نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تقریر: قومی احتساب بیورو ’اب دوسرے محاذ کی طرف جا رہا ہے‘


قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ کوئی ہم سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ اربابِ اختیار کی صف میں ہے یا وہ صاحبِ اقتدار ہے تو نیب اس کی طرف سے آنکھیں بند رکھے گا، ایسا نہیں ہو گا۔

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں نہ صرف اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ احتساب کے سلسلے میں نیب کا جھکاؤ ایک طرف ہے بلکہ اس کی نفی بھی کرتا ہوں۔ ان کے مطابق ’اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر انھیں کام کرنے دیا گیا تو وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ’نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں، کسی گروہ سے نہیں بلکہ اس کا تعلق صرف پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہے۔‘

چیئرمین نیب نے کہا کہ ’ہم نے پہلے ان مقدمات کی طرف توجہ دی جو کہ گذشتہ 25، 30 سال سے منظرِ عام پر تھے لیکن ان پر ایکشن برائے نام تھا۔ ہم نے پہلے ان کیسز سے ابتدا کی اور اب ہم دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں جہاں اس تنقید کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ بظاہر انصاف یکطرفہ نظر آتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ جو جماعتیں 30، 35 سال سے ہیں اس دوران کتنی کرپشن ہوئی اور جو یہ گروپ 12، 14 مہینوں سے ہیں اس دوران کتنی کرپشن ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ بی آر ٹی کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکمِ امتناعی دیا ہوا ہے، اس لیے اس حکمِ امتناعی کی روشنی میں نیب ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ حکمِ امتناعی ختم ہو تاکہ نیب آگے اپنے قدم بڑھا سکے۔‘ انھوں نے کہا کہ اسی طرح ہی ایم سی بی کیس میں بھی لاہور ہائی کورٹ نے حکم امتناعی دیا ہو ہے اور ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘

انھوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ’ہماری طرف سے کوئی ڈیل ہو گی نہ کوئی این آر او ہو گا۔ ہماری نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ دوستی۔ ہم نے صرف اور صرف قانون اور آئین کے تحت اپنا کام کرنا ہے۔

انھوں نے پوچھا کہ نیب کسی سے سیاسی انتقام کیوں لے گا؟ ’میرا کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہے۔ ماضی میں کسی کی بشمول اداروں کے یہ جرات نہیں تھی کہ کسی سے پوچھتے کہ 5000 کی جگہ پانچ کروڑ کیوں خرچ کیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کے اس لیے جان دے دیتا ہے کہ ہسپتال میں ویکسین نہیں ہے اور جب بجٹ دیکھا تو اس متعلقہ دور میں انھیں کروڑوں کا بجٹ دیا گیا تھا۔ ’تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیسے کہاں خرچ ہوئے۔ ان سے پوچھا جائے گا چاہے وہ کسی صوبے سے بھی ہوں۔ جو بھی کارڈ استعمال کریں نیب نے اپنی کارروائی جاری رکھنی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایک طرف تو ایک بیڈ پر تین تین بندے پڑے ہیں اور دوسری طرف آپ کو زکام بھی ہو جائے تو آپ علاج لندن جا کر کرواتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں 1270 ریفرنس پڑے ہوئے ہیں جن میں 940 ارب روپے کی مجموعی رقم ہے اور پورے پاکستان میں صرف 25 جج ان کو دیکھ رہے ہیں اور قانون یہ کہتا ہے کہ آپ 30 دن کی اندر کیس کا فیصلہ کریں۔ ’30 دن کے اندر تو 1270 ریفرنسز میں تاریخیں بھیں نہیں دی جا سکتیں۔‘

نیب چیئرمین کے مطابق آج وہ لوگ بھی پسِ زنداں ہیں جن کے ساتھ ماضی میں آنکھ سے آنکھ ملا کر بات بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ان سے پوچھا گیا، تفتیش کی گئی، ان کے خلاف ریفرنس دائر کیے گئے۔ لیکن اب ریفرنسوں کا فیصلہ تو متعلقہ عدالتوں نے کرنا ہے۔

جسٹس جاوید اقبال

نیب چیئرمین نے کہا کہ آئندہ کے لیے نیب کے کسی ریجن میں، کسی دفتر میں کسی خاتون کو نہیں بلایا جائے گا بلکہ ہم ان کو ایک سوالنامہ بھیج دیں گے اور وہ بھی ہماری کوئی خاتون آفیسر لے کر وہاں جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ چند دن پہلے یہ خبر آتی رہی کہ نیب نے اکرم درانی کی والدہ جن کی عمر 90 سال ہے طلب کیا اور چار گھنٹے بٹھائے رکھا۔ ’جب میں نے یہ خبر دیکھی تو فوری طور پر نیب اہلکاروں سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ اکرم درانی کی والدہ کو کسی نے نہیں بلایا۔‘

انھوں نے کہا کہ آئندہ کے لیے نیب کے کسی ریجن میں، کسی دفتر میں کسی خاتون کو نہیں بلایا جائے گا بلکہ ہم ان کو ایک سوالنامہ بھیج دیں گے اور وہ بھی ہماری کوئی خاتون آفیسر لے کر وہاں جائے گی۔ ’اس کے علاوہ کسی کو بھی فون کر کے نہیں بلایا جائے گا بلکہ ان کو ان رائٹنگ یہ کہا جائے گا اور اس میں یہ لکھا ہو گا کہ ہم آپ کو کیوں بلا رہے ہیں، اگر وہ گواہ ہیں تو لکھیں گے کہ بحیثیت گواہ بلا رہے ہیں، اگر وہ ملزم ہے تو لکھیں گے کہ بحثیت ملزم بلا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ نیب کے پاس کئی سیاستدانوں کے کیس موجود ہیں اور کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ نیب کے خلاف بیٹھ کر دشنام طرازیاں کرنے کی بجائے پلی بارگین کریں اور جس ملک میں چاہتے ہیں چلے جائیں۔

انھوں نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں بھی ساری چیزیں شفاف نہیں ہیں۔ ’لیکن کیونکہ یہ پاکستان کی ساکھ کا سوال ہے، ابھی سری لنکا کی ٹیم بھی ٹیسٹ کے لیے آ رہی ہے اس لیے نیب نے ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھانا، لیکن میں ان سے گذارش ضرور کروں گا کہ وہ اپنے آپ کو صاف کر لیں کیونکہ الزامات کی نوعیت کافی سنگین ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp