کیا عمران خان تاریخ بدل دیں گے؟


اسلام آباد کی شاہراہ کشمیر پر صف بندی ہو چکی تھی، طبل رزم پر چوٹ لگاتے لگاتے ہاتھ ججھک جاتا تھا۔ زبان و بیان کے زیر و بم سے مجمع کو مسحور کرنے والا ساحر اپنی دلیل کی تان ہر بار کہیں اور موڑ کر حد فاصل کو برقرار رکھتا رہا۔ مگر جن کو بات سنائی جانی مقصود تھی وہ سمجھ گئے کہ کون سی بات نہیں کہی گئی ہے کیونکہ یہاں کہنے والی بات سے زیادہ وہ بات سمجھ لینا ضروری ہے جو کہی نہیں گئی۔ ایک دم سے لشکر کو خیمے اکھاڑ کر واپسی کا حکم ہوا تولشکری جیسے آئے تھے ویسے ہی بلا چون و چر گردن جھکائے واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ بظاہر آزادی مارچ کے نام پر اسلام آباد آئے لوگ جیسے آئے تھے ویسے ہی جاچکے مگر سماجیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ کوئی عمل رد عمل سے خالی نہیں ہوتا ہے اور نہ کوئی سیاسی تحریک بے نتیجہ ہوتی ہے۔

دھرنے کے نتائج پر رائے عامہ منقسم ہے کچھ لوگ اس دھرنے کو بے سود و زیاں کا سودا قرار دیتے ہیں اور کچھ نتائج اخذ کرنے والے خوش گمان یہ کہتے نظر آئے کہ کم از کم پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتیں اس دھرنے کے نتیجے میں متحد ہوئیں۔ میرے نزدیک سیاسی قربت اور دوری مفادات کا کھیل ہے۔ کبھی میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوگا اور کبھی ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ کر چوراہوں میں گھسیٹنے کی دھمکیاں ہوں گی یہی سیاست ہے۔

جب تحریک انصاف کی انتخابات میں کامیابی کا نقارہ بجایا گیا تو خان صاحب کی شیروانی پہلے سے تیار تھی۔ خیبر پختون خواہ کو پہلے سے جیب میں رکھ کر آئے کپتان کی شرط پنجاب کے سنگھاسن کی تھی جو عددی برتری نہ ہونے کے باوجود مانی گئی۔ جنوبی پنجاب کے دھڑے کے ساتھ مسلم لیگ قائد اعظم کے نام پر ہر دور میں چلنے والی بحق سرکار مسلم لیگ کا تحریک انصاف کے ساتھ ایسا ادغام ہوا کہ نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ گزشتہ تیس سالوں سے ہر حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے والی ایم کیو ایم اپنے قائد اور بانی کی ایک تقریر کے بعد ڈھیر ہوئی تو اس کا بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے نام پر ایسا ادغام ہوا کہ ایسا لگتا تھا کہ شاید اب آئندہ انتخابات ایم کیو ایم تحریک انصاف کے جھنڈے تلے لڑنے والی ہے۔

مشرف اور الطاف حسین دونوں کا مقدمہ لڑنے والے فروغ نسیم اور اپنے دور کے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنس آرگنائزیشن کے صدر مقبول صدیقی کی شائستگی کے قصیدے عمران خان کی زبان سے سن کر ایسا لگتا تھا کہ اب یا تو تحریک انصاف کا مرکزی دفتر نائن زیرو منتقل ہونے والا ہے یا پھر ایم کیو ایم کا مرکز بنی گالہ میں ہوگا۔

بلوچستان کے سرداروں اور ایلکٹیبلز کو جمع کرکے بنائی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا کوئی اتہ پتہ بھی نہیں تھا اس لئے اس کو تحریک انصاف بلوچستان چیپٹر کا ہی درجہ حاصل رہا۔ صادق سنجرانی اور جام کمال کو عمران خان کے بندے ہی سمجھا جاتا رہا اور اس بات کا اظہار بارہا ہوا بھی۔

فضل الرحمان کے دھرنے نے جو سب سے بڑا موقع دیا وہ گجرات کے چوہدریوں کو اپنی حیثیت منوانے کا تھا۔ خود کو مسلم لیگ کے وارث قرار دینے والے چوہدری جن کا کبھی طاقت کے ایوانوں میں طوطی بولتا تھا بھلادئے گئے تھے۔ جب مولانا فضل الرحمان نے سرکاری مذاکر اتی عمل کو آنیاں جانیاں قراردیا توچوہدریوں کے ساتھ نجی میل ملاقاتیں زیادہ با معنی اور نتائج خیز ثابت ہوئیں۔

جہاں گجرات کے چوہدریوں نے اپنی حیثیت کو منوایا وہاں ایم کیو ایم نے بھی خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کی کوشش کی اور بلوچستان کے صادق سنجرانی نے بھی اپنے موقف کا اعادہ کیا۔ انتخابات کے بعد انتہائی مہارت سے تعمیر کی گئی دیوار میں دراڑیں نظر آنے لگیں۔ حکومت کے جملہ حقوق بحق پاکستان تحریک انصاف کے بجائے اب ایک اتحادی سرکار نظر آنے لگی جس میں ہر جماعت کا اپنا موقف اور منشور بھی نظرآیا جو پہلے ناپید تھا۔

پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑا فیکٹر اسٹبلشمنٹ یا مقتدرہ کہلانے والی قوت کا ہی رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے عدالت سے سیدھے گھر جانے کی وجہ وہ جرائم نہیں تھے جن کی عدالت میں شنوائی ہوئی تھی۔ اس ملک کی سیاست میں آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا جس کی وجہ سے حلف لیتے ہوئے ہر وزیر اعظم کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے اور وہ اپنے دفتر میں ہمیشہ بے یقینی کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ تاریخ نے آج تک کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو مدت پوری کرنے کی مہلت نہیں دی ہے۔

مگر عمران خان واحد خوش قسمت سمجھا جانے والا وزیر اعظم ہے جس کے حلف لینے سے پہلے ہی مقتدرہ کے ساتھ تعلقات خوش گوار تھے۔ انتخابات کے نتائج میں تحریک انصاف کی برتری کی خبروں کے ساتھ ہی جب وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاء کی ٹویٹ آئی تو اس میں مبارکباد سے زیادہ خاموش رہنے کا پیغام واضح تھا۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحہ پر ہونے کی بار بار منادی کرائی جاتی رہی۔ عمران خان کی خوش قسمتی یہ بھی رہی کہ اس کے اپنے ڈیڑھ دو درجن سرکاری اور شوقیہ ترجمانوں کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی آفسروں کی بھی ایک ٹیم ان کے دفاع کے لئے مہیا کی گئی۔ یہاں راوی نے چین ہی چین لکھا۔

فضل الرحمان نے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تو اس ملک کے تمام جمہوریت پسند حلقوں نے اس کی تائید نہیں کی۔ مگر آئین کو سمجھنے والا مولانا اس پر مصر رہا اور اپنے مطالبے کو استعفیٰ یا اس کے برابر کی چیز سے مشروط کردیا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکومت وزیراعظم خود ہی تحلیل کرکے ختم کر سکتا ہے یا عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اکثریت ثابت کرکے اس کی حکومت ختم کی جاسکتی ہے۔ مگر صادق سنجرانی کے خلاف عدام اعتماد کی تحریک کی ناکامی نے ثابت کر دیاتھا کہ حکومت کی طاقت کے پیچھے اصل طاقت کون سی ہے۔ دھرنے کے دوران ہونے والے مذاکر ات میں استعفیٰ تو نہیں آیا جو آنا بھی نہیں چاہیے تھا مگر جس کو مولانا استعفی جیسی چیز اور پرویز الہی امانت کہتا ہے اس کے بارے قیاس آرائی کی جاسکتی ہے۔

بظاہر خاموشی سے اٹھا دھرنا جاتے جاتے حکومت کے پشت بانوں کی طاقت ہی نہیں حلیفوں کی حمایت بھی ساتھ لے گیا ہے۔ وزیر اعظم کی ہزاراہ میں موٹر وے کے افتتاح کے موقع پر تقریر میں ہیجان اور اضطراب حکومت کی اندرونی کشمکش کی صرف ایک جھلک ہے۔ عمران خان کو تاریخ میں ہر کام پہلی بار کرنے یا اس کا دعویٰ کرنے کا بہت شوق ہے۔ ہماری تمنا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہو جو اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ مگر زبان و بیان سے لگتا ہے کہ اس معاملے میں تاریخ بدلنے کا ان کا ارادہ نہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan