فیض امن میلہ لندن 2019 آنکھوں دیکھا حال


نومبر کے آخری ہفتے لندن میں منعقد ہونے والے سالانہ فیض امن میلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ میلہ فیض احمد فیض کی یاد میں پچھلے نو سال سے یوکے میں قائم شدہ غیرمنافع بخش تنظیم فیض کلچرل فاؤنڈیشن یوکے ترتیب دے رہی ہے جس کے لئے تنظیم کے صدر اکرم قائمخانی، جنرل سیکرٹری عاصم علی شاہ اور دیگر عہدیداران صدلائق تحسین ہیں کہ دیار غیر میں بھی اردو ادب کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ یورپ میں مقیم اردو دانوں کے لئے ادبی ضیافت کا اہتمام بھی کیے ہوئے ہیں۔

یونیورسٹی آفویسٹ منسٹر میں ”تین شاعر ایک آواز“ کے عنوان سے اس سال ہونے والی تقریب کا بنیادی مقصد تین ترقی پسں د شعراء فیض احمد فیض، کیفی اعظمی اور شیخ ایاز کی شاعری اور پیغام کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ پاکستان اکادمی ادبیات کے سابق صدراور مشہور شاعر افتخار عارف مہمان خصوصی تھے جبکہ دیگر نمایاں ناموں میں شاعر اور سوشل ایکٹویسٹ توقیر عاطف، ٹی وی اینکر مجاہد بریلوی اور انڈیا سے تشریف لائی انڈین کمیونسٹ پارٹی کی عہدیدار نور ظہیر بھی شامل تھیں۔ تقریب کے شروع سے آخر تک ان شاعروں کی شاعری اور سیاسی و سماجی پیغام کو مختلف زاویوں سے تقریروں اور میوزک کے ذریعے پیش کیا گیا۔

تقریب تین سیشنز پر مشتمل تھی۔ پہلے سیشن میں برطانیہ، پاکستان اور یورپ سے آنے والے نیٗے شعراٗ نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہ جان کر بیحد مسرّت ہوی کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ردیف قافیے کی بنیادی ہیئت و ساخت سے ہی ں اواقف خواتین و حضرات شاعر کہلائے جانے لگے ہیں وہاں کچھ اصحاب طرز ایسے موجود ہیں جو اردو شاعری کے اعلی معیار سے انصاف کیے ہوئے ہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک ابھرتے ہوئے باکمال نوجوان شاعر منان بٹ نے بھی کشمیر کے بارے میں ”یقین“ کے عنوان سے اپنی نظم پیش کی جس کو حاضرین سے بے پناہ پذیرایئی ملی۔ چند قطعات پیش ہیں :

رکھ یقیں مرے ہم قدم تھوڑا تو یقیں رکھ

ایسا بھی اک دن آئے گا ایسی بھی شامیں گزریں گی

جب تم اور میں اور وہ اور ہم پھر شہر صنم کو سجائیں گے

جب یاد خدا کے سائے میں بچھڑے ملوائے جائیں گے

جب رشک ماہ و گل سے ہم بام پہ ملنے آئیں گے

جب بعد ملے محبوب کو ہم سب باتیں دل کی بتائیں گے

عشق میں جتنے داغ لگے ہم سارے داغ دکھائیں گے

یہ چاک گریباں لے کر جب ہم ہجر سے واپس آَئیں گے

تقریب کے دوسرے حصے میں مدعو مہمانان خصوصی نے اظہار خیال کیا۔ افتخار عارف نے اپنی ثقافت سے جڑے رہنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایاکہ کوئی ادبی فن پارہ اس وقت تک آفاقی نہیں ہو سکتاجب تک اس کی جڑیں مقامی کلچر میں مضبوطی سے نہ جڑی ہوں۔ مزید برآں تین شاعروں کے پیغام کی روح کو تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب ان مظلوم طبقات تک ان کے پیغام کو عملی طور پر پہنچایا جائے جن کی نمائندگی ان کا کلام کرتا ہے ورنہ خراج تحسین کی یہ محفلیں ایک محدود مراعت یافتہ طبقے کا فیشں ہی بن کر رہ جائے گا۔ توقیر عاطف نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ ان شاعروں کا کلام آج بھی اتنا ہی متعلقہ ہے جتنا ان کی زندگیوں مے تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ابھی بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کئی دہائیاں پہلے تھے۔

نور ظہیر نے کشمیر کے حالیہ جاری لاک ڈاؤن کے دوران اپنے ایک دورے کی تفصیل بتاتے ہوئے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کیا اور کشمیر کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کشمیریوں نے 1947 سے آج تک کبھِی بھی بھارت کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا اور جدوجہد آزادئِ کشمیر بھارتی مظالم کے باوجود روزبروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ یونیورسٹِی آف ویسٹ منسٹر کے شعبۃ عمرانیات کے سربراہ دبیش آنند نے بھی اپنے خطاب کے دوران بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق آزادی کی حمایت کی۔

درمیانی وقفے میں پاکیستان کے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے فیض کے مداحوں سے بھِِِِِِِِِی ملاقات ہوئی جوکہ اس حقیقت کا عملی ثبوت تھا کہ فن، فنکار، شاعراورادیب وطنیت، نظریے، قومیت غرض ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہوکر انسانیت اورآفاقی یگانگت کا درس دیتے ہیں اور فیض امن میلے جیسی محلوں میں ہر طرز کے لوگوں کی حاضری ہی ان فنکاروں اور شاعروں کے پیغام کے آفاقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

تقریب کے آخر میں شفقت علی خان نے کلاسیکی اور علاقائی کلام پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ یوں ایک حسین شام اختتام کو پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).