نواز شریف کی روانگی پر عمران خان بدحواس کیوں ہیں؟


علاج کے لئے نواز شریف کی ملک سے روانگی سے ایک روز پہلے وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شریف خاندان سمیت اپوزیشن لیڈروں کو بے نقط سنائیں، جس کا آغاز نواز شریف نے ہی کیا تھا۔ ایک سرکاری تقریب کو جس میں غیر ملکی سفیر بھی مدعو تھے، کسی تلخ سیاسی مہم کا انتخابی جلسہ بنانے کی اس کاوش کی اصل وجہ یہی تھی کہ تمام تر اختیار اور ’خود مختار‘ حکومت کا سربراہ ہونے کے باوجود وہ نواز شریف کو ملک سے باہر جانے سے روک نہیں سکے۔

وزیر اعظم نے اس تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ بلاول بھٹو کی اردو اور ان کی کسی تقریر کے اس جملے کا بھی مذاق اڑایا کہ کہ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ یہ طنز بلاول بھٹو پر صادق آتا ہے یا نہیں کیوں کہ بلاول کا جواب یہ ہے کہ میں تو صرف سال بھر پہلے سیاست میں آیا ہوں لیکن ہمارے ماشاللہ 70 سالہ وزیر اعظم تو دو دہائیوں سے سیاست میں ہیں لیکن وہ صرف جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی میں مہارت رکھتے ہیں۔

بلاول کا دعویٰ ہے کہ وہ ان ’صلاحیتوں‘ سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ کامل اختیار کا مالک ہونے کے باوجود اس تقریر میں عمران خان نے یہ بتانا ضروری سمجھا ہے کہ ’مجھے اللہ نے ٹرین کیا ہوا ہے مقابلہ کرنے کے لیے۔ میں ایک سپیشلسٹ ہوں مقابلہ کرنے کا۔ میری کھیلوں کی گراؤنڈوں میں 20 سال ٹریننگ ہوئی ہے۔ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کا مقابلہ کیا ہے اور اللہ کا شکر ہے پاکستان کو اوپر لے کر گیا، مقابلہ کر کے۔ مجھے ہارنا بھی آتا ہے اور جیتنا بھی آتا ہے۔ ہار کر کھڑا ہونا بھی آتا ہے‘ ۔

نہ جانے انتخاب جیتنے، حکومت بنانے اور پندرہ ماہ سے ملک کا ایسا با اختیار وزیر اعظم ہونے ے باوجود جسے ملک کے تمام اداروں ( اسے فوج، نیب اور عدلیہ پڑھا جائے ) کی مکمل حمایت کے باوجود عمران خان کو شکست کا ایسا کون سے خوف ہے کہ انہیں عوام تک یہ پیغام پہنچانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ وہ ہارنے کے بعد کھڑے ہونے کا فن جانتے ہیں۔ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے حکومتی مطالبے کو مسترد کرنے کے حکم پر ان کے تبصرے اور ایک مسترد شدہ حکومتی حکمت عملی یعنی نواز شریف سے 7 ارب روپے کا ضمانت نامہ طلب کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر وزیر اعظم صاف صاف ناراض، مایوس اور پریشان دکھائی دیے۔

مخالفین کے بارے میں سخت اور توہین آمیز الفاظ کے ذریعے اپنے غصہ کا اظہار تو صرف یہ واضح کرتا ہے کہ عمران خان کے لئے شکست قبول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے بیس برس تک کرکٹ ضرور کھیلی ہے لیکن اس کھیل کے اس بنیادی اصول کو اپنی زندگی میں نافذ نہیں کرسکے کہ مخالف کو عزت دو اور شکست کو باوقار طریقے سے قبول کرلو۔

عمران خان کی باتوں اور ان کی حکومت کے نمائندوں کی وضاحتوں میں یہ وقار ناپید دکھائی دیا۔ یوں لگتا ہے کہ نواز شریف کو لے جانے والی ائیر ایمبولنس نے جوں ہی پاکستان کی فضائی حدود سے کوچ کیا، تحریک انصاف اور عمران خان کی پریشانی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس کا اظہار وزیر اعظم نے کل کی جانے والی تقریر میں بھی کیا ہے لیکن غالب امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی طرف سے ایسے ہی غم و غصہ کا مزید اظہار سامنے آئے گا۔

اس کی ایک وجہ شکست خوردگی کا احساس ہے کہ کس طرح نواز شریف، حکومت اور عمران خان کی مرضی و خواہش کے بغیر ملک سے جانے میں کامیاب ہوگئے تو دوسری وجہ یہ خوف کہ وہ اب اپنے ووٹر کو کیا منہ دکھائیں گے۔ عمران خان جیسے بھی بلند بانگ دعوے کریں نواز شریف کی روانگی سے یہ واضح ہؤا ہے کہ حکومت نہ تو فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے بعد اس پر آخر دم تک قائم رہنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اس صورت میں عمران خان نہ جانے گر کر دوبارہ کھڑا ہونے کی کس صلاحیت کا دعویٰ کررہے ہیں۔

نواز شریف کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے عدالتوں کی کمزوری یا نقص کی بجائے حکومت کی بدنیتی، کمزور حکمت عملی، ایسی مجبوری جس کا اظہار ممکن نہیں اور ناموافق عدالتی فیصلوں کو قبول نہ کرنے کی خاصیت کا اظہار ہؤا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد پہلے اٹارنی جنرل نے سرکاری مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالتوں سے شریف خاندان کو بہت زیادہ ریلیف مل رہا ہے‘ ۔ سرکاری آفیسر آف لا کی کا یہ بیان عدالتی دیانت اور خود مختاری پر براہ راست حملہ تھا جبکہ اس فیصلہ پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل ہو سکتی تھی۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا بھی تھا کہ اس عدالتی حکم کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی۔ وفاقی کابینہ کو منگل کے روز یہ طے کرنا تھا کہ اس حکم پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے یا اسے تسلیم کرلیا جائے لیکن سوموار کو وزیر اعظم کی شکست خوردہ سے تقریر اور آج صبح نواز شریف کی لندن روانگی نے واضح کردیا کہ حکومت کے پاس دراصل یہ آپشن موجود ہی نہیں تھا۔ وہ صرف ایک ایسا کاندھا تلاش کرنے کی خواہش مند تھی جس پر نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کا بوجھ ڈال کر وہ اپنے ووٹروں کے سامنے ان دعوؤں کی صداقت کا ڈھنڈورا پیٹ سکے جن میں ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کی تکرار اب کسی المیہ مزاح کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اب یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ عمران خان کی نگرانی میں کام کرنے والی حکومت کو کسی دوسری جگہ ہونے والے فیصلوں پر صاد کہنا پڑتا ہے۔

اسی خفت کو دلیل کا جامہ پہنانے کے لئے اٹارنی جنرل کی طرف سے اس اشارے کے باوجود کہ کابینہ ہائی کورٹ کے حکم پر اپیل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی، اگلے ہی روز وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو حکومت کے مطالبہ سے بھی زیادہ سخت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو شریف خاندان پر زیادہ سخت شرائط عائد کی گئی ہیں۔ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے لاہور ہائی میں سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف سے طلبکیے گئے بیان حلفی یا عہد نامہ کا حوالہ دیا۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ سرکاری وکیل نے اس عہد نامہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا بلکہ ججوں کی طرف سے جو تجویز پیش کی گئی تھی، حکومتی وکیل نے اسے بھی ناکافی قرار دیا۔ جس کے بعد ججوں نے نواز شریف کو فوری ریلیف دینے کا حکم دیا۔ یوں بھی یہ مقدمہ ابھی اپنے حتمی قانونی انجام تک نہیں پہنچا۔

حکومت کے پاس لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل کا آپشن موجود تھا۔ ایک سرکاری تقریب میں سیاسی مخالفین کے خلاف پرانے پروپیگنڈے کو نئے انداز میں دہرانے کی بجائے عمران خان کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ حکومت اگر نواز شریف اور شہباز شریف کو ناقابل اعتبار سمجھتی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو میرٹ کے خلاف مانتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر نہیں کی گئی اور اسے درپردہ قبول کرتے ہوئے ایک جلسہ میں وزیر اعظم یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ’آدھی کابینہ تو نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے خلاف تھی لیکن شکر کریں کہ مجھے رحم آگیا‘ ۔

دوسروں کو جھوٹا اور قیامت کے روز پیش آنے والی سزا سے ڈرانے والے عمران خان کو یہ بتانا چاہیے کہ انہیں رحم کیوں آگیا تھا اور ایک ’مجرم‘ کو ملک سے جانے کی اجازت دے کر وہ خود اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان پر مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے کسی بھی مذہبی جماعت سے زیادہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ مدینہ ریاست کا نعرہ، آخرت کا خوف اور ووٹ کی بجائے خدا کا ڈر جیسے نعرے دراصل سیاسی ہتھکنڈوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

اس پر مستزاد یہ کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ماننے کے باوجود اس میں کیڑے نکالے جارہے ہیں اور سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور اگلے ماہ بننے والے چیف جسٹس گلزار احمد سے کہا جارہا ہے کہ وہ عدلیہ پر عوام کا اعتبار بحال کریں، حکومت عدالتوں کو ہر قسم کے وسائل فراہم کرے گی۔ حکومت خود ایک تنازعہ میں عدالت عظمی سے حتمی فیصلہ لینے کا حوصلہ نہیں کرتی لیکن اب عدالتی نظام کو طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر کام کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر وزیر اعظم عدالتوں کو بھی ’ایک پیج‘ کی سیاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یعنی نیب اور عسکری اداروں کی طرح عدالتیں بھی وہی کام کریں جو عمران خان اور ان کی حکومت چاہتی ہے۔

پورے نظام کو زیر نگین کرنے کی یہ افسوسناک خواہش دراصل بدترین آمرانہ ذہنیت کی آئینہ دار ہے اور ایک ایسے مزاج کی نشاندہی کرتی ہے جو کسی روک ٹوک کے بغیر بے پناہ اختیارات حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نیست و نابود کرسکے۔ عمران خان کو وہی میڈیا اچھا لگتا ہے جو ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور انہیں صرف وہ عدالتی فیصلے بھلے لگتے ہیں جو ان کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کریں۔ وہ چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی طرح کے جج چاہتے ہیں جو وزیر اعظم کی آواز کی گونج بننے میں ندامت محسوس نہ کریں اور دعویٰ کریں کہ نیب کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ نیب چئیرمین کا بیان بازی کرنے کا طریقہ ہی اس کے سیاسی عزائم اور بدنیتی کا واضح ثبوت فراہم کرتا ہے۔

وزیر اعظم کو عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے چیف جسٹس کو دہائی دینے کی بجائے زیریں عدالتوں کو خود مختار بنانے اور ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے وسائل فراہم کرنے چاہئیں تاکہ لوگوں کو دہائیوں تک معمولی تنازعات کے لئے عدالوتں کے چکر نہ لگانے پڑیں اور تحصیل اور ضلع کی بنیاد پر عدالتی نظام شفاف اور کسی آلودگی سے پاک ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے عدالتی نظام سے اشرافیہ اس وقت تک فائدہ اٹھاتی رہے گی جب تک سماج میں طبقاتی تقسیم موجود رہے گی۔ ایک طبقاتی نظام میں وسائل کے حامل لوگ عدالتوں میں اپنے معاملات بہتر انداز میں پیش کرکے ہمیشہ ریلیف لے سکتے ہیں۔ اس کا تعلق کسی ایک خاندان یا فرد سے نہیں ہے۔

پاکستان کا عدالتی نظام یوں بھی طاقت ور کا ’اسیر‘ رہا ہے۔ نظریہ ضرورت بھی اسی مجبوری کی وجہ سے ایجاد ہؤا تھا۔ اس کی ایک مثال تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں تعطل کا معاملہ ہے۔ تو دوسری مثال اسلام آباد کی ایک عدالت میں 2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ پر حملہ کا مقدمہ بھی ہے۔ بابر اعوان نے عمران خان کے وکیل کے طور پر انسداد دہشت گردی عدالت میں وزیر اعظم کو بری کرنے کی استدعا کی اور وکیل سرکار نے اس کی غیر مشروط تائید کی۔ اس نظام میں کون سا سرکاری وکیل حاضر وزیر اعظم کے خلاف دلیل دینے کا حوصلہ کرسکتا ہے؟

عمران خان اس کج روی کو تبھی دور کرسکتے ہیں اگر وہ خود کو عقل کل سمجھنے سے گریز کریں۔ اور اپنے اور سیاسی مخالفین کے لئے انصاف کے دو مختلف پیمانوں کا تقاضہ کرنا بند کردیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali