وزیر اعظم پاکستان کے نام کھلا خط


محترم و مکرم جناب وزیر اعظم صاحب! ۔

معافی چاہتا ہوں کہ معمول کے برخلاف۔ پاکستان کے مقدس آئین کے تحت بنائے گئے ایک بزعم خود محبِ اسلام کے نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی سے بچنے کے لئے۔ آپکی خدمت میں کچھ عرض کرنے سے پیشتر۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ عرض کرنے سے معذور ہوں۔

راقم ایک تارک وطن پاکستانی ہے جو پیشہ وکالت چھوڑ کر پنشنر ہونے تک بیرون ملک محنت و مزدوری کرتا رہا ہے۔ اس کے دل میں پاکستان کی محبت اور فلاح کی آرزو اس بڑھاپے میں بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح 1965 میں اپنے آپ کو ملکی دفاع کے لئے رضاکارانہ پیش کرتے وقت تھی۔ اب بھی دیگر ممالک میں ترقی کو دیکھ کر اور پاکستان۔ جو ترقی کے لئے تمام ضروری وسائل سے مالا مال ہے۔ کے متعلق یہ جان کر ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ اس میں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جو عوامل ترقی کی راہ میں روک ہیں ان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے پاکستانی سیاستدان ہمیشہ کی طرح اب بھی گریزاں ہیں۔ ایک بہت بڑے طبقہ کو (احمدی اس میں شامل نہیں ) آپ پر یہ اُمید تھی اور شاید اب بھی ہو کہ آپ کے ذریعہ پاکستان میں مثبت تبدیلی آ جائے گی۔

آمدم برسرِ مطلب۔ آپ کی پارٹی کے وفاقی وزیر نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک مولوی کہلانے والے کی انگیخت پر (جس کے مطابق وکی لیکس نامی شخص آپ کی سابق اہلیہ جمائمہ کا بھائی ہے اور آپ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور دنیاوی علم سے وہ اس قدر بے بہرہ ہے کہ اسے علم نہیں کہ احمدیوں کے لئے کرتارپور کے راستے قادیان جانا بالکل بے معنی ہے اور کروڑوں سکھوں کی دلی خوشی کو نظر انداز کرکے اسے احمدیوں کی خاطر آپ کی سہولت کاری پر محمول کرتا ہے ) یہ کہا ہے کہ

”میں لعنت بھیجتا ہوں ان پہ، اور عمران خان بھی لعنت بھیجتا ہے قادیانیت پہ“۔

اس کے وائرل ہونے کے بعد ترجمان جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پریس ریلیز میں جائز مطالبہ کیا گیا تھا کہ ”کیا یہ حکومت کا موقف ہے جو وفاقی وزیر نے بیان کیا؟ اعظم سواتی کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے اپنی اور اپنی حکومت کی پوزیشن واضح کریں۔ “

اب انتظار یہ تھا کہ معمول کے مطابق آپ ٹویٹر کے ذریعہ اس پر اپنے ردِ عمل کا اظہار فرمائیں گے لیکن ایک ہفتہ کے بعد یہ کھلا خط ذاتی حیثیّت میں راقم کو اس خیال سے آپ کے نام لکھنا پڑا ہے مبادا آپ اپنے وزیر کے بیان سے ہی لاعلم ہوں یا عمداً آپ کو اس صورتحال سے بے خبر رکھا گیا ہو۔

آپ کی ٹیم کے رکن کا اگرچہ یہ ایک مختصر بیان ہے اور اس سے لمبے اور غلیظ اور جھوٹ پر مبنی الزامات سے پُر بیانات مختلف مکالفین کی جانب سے آئے دن نشر کیے جاتے ہیں۔ بیشتر صورتوں میں جماعت احمدیہ کی طرف سے بغیر کوئی نوٹس لئے یا بغیر کسی ردِ عمل کے خاموشی سے صبر کا ہی مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم کے سامنے نہرو اور گاندھی جی کی تو دال گلتی نہیں تھی اس کے لئے چانکیا نے اپنے نکتہ نظر کے مطابق اس کا توڑ مسلمانوں میں تلاش کرلیا جو دین کے نام پر قائد اعظم کی دشمنی پر مقرر کردیے گئے۔ انہوں نے قائد اعظم کو بھی احمدیوں کے معاملہ میں گھیرنے کی کوشش کی تو قائد نے اس قسم کے خیالات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ان تخریبی قوتوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو پنجاب حکومت نے مرکزی حکومت کو زچ کرنے کے لئے اس انگیخت کو راہ دی۔

پھر تقسیم پاکستان کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں جب بھٹو صاحب کی پارلیمنٹ (جو ضیا الحق کے وائیٹ پیپر کی رو سے زیادہ تر چوروں ڈاکوؤں لٹیروں شرابیوں اور زانیوں پر مشتمل تھی) نے نوّے سالہ مسٔلہ حل کرنے کے لئے 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر دنیا کی آئینی تاریخ میں ایک انوکھا باب رقم کیا۔ اس سے تخریبی قوتوں کو اپنے جوہر دکھانے کی راہ دکھائی دی تو جناب جنرل ضیا الحق صاحب کی روشن قیادت کے دور میں انہوں نے جو کارنامے دکھائے وہ الگ سے تاریخِ پاکستان کا ایک سیاہ ترین باب شمار کیا جاتا ہے۔

جماعت احمدیہ کو غیر مسلم کہے ہوئے 45 سال بیت چکے ہیں۔ اور جناب ضیا الحق کے آرڈیننس کو 35 سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصہ میں جس قدر جماعت پر ظلم ”نافذ“ کیا گیا ہے اس کی مثالیں تاریخ میں اگرچہ پائی جاتی ہیں لیکن اس کے بالمقابل جس قدر صبر اور قانون کی تابعداری کا مظاہرہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا گیا ہے اس کی مثال تیرہ سالہ مکی دور کے علاوہ انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

آپ کے وزیر کے برعکس پاکستان میں ایک نوجوان جبران کو جب اسی طرح زچ کیا گیا تو اس نے صاف جواب دیا کہ آپ ووٹ دیں یا نہ دیں وہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرے گا اور جماعت کے خلاف احمقانہ مطالبہ کو رد کرتے ہوئے کوئی نازیبا لفظ منہ سے نہ نکالا۔ آپ کے وزیر کا اس مولوی کہلانے والے شخص سے بلیک میل ہونا بڑی ہی شرم کی بات ہے۔ پھراس کا آپ کو بھی اس غلاظت سے لتھیڑنا اس سے بھی بُری غیر اسلامی۔ غیر اخلاقی حرکت ہے۔ جو نفرت انگیز مواد اس کے منہ میں تھا، اسے آپ سے منسوب کر کے اس نے آپ کے لئے خیر کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔

یاد رہے کہ عظیم کہلائے جانے والے سیاستدان بھٹو صاحب نے بزدلی دکھاتے ہوئے ان تخریبی قوتوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا تھا اور دوسروں کے عقیدہ کو قانون کے ذریعہ تعیّن کرکے موت سے پہلے خود ہی اس تعیّن کیے جانے کا عدالت میں خود ہی شکار ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے انہی مولویوں کے فتاویٰ کفرکے مُورد ٹھہرے۔ آپ کے وزراء لاکھ ان تخریب کاروں کے خوف سے ایسی نازیبا حرکتیں کرتے رہیں آپ پر احمدیوں کی سہولت کاری کا جھوٹا الزام اسی طرح قائم رہے گا۔ جس طرح اصغر خاں پر (باوجود اس کی طرف سے جماعت کے خلاف لعن طعن کے) پیپلز پارٹی والے اس کی موت تک اس پرقادیانی ہونے کا الزام لگاتے رہے۔

اب آپ کی باری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولویوں کی باؤلنگ پر کتنے رنز بناتے ہیں اور کیسے آؤٹ ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).