وہ رات جب امریکہ نے چینی سفارت خانے پر بمباری کی


بلغراد میں سربیا سے تعلق رکھنے والے انجینیئر ولادا نصف شب کے قریب اپنے گھر کی طرف تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ اُس شام وہ اپنے بیس سالہ بیٹے کو باہر گھمانے کے لیے لے گئے تھے لیکن عین اس وقت یوگوسلاویا کے دارالحکومت پر گولے برسنے شروع ہو گئے۔

بجلی غائب ہو چکی تھی اور وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتے تھے۔

نیٹو جو کہ دنیا کا طاقتور ترین فوجی اتحاد ہے، مارچ کے آخر سے یوگوسلاویا پر فضائی حملے کر رہا تھا تاکہ صدر سلوبودن میلاسووِچ کی فورسز کو کوسوو صوبے میں البانوی باشندوں کے خلاف مظالم سے روک سکے۔

یہ 7 مئی سنہ 1999 کی بات ہے جب امریکہ کی سربراہی میں کی جانے والی یہ فضائی کارروائی مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ، چین کی شدت اختیار کرتی تجارتی جنگ

ہواوے بحران: امریکہ اور چین کے درمیان نئی سرد جنگ؟

’چین امریکی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘

تجارتی معاہدے سے یہ جنگ ختم ہو جائے گی؟

فضائی حملوں کی اطلاع دینے والے سائرنوں کی گونج میں ولادا کے گھر والوں نے پچھلے کچھ ہفتوں سے بہت سی راتیں اپنے اپارٹمنٹ کے تہہ خانے میں چند ساتھیوں کے ساتھ گزاری تھیں۔ ان کی دعا تھی کہ کہیں کوئی میزائل غلطی سے ان کے اپارٹمنٹ پر نا آ لگے۔

کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ وہ ایک اہم سفارتی مشن چینی سفارت خانے کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہاں رہنا یقیناً انھیں محفوظ رکھے گا۔

لیکن جیسے ہی ولادا اور ان کا بیٹا اندھیرے میں اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت کے دروازے پر پہنچے، عین اُس وقت امریکی بی ٹو سٹیلتھ جنگی جہاز بلغراد کی فضاؤں میں نمودار ہوئے۔ اِن جہازوں کا نشانہ سی آئی اے سے منظور شدہ حدف پر مرکوز تھا۔

ولادا کو صرف میزائل کے داغے جانے کی آواز سنائی دی اور انھیں ہلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے شیشے کا دروازہ پاش پاش ہونے سے اس کی کِرچیاں ان پہ برسنے لگیں۔

’پہلا گولا لگتے ہی ہمارے پیر زمین سے اکھڑ گئے اور ہم گر گئے۔۔۔ اور پھر یکے بعد دیگرے (اور گولے برسنے لگے)۔ دھماکوں کے نتیجے میں عمارت کے تمام کواڑ اکھڑ گئے اور تمام کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔‘

وہ خوفزدہ تھے مگر زخمی نہیں ہوئے تھے۔ تمام پانچ گولے 100 میٹر کی دوری پر موجود چینی سفارت خانے پر گرے تھے۔

امریکہ اور نیٹو پر پہلے ہی اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں بڑھتی شہری آبادی کی ہلاکتوں کے معاملے پر تنقید کی جا رہی تھی اور روس اور چین نے بھی اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اور اب انھوں نے بلقان کے قلب میں چین کی خود مختاری کے نشان پر حملہ کیا تھا۔

شہر کے اس پار ایک چینی تاجر شین ہونگ کو جب یہ خبر ملی کہ چینی سفارت خانے پر حملہ ہوا ہے تو اسے یقین نہیں آیا۔ کچھ دن پہلے ہی اس کے والد نے اسے شنگھائی سے فون کر کے مذاق میں کہا تھا کہ تمہیں اپنی مرسیڈیز گاڑی سفارت خانے میں رکھ دینی چاہیے تاکہ وہ محفوظ رہے۔

’میں نے اپنے جاننے والے ایک پولیس اہلکار کو خبر کی تصدیق کے لیے کال کی تو انھوں نے کہا ’ہاں، شین، وہاں واقعی حملہ ہوا ہے۔ پھر انھوں نے مجھے کہا کہ میں فوراً یہاں آ جاؤں، تب مجھے یقین ہوا کے یہ سچ ہے۔‘

وہ جب جائے وقوع پر پہنچے تو ہر طرف افراتفری تھی۔ سفارت خانہ جل رہا تھا، وہاں کام کرنے والے لوگ گرد سے اٹے ہوئے اور خون میں لت پت کھڑکیوں سے کود کر اپنی زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

میلاسووچ کے قریبی سیاستدان بھی، جن پر دو ہفتے پہلے ایک خصوصی عالمی عدالت نے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں فردِ جرم عائد کیا تھا، جائے وقوعہ پر پہنچ کر بمباری کو نیٹو کے ظالمانہ طرزِعمل کی تازہ ترین مثال قرار دے رہے تھے۔

شین کا کہنا تھا ’ہم اندر نہیں جا سکے کیونکہ اندر بہت دھواں تھا اور بجلی نا ہونے کے باعث ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ ایک ہولناک منظر تھا۔‘

وہاں انھیں چین کا ثقافتی اتاشی، جنھیں وہ پہلے سے جانتے تھے دکھائی دیے۔ انھوں نے پردوں کو گرہیں لگا کہ پہلی منزل کی کھڑکی سے نکل کر اپنی جان بچائی تھی۔

’ہمیں یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ زخمی ہیں اور انھوں نے بھی دھیان نہیں دیا۔ لیکن جب میں نے ان سے مصافحہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے ہاتھ خون سے لت پت ہیں۔‘

میں چلایا ’آپ زخمی ہو، آپ زخمی ہو! اور جیسے ہی انھوں نے اپنے ہاتھ دیکھے، وہ بے ہوش ہو گئے۔‘

اگلے ہی دن شین کو یہ افسوسناک خبر ملی کہ ان کے دو قریبی دوست، نو بیاہتا صحافی جوڑا 31 سالہ ژوینگہو اور 27 سالہ زو ینگ دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی لاشیں ایک تباہ شدہ دیوار کے ملبے سے برآمد ہوئیں۔

یہ دونوں کمیونسٹ پارٹی کے اخبار روزنامہ گوانگ منگ کے لیے کام کرتے تھے۔ ژو نے فنونِ زبان کی تعلیم حاصل کی تھی اور انھیں سربین زبان پر عبور تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چین: امریکہ سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرے

’روس نہیں اب چین امریکہ کا عسکری حریف‘

ژو نے بمباری کے دوران بلغراد میں گزرا وقت خصوصی سلسلہ وار رپورٹس ’لِوونگ انڈر گن فائر‘ (برستی گولیوں کے سائے میں زندگی) کے نام سے چھاپا تھا۔

ژو یِنگ نے اخبار کے ایڈورٹائزنگ شعبے کے لیے آرٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا۔ ان کی والدہ ان کی موت کی خبر سنتے ہی غم سے نڈھال ہو گئیں اور انھیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ لہذا ژو کے والد اکیلے ہی ان کی لاش وصول کرنے بلغراد پہنچے تھے۔

ایک اور صحافی 48 سالہ صحافی شاؤ یُنہوان بھی، جن کا تعلق چینی خبر رساں ادارے زینوا سے تھا، اس حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں اور ان کے شوہر کاؤ رونگفی کی بینائی جاتی رہی۔ سفارت خانے کے ملٹری اٹاشی کو، جو مبینہ طور پہ وہاں سے جاسوسی کا سیل چلاتے تھے، کوما کی حالت میں چین بھیجا گیا۔ اس حملے کے نتیجے میں مجموعی طور پہ تین لوگ ہلاک اور کم از کم بیس زخمی ہوئے تھے۔

شین کے لیے یہ ایک کھلی جارحیت تھی۔ اگلے ہی دن انھوں نے بلغراد کی گلیوں میں حملے کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے اور ایک احتجاج کی قیادت کی۔ ایک پلے کارڈ پر ’نیٹو: نازی امریکی دہشتگرد تنظیم‘ درج تھا۔

یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ تھا جو آنے والے دنوں میں ہونے والا تھا۔

بمباری کے چند ہی گھنٹوں بعد دو مقابل بیانیے منظرِعام پہ آنے لگے۔ آنے والے مہینوں میں ان بیانیوں میں مزید تقویت آئی۔ یہ سانحہ آج بھی زیرِ بحث ہے اور چین و امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری کا باعث بنتا ہے۔

اس بمباری نے نہ صرف قیاس آرائیوں کو ہوا دی بلکہ بہت سے ایسے سوالوں کو بھی جنم دیا جن کے جواب کسی کے پاس نہیں تھے اور اسی وجہ سے کچھ لوگ اسے ایک بڑی سازش سمجھنے لگے۔

یہ سانحہ بہت عرصے تک تجسس کا باعث بنا رہا۔ یہاں تک کہ مہینوں بعد دو یورپی جریدوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ حملے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیے گئے تھے۔

لیکن سابق نیٹو افسران کے مطابق حملوں کے بیس سال بعد بھی کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ یہ حملے جان بوجھ کر کیے گئے تھے، جس پر چین تو یقین رکھتا ہے لیکن امریکہ تردید کرتا ہے۔

امریکہ اور نیٹو نے بمباری کے بعد ابتدائی چند ہی گھنٹوں میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ محض ایک حادثہ تھا۔ اقوامِ متحدہ میں چینی نمائندے نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’جنگی جرم‘ اور ایک ’وحشیانہ‘ عمل قرار دیا تھا۔

برسلز میں نیٹو کے برطانوی ترجمان جیمی شیا کو، جو جنگ کا عوامی چہرہ تھے، نصف شب کو نیند سے جگا کر یہ بتایا گیا کہ صبح انھیں عالمی پریس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان ابتدائی گھنٹوں میں آنے والی معلومات بہت کم تھیں لیکن انھیں ’کیا ہوا‘ کی وضاحت دینے کے ساتھ معذرت بھی کرنا تھی۔ انھوں نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جنگی جہازوں نے ’غلط عمارت کو نشانہ بنایا تھا۔‘

بیس سال بعد اس سانحہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’یہ ویسے ہی ہے جیسے ایک ریل گاڑی یا کار کو حادثہ پیش آیا ہو، یعنی آپ کو یہ تو پتہ ہے کہ کیا ہوا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ ہم کافی عرصے بعد اس بات کو حتمی طور پر کہہ سکے لیکن شروع سے ہی ہمارا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک سفارت خانے کو نشانہ بنانا نیٹو کے منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔‘

چینی سفارتخانہ

چینی سفارتخانے پر بمباری میں تین صحافی ہلاک ہوئے تھے

امریکہ کو چین کو مکمل وضاحت دینے میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ لگا، جس کے مطابق بہت ساری بنیادی غلطیوں کی وجہ سے پانچ جی پی ایس کی مدد سے ہدف تلاش کرنے والے گولے چینی سفارت خانے پر گرے۔ ان میں سے ایک گولا چین کے سفیر کے گھر کی چھت کو چیرتا ہوا گرا لیکن پھٹا نہیں تھا،جس کی بدولت ان کی جان بچ گئی۔

سرکاری اہلکاروں کے مطابق اصل ہدف یوگوسلاویا کا فیڈرل ڈائریکٹوریٹ برائے سپلائی اور پروکیورمینٹ (ایف ڈی ایس پی) تھا۔ یہ ایک سرکاری ایجنسی تھی جو دفاعی سازوسامان کی درآمد اور برآمد کا کام کرتی تھی۔ سلیٹی رنگ کی یہ عمارت آج بھی سفارت خانے سے سینکڑوں میٹر دور موجود ہے۔

نیٹو کو ابتدا میں یہ امید تھی کہ بمباری کا یہ سلسلہ کچھ دن ہی جاری رہے گا اور تب تک میلاسووچ اپنی افواج کوسوو سے نکال کر امن بحال کرنے والوں کو داخلے کی اجازت دے دیں گے۔ لیکن جب سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت چھ ہفتوں سے زیادہ ہو چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

تجارتی جنگ پر چین کی امریکہ کو سخت تنبیہ

بینک پر پابندیاں عائد کرنے پر چین امریکہ سے ناراض

جنوبی بحیرۂ چین پر امریکہ کا چین کو انتباہ

چینی سفارتخانہ

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے (جو عام طور پہ ہدف چننے کے عمل میں شامل نہیں ہوتا) سینکڑوں نئے ہدف چن کر فضائی حملے کی شدت کو برقرار رکھنے کے لیے ’ایف ڈی ایس پی‘ کا انتخاب کیا تھا۔ تاہم امریکہ کی سب سے اعلیٰ انٹیلیجینس ایجنسی کا کہنا تھا کہ اس ہدف کے لیے انھوں نے غلط نقشہ استعمال کیا تھا۔

امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بمباری کے دو دن بعد کہا ’آسان الفاظ میں کہا جائے تو ہمارے جہازوں نے غلط ہدف کو نشانہ بنایا کیونکہ بمباری کے احکامات ایک پرانے نقشے کی بنیاد پر دیے گیے تھے۔‘

وہ اس امریکی نقشے کا حوالہ دے رہے تھے جو بظاہر چینی سفارتخانے اور ایف ڈی ایس پی کی درست جگہ نہیں دکھا رہا تھا۔

امریکی انٹیلیجینس افسران کے پاس صرف ’ایف ڈی ایس پی’ کا پتہ (2 بولیور یومیٹنوسٹی) موجود تھا۔ اس کے علاوہ ہدف کے تعین کے لیے بنیادی فوجی سِمت شناسی کی تکنیک استعمال کی گئی۔

یہ تکنیک اتنی غیر واضح تھی کہ سی آئی اے کے چیف جارج ٹینیٹ نے اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہوئے کہا کہ فضائی بمباری کرتے وقت یہ تکنیک کبھی بھی ہدف کے تعین کے لیے استعمال نہیں کرنی چاہیے۔

ٹینیٹ نے بتایا کہ ابتدائی غلطی کی سنگینی میں اضافہ تب ہوا جب انٹیلیجینس اور فوجی ریکارڈز کے ذریعے اہداف کی دوبارہ جانچ کی گئی، ان میں سفارت خانے کا نیا مقام درج نہیں تھا۔ حالانکہ حملے کے دوران بہت سے امریکی سفارت کار بھی عمارت میں موجود تھے۔

اگر کسی نے حملے کی جگہ کا خود دورہ کیا ہوتا تو انھیں وہاں ایک کمپاؤنڈ، ایک پانچ منزلہ عمارت جس کی چھت سبز ٹائلوں سے بنی تھی، ایک کانسی کی تختی جو سفارت خانے کے ہونے کا اعلان کر رہی تھی اور ایک دس میٹر بڑا اور سرخ چینی جھنڈا ہوا میں لہراتا دکھائی ضرور دیتا۔

سی آئی اے کی وضاحت پر یقین کرنا ایک بہت مشکل کام تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ دنیا کی جدید ترین فوج نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ایک ساتھی رکن جو نیٹو کے فضائی حملوں کے سخت مخالف تھے، کے سفارت خانے پر نقشے کی غلطی کی وجہ سے حملہ کر دیا۔

چین یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کہانی تسلی بخش نہیں۔

جون 1999 کو امریکی سفارتی نمائندوں کو جنھیں معاملات کی وضاحت کے لیے بیجنگ بھیجا گیا تھا، چینی وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ ’چینی حکومت اور اس کے عوام اس وضاحت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ یہ بمباری محض ایک غلطی تھی۔‘

لیکن امریکہ دانستہ طور پہ چین پر حملہ کیوں کرے گا؟

8 مئی 1999 کو سنیچر کی ایک صبح بیجنگ میں موجود امریکی سفارت کار ڈیوڈ رینک نے علی الصبح بیدار ہونے کے بعد ٹیلی ویژن چلایا تو امریکی نشریاتی ادارے سی این این پر بلغراد میں چینی سفارت خانے کی جلتی تصاویر چل رہی تھیں۔

دوپہر تک ہزاروں ناراض چینی امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر رہے تھے۔ لیکن رینک اس وقت تک کافی پر سکون تھے۔ انھوں نے اپنے سفارتخانے کے سیاسی سیکشن کے سربراہ کو کال کی اور کہا ’جِم، تم جانتے ہو یہ بہت برا ہوا ہے۔‘

سفارت کار جلدی سے اپنے گھر سے سفارتخانے ہہنچے جہاں امریکی اہلکار یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہوا کیا ہے۔ کچھ بہت غلط ہوا تھا لیکن یہ ضروری تھا کہ اس کو ایک افسوسناک غلطی قرار دیا جائے۔

رینک کا کہنا تھا ’یہ بات بہت واضح تھی کہ یہ ایک طرح سے جنگی صورتِ حال میں ہونے والی غلطی تھی۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ مستقبل میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑا مسئلہ تھا لیکن اس طرح کا نہیں جس طرح کا یہ ابھر کر آیا۔‘

لیکن اگلے چند گھنٹوں میں یہ واضح ہونے لگا تھا کہ چینی حکومت اور عوام کا ردِعمل کیسا ہو گا۔

رینک کو اپنے لبرل چینی دوستوں کی کالز آنے لگیں تھی جو اس واقعہ پر بہت برہم تھے۔ امریکی صحافیوں کو بھی اپنے ان چینی ذرائع کی طرف سے کالز موصول ہوئیں جن میں انھوں نے صدمے کا اظہار کیا۔

چینی سرکاری میڈیا بھی ایک واضح بیانیہ دے رہا تھا کہ امریکہ نے چینی سفارت خانے پر بمباری کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

رینک کا کہنا تھا ’جس طرح کے الفاظ میں نے بہت سے چینی باشندوں کو بولتے سنا وہ ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے تھے۔ وہ سب غصے سے بھری حرف بہ حرف ایک جیسی باتیں کر رہے تھے۔‘

دوپہر تک ہزاروں طالبِ علم بیجنگ کی گلیوں میں احتجاج کر رہے تھے۔ وہ امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے اور آہستہ آہستہ ماحول پرتشدد ہو گیا۔

’وہ سڑکے کنارے سے پتھر اکھاڑ رہے تھے۔ بیجنگ کے فٹ پاتھ پوری طرح پکے نہیں ہیں اور ان پر بڑی ٹائلیں لگی ہیں، تو وہ انھیں اکھاڑ رہے تھے اور یا تو دیواروں پر مار رہے تھے یا دیواروں کے اوپر سے (سفارت خانے کے اندر) پھینک رہے تھے۔‘

کنکریٹ کے بہت سے ٹکڑے سفارت خانے کی عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر اندر گر رہے تھے۔ اس عمارت میں درجن بھر سفارتی عملے کے علاوہ امریکی سفیر جیمز سیسر بھی شامل تھے۔ سفارت خانے کی گاڑیاں بھی ان کی زد میں آ چکی تھیں۔

احتجاج کرنے والوں کا پیغام بہت واضح تھا کہ یہ بمباری دانستہ طور پر کی گئی اور’چین کے باشندوں کے خون کا حساب دو‘ جیسے نعرے احتجاج کا حصہ تھے۔

یہ احتجاج لوگوں میں اضافے کے ساتھ اگلے روز بھی جاری رہے، چند رپورٹس کے مطابق ایک لاکھ لوگوں نے سفارتی ڈسٹرکٹ پر دھاوا بولا اور امریکی اور برطانوی سفارت خانوں پر پتھر، انڈے اور کنکریٹ پھینکے۔

ان عمارتوں میں پھنسے امریکی سفارت خانے کے ترجمان بل پالمر نے اس وقت بات کرتے ہوئے کہا ’ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔‘

اس سے پہلے چین میں اس شدت کے مظاہرے سنہ 1989 میں بیجنگ کے تیانامن سکوائر میں طلبا کی جانب سے جمہوریت کے حق میں کیے گیے تھے۔

تاہم اس بار عوام کے غصے کا نشانہ کمیونسٹ پارٹی نہیں تھی۔ حالانکہ تیانامن مظاہروں میں حکومت کی جانب سے طلبا پر کیے گئے کریک ڈاؤن کی دسویں برسی بھی قریب تھی۔ حکومت لوگوں کو غصہ نکالنے کا موقع بھی دینا چاہتی تھی اور حالات کو اپنے قابو میں بھی رکھنا چاہتی تھی۔

ایک غیر معمولی ٹی وی خطاب میں چین کے نائب صدر ہوجنتاؤ نے مظاہرین کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی انھیں خبردار بھی کیا کہ وہ ’قانون کے دائرے میں رہیں۔‘

یہ احتجاج صرف بیجنگ تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ شنگھائی سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ بلکہ وسطی شہر گوانگ جو میں امریکی نائب سفیر کے گھر کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔

اٹھارہ سالہ ویپنگ چن، جو اس وقت گوانگ جو شہر کے جنوب میں واقع میری ٹائم کالج کے طالب علم تھے، کا کہنا تھا کہ ’مظاہرین کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ نیٹو نے اس کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے اس پر معذرت کر لی تھی۔‘

’حکومت یہ اہم خبر ہم سے چھپا رہی تھی۔ انھوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا اس لیے نوجوانوں سمیت سب لوگ غصے میں تھے۔ اس وقت ہم صرف سڑکوں پر جا کر امریکہ کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ان کے کالج کے طلبا کو اپنے کمروں میں رہنے کا کہا گیا لیکن بمباری کے چوبیس گھنٹوں بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کو بتایا کہ انھیں تقریباً تیس ہزار طلبا امریکی سفارتخانہ کے پاس چاہیے۔

ان پر جوش طلبا نے قرعہ اندازی کر کے فیصلہ کیا کہ کون اس احتجاج میں شامل ہو گا۔ منتخب طلبا کو بسوں پر چڑھایا گیا اور انھیں پرچیاں تھمائی گئیں جن پر چند نعرے درج تھے جنھیں سرکاری میڈیا پر نشر کر کے سخت زبان میں پیغام دیا گیا تھا۔

چن نے بتایا ’انھوں نے ہمیں لمبے جملے تھما دیے تھے۔ لیکن مظاہرے میں لمبے جملے بولنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے انھوں نے امریکہ اور نیٹو مخالف نعرے لگانا ہی مناسب سمجھا۔‘

چن، جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں اور یوٹیوب ویڈیوز میں چینی حکومت پر تنقید کرتے ہیں، کا کہنا ہے ’ہم نوجوان غصے سے بھرے تھے اور ہمارے جذبات ایک لہر کی مانند ابھر آئے تھے۔‘

ڈیوڈ رینک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ غصہ جائز تھا۔

’میرے خیال میں یہ چین کے عوام کے ساتھ زیادتی ہو گی اگر میں یہ کہوں کہ ان مظاہروں کے پیچھے حکومت کا ہاتھ تھا۔ وہ غصہ ٹھیک تھا۔‘

سنہ 1990 کے اوائل سے، چین میں ایک متفقہ مہم کے تحت چینی عوام میں وطن پرستی کے جذبات ابھارنے اور ’حُب الوطنی کی تعلیم‘ دینے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

ایک ایسا بیانیہ جو تعلیمی نصاب، یونیورسٹی کے کلاس رومز اور میڈیا پر پیش کیا جا رہا تھا کہ چین ایک عظیم اور پرامن تہذیب کا مالک ہے اور اس کو مغربی طاقتیں شرمسار اور زیر کرنا چاہتی ہیں۔ بلغراد میں سفارت خانے پر بمباری نے اس کہانی کو مزید تقویت بخشی۔

چینی قومیت کے ماہر اور مانچسٹر یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر پیٹر گریس کا کہنا ہے ’میں سمجھتا ہوں کہ جو غصہ چین کے عوام نے محسوس کیا تھا، اس کو تاریخی تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان لوگوں کو معاشرتی طور پر مغرب سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا۔‘

چینی فوج کے سابق کرنل لیو منگفو، جو امریکہ مخالف سخت خیالات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں کا سمجھنا ہے کہ چینی سفارت خانے پر حملہ چند سلسلہ وار واقعات کی ایک کڑی تھا جس نے یہ ثابت کیا کہ امریکہ ’چین کے خلاف ایک نئی سرد جنگ‘ میں داخل ہو چکا ہے۔

انھوں نے کہا ’وہ (حملہ) دانستہ طور پہ کیا گیا تھا۔ وہ ایک بامقصد اور منصوبہ بندی کے تحت کی گئی بمباری تھی، ایک حادثہ بالکل نہیں تھا۔‘

اس حملے کے نیتجے میں امریکہ نے چین کو زرتلافی کی مد میں دو کروڑ اٹھائیس لاکھ ڈالر دیے تھے۔ جن میں سے چین نے تقریباً تین لاکھ ڈالر امریکی سفارتی املاک کو پہنچنے والے نقصان کی مد میں واپس کر دیے۔ تاہم امریکہ نے بمباری کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے ورثا کو مزید 45 لاکھ ڈالر بھی دیے تھے۔

دیوشن جانیکچ جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور یوگوسلاویا میں نسلی مصالحت کے حمایتی ہیں، حملے کے روز بلغراد کے ایک مہنگے ریستوران میں ایک ایسے شخص کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے جنھیں وہ اپنا اچھا دوست سمجھتے تھے۔

رین باؤکائی چینی سفارت خانے میں بطور ملٹری اتاشی کام کرتے تھے۔ جانیکچ کا کہنا ہے وہ حیرت انگیز طور پر ان سے یہ بات کھلے عام کہا کرتے تھے کہ چین، بلغراد کے سفارت خانے سے نیٹو اور امریکی آپریشنز کی جاسوسی کرتا ہے اور اس کے جنگی جہازوں پر نظر رکھتا تھا۔ اتاشی نے انھیں اس رات سفارت خانے میں کھانے پر بلایا تھا کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ انھیں چینی کھانے پسند ہیں۔

جانیکچ نے وہ لمحات یاد کرتے ہوئے کہا ’میں نے ان سے مذاق کرنا شروع کر دیا کہ نہیں میں نہیں آؤں گا کیونکہ آپ لوگوں پر گولے برسنے والے ہیں۔‘

’وہ صرف مذاق کی حد تک یہ بات کر رہے تھے، ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ سفارت خانے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘

لیکن جانیکچ اس رات کھانے پر نا جا سکے، جب میزائل عمارت میں داخل ہوئے تو رین دھماکے کی شدت کے باعث چھت سے جا ٹکرائے اور پھر گولے کی وجہ سے پڑنے والے گڑھے میں گر گئے۔ اگلی صبح انھیں عمارت کے تہہ خانے سے کومے کی حالت میں نکالا گیا۔

حملوں کے پانچ ماہ بعد، اکتوبر1999 کو برطانوی آبزرور اور ڈنمارک کے پولیٹیکن، اخبارات نے لکھا کے ملٹری اتاشی کی نگرانی میں ہونے والی سرگرمیوں کی بدولت شاید امریکہ نے دانستہ طور پر یہ بمباری کی ہو۔

نیٹو کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، ان اخبارات نے لکھا کہ سفارت خانے کو یوگوسلاویہ کی فوجی مواصلات کے نشریاتی مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے سفارت خانے کو ممنوع اہداف کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے ان اخبارات کی کہانیوں کو ’من گھڑت‘ قرار دیاجبکہ برطانوی وزیر خارجہ رابن کوک کا کہنا تھا کہ ان اخبارات کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ’کوئی ثبوت نہیں ہیں۔‘

لیکن دو دہائیوں بعد بھی سنہ 1995 سے 2004 تک بلقان میں پولیٹیکن کے نمائندے جینس ہوسلو اور جان سوینی، جو پہلے آبزرور کے لیے اور اب بی بی سی کے لیے کام کر رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ وہ اپنی خبر پر آج بھی قائم ہیں کہ وہ بمباری دانستہ طور پر کی گئی تھی۔

ہولسو کا کہنا تھا کہ جس بات نے انھیں اس کہانی کی کھوج لگانے پر مجبور کیا وہ یہ تھی کہ سی آئی اے کے چیف جورج ٹینٹ نے کھلے عام ایک بیان میں کہا تھا کہ سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا کہ ہدف سفارت خانہ تھا ’نا کوئی جھنڈے، نا مہر نا ہی کوئی واضح نشان‘ جبکہ حقیقت میں یہ تینوں چیزیں موجود تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کے ایک بہت سینیئر فوجی افسر نے، جو ان کے خبری ذرائع میں سے ایک تھے، تقریباً ریکارڈ پر اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ یہ حملہ دانستہ طور پہ کیا گیا تھا۔

’اس کے بعد وہ اچانک سے پیچھے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ اگر انھوں نے مجھے اس کہانی کے بارے میں مزید کوئی لفظ بھی بتایا تو نا صرف ان کی نوکری جانے کا خطرہ ہے بلکہ وہ کسی سزا کے لیے بھی نامزد ہو سکتے ہیں۔‘

ہولسو کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ بات واضح تھی کہ اس وقت سربیا اور چینی افواج میں تعاون تھا اور انھوں نے ذاتی طور پر فوجی گاڑیوں کو چینی سفارت خانے میں آتے جاتے دیکھا تھا۔ امریکی اہلکاروں نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کے چینی سفارت خانہ یورپ میں جاسوسی کا سب سے اہم مرکز تھا۔

رین باؤکائی اس حملے میں بچ گئے تھے اور بعد میں انھیں جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ انھوں نے بی بی سی کو انٹرویو سے منع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔

چینی سفیر پان زنلن نے، جو اس حملے میں بال بال بچے تھے، اپنی کتاب میں اس بات کی تردید کی ہے کہ سفارت خانے کو نشریات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور چین کو اس کے بدلے میں امریکی سٹیلتھ لڑاکا طیارہ ایف 117 کے حصے دیے گئے تھے جنھیں سرب افواج نے نیٹو جنگ کے ابتدائی مرحلے کے دوران مار گرایا تھا۔

یہ بات عام طور پر مانی جاتی ہے کہ چین کو جہاز کے ٹکڑے مل گئے تھے جن کی مدد سے اس نے اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی پر تحقیق کی ہے۔ اس بارے میں قیاس آرائیاں بھی رہی ہیں کہ چین نیٹو کی فضائی مہم میں سٹیلتھ بمبار طیاروں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔

لیکن اگر یہ ساری کہانیاں سچ بھی ہیں تو سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا امریکہ دانستہ طور پہ چینی سفارت خانے پر حملہ کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟

اس بارے میں یوگوسلاویہ کے سابق فوجی افسران میں بھی اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا۔ ایک سابق فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے نزدیک یہ بمباری دانستہ تھی اور سی آئی اے کی اس سلسلے میں وضاحت مضحکہ خیز تھی۔ لیکن ایک اور سابق کرنل کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہیں۔

نیٹو کے سابق ترجمان جیمی شیا کہتے ہیں ’جب بھی کچھ برا ہوتا ہے ہر کوئی سمجھتا ہے اس کے پیچھے کوئی خفیہ وجہ ہو گی، کوئی حماقت نہیں بلکہ ایک سازش۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک فضول بات ہے، وہ (بمباری) ایک نقشہ پڑھنے میں خطا اور ایک بری غلطی تھی۔‘

اپریل کے آخر میں ایک روشن دن پر درجن بھر تازہ گلدستے یادگار کے ساتھ سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ لیکن شین ہونگ کا پھر بھی ان کی ترتیب تبدیل کرنے کا دل کیا۔ وہ یادگار پر باقاعدگی سے اپنے آنجہانی دوستوں کو یاد کرنے آتے ہے لیکن آج کل بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ وہ وہاں اکیلے ہی ہوں۔

چینی سیاحوں کی بڑی تعداد ہر روز اس یادگار کو دیکھنے آتی ہے اور اب تو چینی فلسفی اور مفکر کنفیوشیس کا مجسمہ بھی وہاں نصب ہے۔

ایک جوان چینی جوڑا، زہینگ اور ہی، بلغراد میں اپنا ہنی مون منانے آیا تھا جب اس نے یادگار پر جانے کا ارادہ کیا۔ ان دونوں کی عمریں اتنی ہی ہیں جتنی یو ینگہو اور زو ینگ کی تھیں جب وہ 1999 میں ہلاک ہوئے تھے۔ ہی نے کہا ’ہمارے تین چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ ہمیں یہ بات بچپن سے معلوم تھی اسی لیے ہم یہاں آئے ہیں۔‘

یینگ، جو کہ تیس سے زائد درمیانی عمر کے چینی سیاحوں کے بلقان میں دو ہفتوں کے دورے کی سربراہی کر رہے تھے کا کہنا تھا کہ چینی سفارت خانے پر رکنا لازم ہے۔

’ہمارا سفارتخانہ امریکیوں نے تباہ کیا، ہر چینی کو اس بات کا علم ہے۔‘

سنہ 1999 میں چین آج کی طرح ایک معاشی، دفاعی اور ٹیکنالوجی میں طاقتور ملک نہیں تھا۔ اس نے اپنی تمام قوتیں معاشی طور پر مستحکم ہونے کی طرف لگا دی تھیں اور اس کی کوئی ظاہری خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ لیکن بیس سال بعد چینیوں کو علم ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بیٹھنے کے قابل ہیں اور دنیا بھر میں ان کے لگائے گئے منصوبے اس بات کی نظیر ہیں۔

بلغراد میں چینی سفارت خانے کی جگہ کو یورپ میں چینی ثقافت کا سب سے بڑا مرکز بنایا جا رہا ہے۔ اس کی علامتی اہمیت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے: ایک ایسی جگہ کو جسے مغرب نے چین کے لیے ایک قومی سانحے اور ذلت کا مقام بنایا تھا اب ایک چمکتی دمکتی عمارت کی شکل میں ڈھالنا جو چین کی شاندار تاریخ کی نظیر ہو۔

یہ اس بات کی علامت ہے کہ بیجنگ کا اُس بمباری کو بھلانے کا کوئی ارادہ نہیں جس نے اسے موقع دیا کہ وہ امریکہ کو ایسی سامراجی حکومت کے طور پر دکھائے جو چین کو نقصان پہنچانے کے در پے ہو۔ وہ سفیر جنھوں نے بیجنگ میں خدمات انجام دی ہیں کہتے ہیں کہ وہ واقعہ آج بھی ان کی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے۔

لیکن وہ لوگ بھی جو سنہ 1999 میں فوری جوابی کارروائی کے حق میں تھے آج یہ سمجھتے ہیں کہ شکر ہے کہ چین کا ردِعمل قابو سے باہر نہیں ہوا۔

اس حملے کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کسی امریکی جان کا ضیاع نہیں ہوا اور معاوضے کے معاہدے کی وجہ سے چین نے چھوٹی ہی سہی مگر اپنی حدود طے کر لی تھیں۔

شین کا کہنا ہے ’ہم دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرے والی معیشت تھے، ہر سال ہماری معیشت 10 فیصد سے زیادہ کی ترقی کر رہی تھی اور اگر ہم نے اسں وقت اس ترقی کو جنگ کے باعث روکا ہوتا، تو ہم بہت کچھ کھو چکے ہوتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’فطری اعتبار سے میں ایک انتہا پسند ہوں۔ میں ہمیشہ سے بات چیت سے زیادہ جنگ کا حامی رہا ہوں۔ لیکن جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے اچھا کیا کیونکہ اب ہم امریکہ کے ساتھ برابری میں بیٹھنے کے قابل ہوئے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp