پسماندہ گاؤں کا وہ مسیحا کون تھا؟


دور دراز پہاڑی علاقے میں ایک گاؤں ایک عرصے سے پسماندگی اور محرومی کا شکار چلا آ رہا تھا۔ کوئی اس گاؤں والوں کا پرسان حال نہ تھا۔ سیاسی حضرات بھی تب ہی اس گاؤں کے باشندوں کی خبر لیتے جب انہیں ووٹ کی حاجت ہوتی، گاؤں والے بیچارے بھی ہر بار جو جتنا زیادہ نفیس انداز میں تمام حالات بہتر کرنے، پانی کی لائن بچھانے، سکول کی عمارت تعمیر کروانے، نوجوانوں کو باعزت روزگار دلوانے کی یقین دہانی کرواتا، اسی کو ووٹ دے دیتے۔

یہ سلسلہ چلتا آ رہا تھا، لوگ امید اور مایوسی کے درمیان کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کا ذریعہ معاش محنت مزدوری، زمیندارہ یعنی ذراعت اور گلہ بانی (مال مویشی پالنا تھا) ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان اس وجہ سے بھی کم (نہ ہونے کے برابر) تھا، کہ لوگوں کو پڑھائی لکھائی سے زیادہ عزیز بچوں کو محنت مشقت کا عادی بنانا تھا، تاکہ بڑے ہو کر جلد ہی محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کے کام باآسانی کر سکیں۔

البتہ گاؤں کے ایک قدرے باشعور خاندان میں سے ایک لڑکے کو اس کے بڑے بھائی جو کہ شہر میں کس صاحب حیثیت صاحب کے ہاں ملازمت کرتا تھا، کے مالک نے تعلیم دلوا دی۔ یہ لڑکا ”ایم اے“ کرنے کے بعد ایک نجی کمپنی میں ملازم ہو گیا، تھوڑے ہی عرصے میں اسنے اپنا ایک سائیڈ بزنس شروع کیا، جو چلتا تو کیا جلد ہی دوڑنے لگا، جب بزنس عروج پر پہنچ گیا تو شہر میں اپنا گھر، گاڑی، ملازم، بینک بیلنس سب کچھ اسے مل گیا۔ یعنی اس دور دراز گاؤں کا یہ پہلاآدمی تھا، جسے گاؤں میں امیر آدمی کے طور پر شہرت ملی، لوگ اپنے مسائل اب سیاستدانوں کے بجائے اسی کو چٹھی لکھ کر بتانے لگے۔

اسے اپنی گزشتہ زندگی اور گاؤں کے غریب لوگوں کی غربت سے اچھی طرح واقفیت بھی تھی اور احساس بھی تھا۔ یہ کبھی سیاستدانوں سے ملتا انہیں گاؤں کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا، کبھی اعلیٰ حکام کو چٹھیاں لکھتا مگر ہرکوئی خاطر خواہ توجہ دینے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیتا، یوں ایک طرف اچھے خاصے سال بیت گئے مگر ایک امیر اور با اثر شخص کی کوششیں بھی کام نہ آئیں، اور دوسری طرف اس ایک کی پڑھائی اور کامیابی دیکھ کر لوگوں نے بچوں کو سکول داخل کروانا شروع کر دیا تھا، جب تک یہ ایک کامیاب شخص سیاستدانوں کا پیچھا کرتا رہا تب تک گاؤں کے نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے میٹرک، ایف اے، ایف ایس سی کے امتحانات پاس کر لیے۔ اب گاؤں والوں کا ایک اور مسئلہ اس کے پاس آنے لگا۔ ہر کوئی اپنے بیٹے کی سند لے کر اس کے پاس پہنچا کہ ہمارے بچے کو نوکری دلوا دیں۔

اس طرح گاؤں والوں کی غربت اور پسماندگی کا احساس اس شخص کو کچھ نیا کرنے اور گاؤں کے ایک ایک فرد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سوچنے پر مجبور کرنے لگا۔ سب کچھ تھا پیسہ، دولت، شہرت، فیکٹریاں وغیرہ، اگر چاہتا تو گاؤ کے سارے ہی نوجوانوں کو ملازم رکھ لیتا مگر نہیں اس کے لیے اپنی ٹھاٹھ باٹھ اور دکھاوے سے زیادہ گاؤں کا مستقبل عزیز تر تھا۔ لہذا اسنے پلان کیا کہ گاؤں کے تمام نوجوانوں کو اپنی مددآپ کے تحت اپنے پاؤں پر اس طرح کھڑا کرنا ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو یہ احساس ہو کہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ کسی نے نہیں بلکہ ہم سب گاؤں والوں نے مل کر کیا ہے۔

یہی پلان لے کر وہ گاؤں گیا اور وہاں کے تمام لوگوں کو ایک مکان کی چھت پر اکٹھا کیا۔ اکٹھا کرنے کے بعد تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر گاؤں کے تمام مسائل کو بطریق احسن بیان کیا، جس سے گاؤ ں والوں کو شدت کے ساتھ یہ احساس ہو گیا کہ ”ہم نے اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں“۔ جب گاؤں والوں کو یہ احساس ہوچکا تو پھر اسنے تمام گاؤں والوں سے تھوڑے تھوڑے پیسے اکٹھے کیے، ساتھ یہ تاکید کی کہ اتنے پیسے ُآپ سب نے ہر ماہ ہمیں ادا کرنے ہیں، باقی گاؤں کے مسائل میں خود دیکھ لوگ گا۔

یہ پراسس چند ماہ چلتا رہا، اس کے بعد اسنے گاؤں میں دوبارہ سے لوگوں کو اکٹھا کر کے اعلان کیا کہ اب ہم سب کے اتفاق و اتحاد کی بدولت ہم اس قابل ہو چکے ہیں، کہ ہر تین ماہ بعد دس نوجوانوں کو ملک سے باہر (دوبئی، سعودیہ، قطر، کویت وغیرہ) محنت مزدوری کے لیے بھیج سکیں، ہر تین ماہ بعد دس نوجوان لوگوں کو ملک میں چھوٹے لیول پر اپنا کاروبار مہیا کر سکیں، مگر شرط یہ ہے کہ جو لوگ بیرون ملک جائیں گے یا جنہیں اندرون ملک کاروبار مہیا کیا جائے گا وہ یونین (کمیٹی) کا خرچ شدہ پیسہ قسطوں میں واپس کریں گے تاکہ ہم مزید لوگوں کو بھی باعزت روزگار فراہم کر سکیں۔

یہ سن کر گاؤں کے لوگ عش عش کر اٹھے اور اس کے ہاتھ چومنے لگے، اسنے ساتھ ہی دوسرا اعلان کیا کہ ”ہرتین ماہ بعد قرعہ اندازی ہوگی جس بھی نوجوان کانام نکلے گا اسے یہ کمیٹی پروفیشنل کورسز کے لیے شہر بھیجے گی اور اسے دل لگا کر کورس کرنا ہوگا، کیونکہ بیرون ملک وہی جا سکتا ہے جو ہنر سیکھ لے“۔ اس بات کے ساتھ بھی سب نے اتفاق کیا، اور خیر کی دعا کر کے محفل برخاست کر دی گئی۔ وہ واپس شہر آگیا اور پلان کے مطابق کام جاری رکھا۔

ابھی دو سال کا عرصہ بیتا تھا کہ اس پہاڑی علاقے میں آباد چھوٹے سے پسماندہ ترین گاؤں کا ایک بھی نوجوان بے روزگار نہ تھا، ایک بھی نوجوان انپڑھ نہ تھا، اور کوئی بھی ایسا گھر نہ تھا جس کے بچے اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل نہ کر رہے ہوں۔ لوگوں کو شعور مل چکا تھا اس لیے لوگ اپنے مسائل خود حل کرنے لگے تھے۔ اچھے برے، جھوٹے یا سچے کی تمیز کرنے کا ہنر بھی لوگ جان چکے تھے، اس لیے مقامی سطع پر تمام سیاسی لوگ بھی اسی گاؤں کی طرف متوجہ ہو گئے۔

جہاں کبھی چشمہ ڈھنگ کا نہ ہوتا تھا، وہاں پانی کی تین تین لائنیں بچھنے لگیں، سکول کی شاندار عمارت بھی اس گاؤں میں تعمیر ہوگئی، ڈسپینسری بھی مل گئی حتی کہ ایسا کوئی مسئلہ نہ رہا جو مزید حل طلب ہوتا۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگیا، بچے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ گاؤں کی بدلتی تقدیر دیکھ کر آس پاس کے لوگوں نے بھی اس گاؤں کے مسیحا کو اپنا آپ رہنماء چننے کا فیصلہ کر لیا۔ اب وہ لڑکا جسے کسی نے تعلیم دلوائی تھی اس کی محنت، خلوص، لگن اور ایمانداری و دیانتداری کی وجہ سے اسے ایک گاؤں کے بعد پورے حلقے کی تقدیر بدلنے کا موقعہ مل گیا، اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص کی محنت اور خلوص مخلوق خدا کی زندگیاں تبدیل کرنے لگا۔

وہ لڑکا کون تھا؟ یہ واقعہ کس دھرتی کا ہے؟ کچھ معلوم نہیں، البتہ بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں خدمت خلق، اور بغیر لالچ وطمعہ کے خلق خدا کی زندگیاں بدل لینے کے بعد سیاست میں عوامی اسرار پر آنے والاکوئی ایک مسیعا بھی نہیں ہے۔ یہاں پہلے لوگوں کو بہلایا پھسلایا جاتا ہے، پھر ان سے ووٹ بٹورے جاتے ہیں، عوامی عہدے کے حصول کے بعد وہ تمام وعدے بھلا دیے جاتے ہیں کہ جن کی تکمیل کے خواب بیچ کر یہ سیاستدان اقتدار کی لیلیٰ کی بانہوں میں سرمست ہوتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللّٰہ کریم ہمیں مخلصاور ایماندار سیاسی نمائندے عطا فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).