نواز شریف سے عمران خان نے کتنا بڑا لفافہ پکڑا؟


آ گیا جی اونٹ پہاڑ کے نیچے؟ یہ حال ہوتا ہے، جب جذبات اور شوخی عقل کو الوداع کہہ دیں۔ جب بڑے بول اس آدمی ہی کے گلے پڑتے ہیں جو انہیں بول کر تکبر کرتا ہے۔ یاد ہے امیر قطر پاکستان کے دورے پر آیا تھا اور عمران خان صاحب سے ملاقات میں اس نے کچھ کہا تھا، اس کا جواب خان صاحب نے عوام میں دیا تھا کہ یہ ( نواز شریف) چاہے جس بادشاہ کے گھٹنے پکڑ لیں، میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ کل اسی امیر قطر کا جہاز آیا تھا اور خان صاحب چھٹی پر تھے۔

کمال کی سیاست ہے کہ کوئی درست قدم بھی اٹھائیں تو اس بے ہودگی سے اٹھاتے ہیں کہ نیکی گلے پڑ جاتی ہے۔ ایک طرف نواز شریف کو جانے کی ” اجازت ” دینا پڑی، دوسری طرف شور مچا رہے ہیں کہ نواز شریف نے ڈیل کر لی اور بھاگ گیا۔ ان کو یہ بھی عقل نہیں کہ ایسا کہہ کر یہ اپنے ہی لیڈر کی بے عزتی اور اسے جھوٹا بنا رہے ہیں۔ اپنی ہی پنجاب حکومت کی وزیر صحت کو جھوٹا بنا رہے ہیں جو بار بار پریس کانفرنس میں بتا رہی تھی کہ نواز شریف بہت بیمار ہیں۔ یہ عقل کے اندھے جاہل میزائیل آج خود اپنی پارٹی پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ گالیوں اور الزام تراشی کی سیاست وقتی طور پر تو بڑا مزا دیتی ہے کہ اس میں سب دوسرے برے، کرپٹ اور ڈاکو بنتے ہیں یا پھر جھوٹے لفافے۔ مصیبت یہ ہوتی ہے کہ جب ذمہ داری سر پہ پڑتی ہے اور نالائقی، گالیوں کے سوا اثاثہ ہوتا ہی کچھ نہیں پھر چوں چاں اور آئیں بائیں شائیں۔

اب اگر ان جہالت کے میزائلوں کی بات مانیں کہ نواز شریف بیماری کا ڈرامہ کر رہا ہے تو پھر خان نے اسے باہر جانے کی اجازت دینے کے کتنے پیسے پکڑے ہیں؟ اگر اس نے اجازت نہیں دی اور دباؤ میں جھک گیا ہے تو کیوں کہا تھا کہ “بکتا یا جھکتا نہیں ہوں”۔ پھر یہ بھی بتانا ہو گا کہ جھکایا کس نے؟ اگر جھکے ہو یا بلیک میل ہو گئے ہو تو بتاؤ کس نے کیا؟ چھوڑو اس حکومت کو اور عوام کے ساتھ کھڑے ہو جاو۔ یہ ہی نعرے تھے نہ کہ میں کرپٹ اور بے غیرت نہیں کہ جھک جاؤں۔ آج پھر کیا ہوا؟ اب کرپٹ مانیں یا بے غیرت مان لیں۔ یہ خان صاحب فرماتے تھے نا کہ میں ایسی حکومت پر لعنت بھیجوں گا جس کو میں خود نہ چلا سکوں۔ ایسا ہی کچھ پرویز مشرف بھی کہتا تھا ” میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں” آج کل کہاں ہوتے ہیں؟

ایک طرف خان صاحب نے فرمایا ” کابینہ تو خلاف تھی، میں نے رحم کیا ” دوسری طرف تقریر ہے کہ ججوں کو چاہیے انصاف پر عوام کا اعتماد بحال کریں” آج اس کا جواب چیف جسٹس کھوسہ نے دے دیا کہ اجازت آپ نے دی ہے، ہم پر الزام کیوں لگاتے ہو؟ ذرا دھیان کرو”۔ ایک قاری نے خان صاحب کے رحم والی بات پر کمال کا تبصرہ کیا کہ ” کیا لوٹی ہوئی دولت تمہارے باپ کی تھی کہ تم نے رحم کیا اور معاف کر دیا ” کچھ ایسا ہی خان صاحب فرماتے تھے نا؟ اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔

جہالت کے میزائلوں کی اس عجیب و غریب فصل پر مجھے پہلے ترس آتا تھا، اب وہ بھی نہیں آتا۔ یہ وہ ظالم مسخرے ہیں جو پہلے کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اڑاتے تھے، جنازے نے بھی ان کو شرمندہ نہیں کیا۔ تمام اداروں کی بے مثال سپورٹ کے باوجود کوئی کام انہوں نے کر کے نہیں دکھایا، دوسرے کا شاہد خاقان اور شہباز شریف بھی ڈاکو بتاتے تھے اور اپنا عثمان بزدار اور زلفی بخاری بھی زندہ باد کرتے ہیں۔ اب ان سے سوال ہے کہ بتاؤ اگر تو نواز شریف کرپٹ ہے تو ثبوت کہاں ہیں؟ مان لو کہ تم نالائق ہو، اگر نہیں ماننا اور نواز شریف واقعی بیمار ہے اور عمران خان نے کہا کہ اسے رحم آ گیا تو یہ سہولت سب قیدیوں کے لئے کیوں نہیں جبکہ تمہارا نعرہ تھا دو نہیں ایک پاکستان، اس کا جواب یہ گالی سے دیں گے۔ کیونکہ کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔

کل گزارش کی تھی کہ اب خان کے قدم اکھڑ چکے ہیں، ایک ایک کر کے اس کے ساتھی اسے چھوڑتے جائیں گے۔ آج یوسف بیگ مرزا نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ فواد چوہدری بار بار حیلے بہانوں سے بتا رہا ہے کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت کی شرط سے وہ اتفاق نہیں کرتا۔ مطلب وہ آئندہ کے سیٹ اپ میں ابھی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے، کیا کسی کو اس پر حیرت ہونی چائیے؟ نیب کے چیئرمین کو بھی کچھ پرانے حساب یاد آ چکے ہیں آج انہوں نے بھی فرما دیا کہ ہوا بدل چکی۔

جب آپ کے پٹارے میں کچھ تھا ہی نہیں تو یہ ہی ہونا تھا۔ کوئی ہوم ورک نہیں کوئی سنجیدگی نہیں، کوئی وقار، کوئی متانت نہیں کچھ بھی تو نہیں، پھر تسبیح کا ڈرامہ، چلے، جادو گریاں، روحانی یونیورسٹیاں، مذہبی رنگ بازیاں۔ کمال ہے ہماری منافقت، یہاں پہلے ہر کوئی ننگے ناچ ناچتا ہے، پھر راتوں رات تبلیغی بن کر ہمیں اسلام سکھانے لگتا ہے۔ یہ ہماری مستقل منافقت ہے اس کا ضیاء الحق سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ جہالت اور منافقت کے ان میزائلوں کی نئی فصل عمران خان کے کھاتے میں جائے گی کہ یہ اس کا بویا ہوا کلچر ہے۔ ایک طرف مغربی اور دیسی حسیناؤں کے ساتھ دوستی کی فخریہ داستانیں، دوسری طرف ہاتھوں میں تسبیح اور جادو ٹونا۔ اپنے بچے لندن میں، دوسرے کے بچے کی اردو کا مذاق اڑانا بلکہ نقل اتارنا۔ دوسرا کرے تو منافقت خود کے لئے یو ٹرن کی اصطلاح۔ سادگی کی باتیں اور روز ہیلی کاپٹر پر سفر۔ عمران خان نے منافقت اور جہالت کے جن میزائلوں کو بنایا تھا آج وہ خود اس پر حملہ آور ہو چکے ہیں، اب یہ ایک دوسرے کو نوچیں گے۔ ہم تماشا دیکھیں گے کہ ہم ویسے بھی تماش بین قوم ہیں۔

اب ہم سب مل کےموجودہ مسیحا کو تمام برائیوں کی جڑ بتائیں گے اور پھر سے ایک نیا مسیحا تراش لیں گے، پھر اس کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ جو جتنی قوت سے خان کی وکالت کرتا تھا وہ اتنی ہی بے غیرتی سے اسے گالی دے گا، اور نئے مسیحا کی تعریف کرے گا، ہم پھر سے ایک نئے دائرے میں گم ہو جائیں گے یہاں تک کہ تاریخ کے دائرے میں بھی ایک دن گم شدہ قرار پائیں گے۔

لازم ہے کہ اب جہالت کے میزائلوں کو آگ لگا کر پوچھا جائے کہ بتاؤ،

کہاں گیا وہ چینی فلسفہ کہ لیڈر ٹھیک ہو تو نیچے سب خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے؟

کہاں گیا وہ دعویٰ کہ سب چور ڈاکو مل بھی جائیں تو بھی نہیں چھوڑوں گا؟

کہاں گیا وہ تکبر کہ مجھے کوئی جھکا نہیں سکتا؟ این آر او نہیں دوں گا؟

 نواز شریف سب سے بڑا چور ہے، جسے مشرف نے بھگا دیا؟

زرداری، نواز ملے ہوئے ہیں؟

اب اگر بلاول کہے کہ خان اور نواز لاہوری ہونے کی وجہ سے ملے ہوئے ہیں تو کیا جواب دیں گے؟

اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ اگر نواز شریف جس نے خود گرفتاری دی کو خان ایک سال سے زائد جیل میں رکھ کر پھوٹی کوڑی کی کرپشن ثابت نہ کر سکا جو اس کی زندگی کا واحد مقصد معلوم پڑتا تھا تو اس شخص سے آئندہ کس کامیابی کی امید ہو سکتی ہے؟ یا تو مانیں نواز کرپٹ نہیں تھا اس لئے آپ نے ” رحم کیا “، اگر کرپٹ تھا تو پھر ثابت کیوں نہ کر سکے۔ ورنہ آپ کی شعوری سطح پر بہت نیچے گر کر سوچیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا لفافہ پکڑ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).