گستاخی و غداری کا سرکس کاشف عباسی تک آ پہنچا؟


پاکستان میں سچے اور کھرے لوگوں کے خلاف الزام تراشیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ روز اول سے چلی آرہی ہیں۔ اور شعبہ صحافت تو دن بدن مزید سے مزید تر خطرناک ہوتا جارہا ہے، ڈرانا، دھمکانا، جھوٹے الزامات لگانا، پھر اگر کوئی صحافی حق اور سچ پر ڈٹ جائے تو اسے بندوق کی گولیوں سے چھلنی کردینا بہت آسان ہے۔ مگر چونکہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے تو جن کی عمر لمبی ہوتی ہے وہ حامد میر کی طرح قاتلانہ حملہ میں بھی بچ جاتے ہیں اور جن کا وقت پورا ہوتا ہے وہ ولی بابر، حیات اللہ اور بخشیش الہی عباسی وغیرہ کی شکل میں شہدائے صحافت کہلاتے ہیں، کس نے مارا، کیوں مارا کوئی خبر نہیں بس وہی بات کہ:

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ

ہو جس سے اختلاف، اسے مار دیجئے۔

نئے پاکستان میں صحافت کتنی حد تک آزاد ہے یہ آپ کو اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز کی ہیڈلائنز دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا! 2013 سے 2019 تک تقریبا 33 سے زائد صحافیوں کو قتل کردیا گیا جن میں سے اکثریت کے قاتل نامعلوم اور آزاد ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان میں آزاد صحافت کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اور دوسری طرف ہمارا معاشرہ ہے جو تنگ نظری، اور انتہا پسندی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

گزشتہ دنوں کی ہی بات ہے معروف صحافی کاشف عباسی نے اپنے پروگرام میں صحافی عمرچیمہ اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اسد عمر کو مدعو کررکھا تھا۔ اور مزاحیہ انداز میں دونوں شخصیات کو مخاطب کرکے کہا: جن کے ناموں میں عمر آتا ہے وہ سازشی لوگ ہوتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا نہ آو دیکھا نہ تاؤ ٹرولز نے اس بات کو پکڑا اور چودہ سو سال پیچھے لے جاکر جوڑ دیا اس گستاخی سے کہ یہ بات کہہ کر نعوذ باللہ حضرت عمر رض کی شان میں گستاخی کی گئی۔ لیکن اس کے جواب میں اینکر پرسن کاشف عباسی نے ناصرف ٹی وی پر وضاحت دی بلکہ ٹویٹر پر لکھا؛

”‏میراحضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر کامل یقین ہے، میرا ان سے عقیدت کا تعلق ہے۔ میں تصور میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شان اقدس میں کوئی لب کشائی نہیں کر سکتا۔ عظیم صحابی رسول میرے لئے رول ماڈل ہیں۔ اللہ مجھے بروز حشر صحابہ کی عقیدت میں اٹھائے اور ان کا قرب نصیب کرے، آمین“

کچھ دیگر لوگوں نے بھی کاشف عباسی کے حق میں لکھا جس میں ضیاء الدین یوسفزئی نے ایک ٹرول ثانیہ عباسی کو جواب دیتے ہوئے کہا: حضرت عمر فاروق (رض) اور اسد عمر + عمر چیمہ کے درمیان 14 سو برس کا فاصلہ  ہے۔ بات کو سیاق و سباق سے نکال کر اسے توھین مذہب قرار دے کر کسی کے خلاف لوگوں کو تشدد اور نفرت پر اکسانا سنگین زیادتی ہے۔ اس سے پہلے کئی بے گناہ لوگ قتل ہوئے اور بہت سارے پابند سلاسل ہیں۔

سارہ تاثیر ٹویٹر پر ہیش ٹیگ آرسٹ کاشف عباسی کو شامل کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ: میں اس رجحان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔

صحافی مرتظی سولنگی نے ایک ٹویٹ میں لکھا؛ ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی) کو چاہیے کہ کاشف عباسی کے خلاف نفرت انگیز مہم کی تحقیقات کرے اور ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔ یہ ملک کیسا بنتا چلا جارہا ہے۔

کاشف عباسی کے خلاف جھوٹی مہم دیکھ کر مجھے ان کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ ایک ایسا ایماندار صحافی جس کی گواہی ان کے مخالفین بھی دیتے ہیں۔ ایک دفعہ خاکسار، کاشف عباسی کے ہمراہ ان کے دفتر میں موجود تھا کہ اتنے میں ایک نوجوان اندر داخل ہوا جو ان کا بھانجا تھا۔ آتے ہی اس نے کاشف عباسی سے یہ مطالبہ شروع کردیا کہ آپ فلاں منسٹر کو کال کریں اور میری سرکاری جاب لگوا دیں۔ کاشف عباسی نے میری طرف منہ کرتے ہوئے کہا اسے سمجھاؤ یار میں ایک پیشہ ور صحافی ہوں، آج تک کسی سے کوئی ذاتی فائدے کے لئے سفارش نہیں کی بھلا میں کیسے کسی کی سفارش کرسکتا ہوں اور پھر وہ بھی اپنے بھانجے کی۔ پھر اسے یہ کہہ کر رخصت کردیا کے بیٹا اگر تمہیں نوکری چاہیے تو ادھر ہمارے ساتھ کام سیکھو ورنہ! اللہ حافظ کہہ کر ہم باہر چلے گئے۔ لیکن ٹرولز کواس سے کیا غرض کہ کوئی کتنا ایماندار اور اپنے پیشے سے مخلص ہے۔

خدانخواستہ کبھی اگر کسی سے حقیقتاً بھی کوئی دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی کی شان میں بھی کوئی گستاخی سرزد ہوجائے تو پھر بھی ہمیں تحمل سے کام لینا چاہیے اور صلہ رحمی اختیار کرنی چاہیے اس ملک میں آئین ہے عدالتیں ہیں پولیس ہے اس طرف رجوع کرنا چاہیے ناکہ خود قاضی اور جلاد بن جانا چاہیے۔ کیوں کہ اگر میرے پاس سونے کا ایک کھرا سکہ ہے اور لوگ نقلی سکے لے کر کہیں کہ ہمارے سکے اصلی ہیں تو مجھے ان کی طرف دھیان کے دینے کے بجائے اپنے سچے سکے پر یقین ہونا چاہیے کہ میں سچا ہوں۔

پیغمبر اور صحابہ کو تو چھوڑیں ہم ایک ادنی سے انسان ہیں اور میرا یہ دعوی ہے کہ جس میں ذرا برابر بھی شعور ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے، یا کوئی فساد پھیلایا جائے، حیرانی ہوتی ہے کہ جھوٹے الزامات کے تحت گستاخی اور غداری کا سرکس لگانے والے کس منہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں گے۔

سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے مقتدر طبقے آخر کب تک چپ چاپ خاموش تماشائی یہ سرکس دیکھتے رہیں گے۔ لہذا یہ سب اب ختم ہونا چاہیے لوگوں سے جینے کا حق چھیننا بند ہونا چاہیے، اور زبان بندی کرنا بھی ختم ہونا چاہیے ورنہ اس معاشرے میں بولنے کے لئے گونگے، سننے کے لئے بہرے، چلنے کے لئے لنگڑے، لکھنے کے لئے ہاتھوں سے معذور، اور پڑھنے، دیکھنے کے لئے صرف اندھے رہ جائیں گے جو چاہ کر بھی کچھ نہ کر پائیں  گے۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra