فیض فیسٹیول: جو میں نے دیکھا


فیض احمد فیض نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ زمانے کی موج جہاں لے گئی، وہاں چل دیے۔ فیض کے ساتھ یہ معاملہ اب تک جاری ہے۔ اب بھی سرمایہ دار فیض کو جس ڈھب پر چاہتے ہیں، ڈھال لیتے ہیں اور جس رخ پر چاہتے ہیں، موڑ لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ دنوں ہونے والا فیض میلہ تھا۔ اس میلے کے بہت سے پروگرامات میں شرکت کا موقع ملا۔ میں اس تلاش میں تھا کہ فکر فیض کا سراغ ملے لیکن اس میلے کے اختتام پر یہی تاثر ابھرتا ہے کہ فیض کا ”فیض“ ا ب بند ہو چکا ہے۔

ایک ٹاک شو جس میں اسد عمر صاحب اور فرحت اللہ بابر صاحب شریک تھے، بابر صاحب اسٹیبلشمنٹ کی مذمت میں بیانات داغ رہے تھے اور اسد عمر صاحب اس کے دفاع میں مصروف تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ہی اپنے آپ کو بیک وقت سوشلسٹ کیمپ کا نمائندہ بھی ظاہر کر رہے تھے۔

حیراں ہو دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

ایک کتاب Rethinking Pakistan کی تقریب رونمائی میں ایک صاحب فرما رہے تھے کہ اسلام کے تصور جہاد پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے۔ Radical Islam کے تمام دلائل آیات جہاد سے فراہم کیے جاتے ہیں لیکن آیا ت جہا د کی تفسیر ہر مفسر نے مختلف کی ہے۔ سید قطب کچھ اور لکھتے ہیں، غامدی صاحب کے نظریات کچھ اور ہیں۔ ان سے جب ہم نے سوال کیا کہ کس بنیاد پر ہم سید قطب کی تفسیر کو رد کر دیں اورغامدی صاحب کی تعبیر کو درست ما ن لیں تو جواب ندارد۔

جی سی یونی ورسٹی کے ڈاکٹر طاہر کامران صاحب فرما رہے تھے کہ دیوبندی مکتب فکر کے بعد اب بریلوی مکتب فکر بھی بڑا خطرہ ہے۔ خادم حسین رضوی سے ”نمٹنے“ کے لیے بھی کوشش ہونی چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ہر گفتگو میں کو سنے والے سوشلسٹ تحریک لبیک پر اسٹیبلشمنٹ کے کریک ڈاؤن کے حامی تھے۔ ایک اور بات یہ بتائی کہ مذہبی گروہوں کا پاکستان میں کوئی کردار نہیں کہ پاکستان ایک نیشنلسٹ اسٹیٹ ہے۔ تضاد فکری کا یہ بھی شاہکار نمونہ تھا کہ قومی ریاست ہونے کی بنا پر یہاں اسلام کا نظریہ تو نہیں چل سکتا لیکن لینن کے گھسے پٹے درآمد شدہ افکار فروغ پا سکتے ہیں۔

فیض اور کیفی کی شاعری کے اثرات اور شاعری کی اصناف پر ڈاکٹر عارفہ سیدہ اور زہرہ نگاہ کو سننے کا موقع ملا۔ زہرہ نگاہ تو یہ کہے بنا نہیں رہ سکیں کہ اردو شاعری کی تکون کے تین بڑے شاعروں میں میر، غالب اور اقبال ہیں لیکن یہ بات ضمنی طور پر ہی ان کے منہ سے نکل گئی۔ سوشلسٹ ایک دور میں اقبال کو کمیونسٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اپنے دیگر تمام محاذوں کی طرح اس محاذ پر ناکامی کے بعد انھوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب ان کی حرکتوں سے یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ فیض کو اقبال کا مقام دلانا چاہتے ہیں۔

پنڈی سازش کیس پر کیا جانے والا پروگرام بھی تھا۔ یہ پروگرام بھی دلچسپ ہی تھا۔ بیک وقت یہ بھی کہا جارہا تھا کہ پنڈی سازش کیس میں فیض کا کوئی کردار نہیں تھا اور ان پر ظلم ہوا اور شرکا اس بات پر ٹھنڈی آہیں بھی بھر رہے تھے کہ وہ سازش کامیاب ہو جاتی تو پاکستان ایک کمیونسٹ ریاست بن چکا ہوتا۔ فیض کی بہادری کا تمام ثبوت اس بات سے دیا جا رہا تھا کہ وہ جیل میں ہوتے ہوئے خط بھی لکھ لیتے تھے۔

حامد میر صاحب کا ایک پروگرام تھا جس کے مہمان نسیم زہرا، وسعت اللہ خان اور وجاہت مسعود تھے۔ اس میں شرکا صحافتی پابندیوں کا بہت رونا روتے رہے۔ ہم بھی شریک غزل ہوجاتے اگر وہ یہ بھی بیان فرما دیتے کہ کمیونزم میں صحافیوں کو کتنی آزادی ہوتی ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا کہ روس کاحکمران خروشچیف ایک جلسے میں اپنے پیشرو سٹالن کی برائیاں کر رہا تھاتو مجمعے میں سے کس نے کہا کہ جب یہ سب ظلم ہو رہا تھا توآپ کہاں تھے؟ خروشچیف نے کہا کہ جس نے بھی یہ سوال کیا ہے وہ سٹیج پر آجائے، کافی دیر گزرنے کے بعد کوئی بھی سامنے نہ آیا تو خروشچیف نے کہا کہ میں اس وقت وہیں تھا جہاں اس وقت تم ہو۔

پروگرامات کا تو تذکرہ ہوگیا۔ شرکاء کا تذکرہ کیا جائے تواس چیز جو بکثرت محسوس ہوئی کہ مقررین میں سے کوئی اسلام کے کسی حکم یا عقیدے پر طنز اور چوٹ کرتا تو سب سے زیادہ داد وصول کرتا۔ کل پاکستان بنیادوں پر جمع کیے گئے 20 سے 25 طلبہ و طالبات بھی تھے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتے پھر رہے تھے، ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے، نعرے لگاتے کمیونزم کی گلی سڑی لاش میں زندگی کی رمق تلاش کر رہے تھے۔ ”ایشیا سرخ ہے“ سے نعرہ ارتقا کرتے ہوئے ”ایشیا سرخ ہو گا“ تک آ گیا۔ اس ”ہے“ سے ”ہو گا“ کے سفر میں بھی حسرتیں، ناتمام آرزوئیں، تشنہ خواہشیں، ادھورے خواب اور ٹوٹے ارمان کی ایک دلخراش داستان ہے۔

ان کے علاوہ فکر فیض کا ”احیا“ کرنے کے لیے ناچ گانے، رقص وسرود اور موسیقی کے پروگرامات بھی تھے جن میں شرکت کرنا خاکسار نے ضروری نہیں سمجھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).