتا تو میں سمجھ جاتا کہ آج کوئی خاص بات سننے کو ملے گی۔ کبھی کہتا کہ میرا فلاں، سندھ کا بڑا قوم پرست سیاستدان اسلام آباد آیا تھا، اس نے مجھے اسمبلی ہاسٹل بلایا۔ سائیں، بس مت پوچھو، عرصے بعد سندھی دوستوں کی محفل سجی، رات دیر تک بیٹھے رہے۔ میں نے پوچھا کہ وہاں ماحول بھی تھا یا نہیں؟ سندھو پیار بھری مسکراہٹ سے کہنے لگا، سائیں، کیوں نہیں، ولائیتی مال تھا سائیں ولائیتی۔ صدیق سندھو کے سندھ سے آنے والے دوستوں کی اس طرح کی محفلیں تھوڑے تھوڑے عرصے بعد سجتی رہتی تھیں۔

ایک مرتبہ ہمارے دفتر کا ایک ساتھی شدید پریشان رہنے لگا۔ سندھو نے سب سے پہلے اس کی تمام معلومات لے لیں۔ ایک شام دفتر سے روانہ ہونے لگا توصدیق سندھو کہنے لگا کہ پرسوں صبح تمہاری گاڑی کی ضرورت ہے۔ میں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ دفتر کے اسی پریشان ساتھی کا نام لے کر کہنے لگا اسے مانسہرہ ایک پیر صاحب کے پاس لے کر جانا ہے۔ میں نے کہا سندھو صاحب آپ پڑھے لکھے انسان ہیں، اپنا اور میرا وقت بھی برباد کریں گے اور دفتر کی ساتھی کی پریشانی میں اور بھی اضافہ کرو گے۔ صدیق سندھو کا چہرہ کرخت ہو گیا، آہستہ سے کہنے لگا اگر سب ہی سمجھنے والی باتوں پر چلنے لگے تو نہ سمجھنے والی باتوں پر کون عمل کرے گا؟

دفتر کا وہ ساتھی مالی اور خاندانی مسائل کے دباؤ کا شکار تھا۔ سندھو نے تجویز کیا کہ مانسہرہ میں ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں، وہی اس کے مسائل کا تریاق کریں گے۔ مانسہرہ پہنچ کرایک کچے راستے پر چند کلومیٹر سفر کے بعد ایک بڑے گاؤں پہنچے جہاں کافی آبادی تھی۔ صدیق سندھو ہماری رہنمائی کررہا تھا۔ اس نے ہمیں ایک بڑے احاطے سے ملحقہ کمرے میں بٹھا دیا۔ ابھی پیر صاحب نہیں آئے تھے۔ میں نے سندھو سے کہا کہ میں ذرا گاڑی کے پاس سے ہو کر آتا ہوں جو اس جگہ سے تھوڑی دور پارک کی تھی۔ واپس آیا توپیر صاحب تشریف لا چکے تھے۔ دفترکا پریشان ساتھی مسکراتے ہوئے باتیں کر رہا تھا، شاید پیر صاحب نے اس کا روحانی علاج کر دیا تھا۔

ایک شام میں اپنے کمرے میں کام کر رہا تھا کہ اچانک سندھو نیوز ڈیسک سے اٹھ کر کمرے کے اندر آ گیا اور میرے سامنے کی کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ میں نے سگریٹ پیش کیا تو خاموشی سے لے کر سلگایا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا سندھو صاحب خیریت تو ہے؟ سندھو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا، وہ بیچاری مر گئی۔ میں نے پوچھا کہ کون مر گئی؟ کہنے لگا یار وہی میری حیدر آباد والی بہن۔ ایک ہفتے بعد سندھو حیدر آباد سے واپس آیا تومیں دفتر میں نائٹ ڈیوٹی کر رہا تھا۔

شدید سردی کا موسم تھا۔ دفتر کا دروازہ کھلا تو دیکھا صدیق سندھو اندر آ رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ابھی حیدر آباد سے واپس آ رہے ہیں؟ کہنے لگا کہ نہیں کل رات کو واپس آ گیا تھا۔ میں نے کہا کہ اس وقت سردی میں کہاں سے آ رہے ہیں۔ کہنے لگا سندھ سے چند دوست آئے تھے، ان سے ملنے گیا تھا۔ میں نے اس کا موڈ خوشگوار کرنے کے لئے کہا، سائیں، پھر تو ماحول بھی زبردست ہو گا۔ سندھو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سنجیدگی سے خاموش بیٹھا رہا۔

میں کام میں مصروف ہو گیا۔ اچانک سندھو کہنے لگا سائیں، تم نے کبھی آدمی کو دیکھا ہے؟ میں نے پوچھا، کیا؟ تم نے کبھی آدمی کو دیکھا ہے؟ میں جواب دینے کے لئے الفاظ سوچ ہی رہا تھا کہ سندھو کہنے لگا، سائیں، تم نے کبھی کتے کو دیکھا ہے؟ ساتھ ہی اس نے اشارے سے سگریٹ طلب کیا۔ میں نے کہا سائیں، یہ کیا بات ہوئی، آدمی، آدمی ہوتا ہے اور کتا، کتا۔ سندھو کہنے لگا نہیں آدمی کتا ہوتا ہے اور کتا آدمی ہوتا ہے۔ آدمی کتا بن جاتا ہے اور کتا آدمی بن جاتا ہے۔ کوئی کتا آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے اور کوئی آدمی کتے کی طرح۔

میں نے پوچھا سائیں دفتر میں چپڑاسی نہیں ہے، تمہارے لئے چائے بناؤں؟ سندھو کہنے لگا ”سائیں، تم کبھی سندھ گیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ کراچی گیا ہوں، باقی کہیں نہیں گیا۔ کہنے لگا تمہیں سندھ کے ماحول کا کچھ پتہ ہے؟ میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا کہ تم نے کبھی سندھ کی باتیں بتائی ہیں جو مجھے معلوم ہو گا۔ دفتر میں ایک ہی بلب جل رہا تھا جس سے نیوز ڈیسک کے ارد گرد نیم اندھیرا تھا۔ اچانک سسکیوں کی آواز سے میں چونک اٹھا، دیکھا تو سندھو دھیرے دھیرے رو رہا تھا۔

میں نے بے اختیار پوچھا کیا ہوا یار؟ کیا بہن یاد آ رہی ہے؟ عجیب آدمی تھا، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ہونٹوں پہ مخصوص مسکراہٹ لاتے ہوئے کہنے لگا، نہیں سائیں، اچھا ہوا بیچاری مر گئی۔ میں نے اسے گلاس میں پانی پینے کو دیا۔ پھر کہنے لگا، تم نے زندگی میں کیا چاہتے ہو؟ بہت سی اور بہت ساری چیزیں؟ سائیں میرے تو چھوٹے چھوٹے خواب تھے، کچھ بھی پورا نہیں ہوا، سب برباد ہو گیا۔ سندھو نے مجھ سے سگریٹ لیا اور خاموشی سے پینے لگا۔ میں نے دوبارہ پوچھا، چائے کا موڈ ہے تو بناؤں؟ وہ خاموش رہا۔ سگریٹ ختم کر کے کرسی سے اٹھا اور بغیر کوئی بات کیے باہر جانے والے دروازے کی طر ف چل پڑا۔ میں نے آواز دی، سائیں کدھر چل پڑے، بیٹھیں تو سہی۔ وہ واپس پلٹا اور حسرت زدہ آواز میں بولا، ”سائیں، ایک بات تو بتاؤ، اب اس زندگی کا کیا کروں؟ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).