نواز شریف نے عمران خان کو کیسے مات دی؟


اگر نواز شریف کی لندن روانگی کو مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلے کا پہلا راؤنڈ قرار دیا جائے تو نواز شریف یہ مقابلہ شاندار طریقے سے جیت چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے کسی اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا، حکومت کی کوئی شرط قبول نہیں کی اور کسی قسم کی ضمانت فراہم نہیں کی لیکن پھر بھی ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے۔

 ایک پراسرار بیماری کی وجہ سے شدید علیل ہونے کے باوجود نواز شریف نے شورٹی بانڈ دینے کا حکومتی مطابہ ماننے سے انکار کیا۔ حکومت اس طرح انہیں سیاسی لحاظ سے کرپشن کا ذمہ دار ثابت کرنا چاہتی تھی۔ انہوں نے حکومت کے سیاسی ہتھکنڈے کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن عدالت سے ریلیف لینے کو ترجیح دی۔ عمران خان اور ان کے طبلچی خوہ اسے شریف خاندان کی کنجوسی قرار دے کر دل ٹھنڈا کریں لیکن ایک ایسے سیاسی لیڈر کے طور پر جس کی کریڈیبلیٹی داؤ پر لگی تھی، ان کے لئے یہی واحد باعزت اور سیاسی لحاظ سے مناسب راستہ تھا۔ صرف اس ایک فیصلہ سے نواز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ وہ تمام تر دباؤ اور مشکلات کے باوجود نہ صرف پاکستان کی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لئے پرعزم ہیں بلکہ عوامی حاکمیت اور پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کے بیانیہ پر بھی قائم ہیں۔ یہی رویہ عمران خان اور تحریک انصاف کےعلاوہ ان حلقوں کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہونا چاہئے جنہوں نے منصوبہ پاکستان کی تکمیل کے لئے سارے انڈے عمران خان نامی ٹوکری میں رکھنے کی غلطی کی تھی۔

اس کے برعکس اس بارے میں عمران خان کے طرز عمل کا مشاہدہ کیا جائے تو انہوں نے ایک سادہ اور انسانی مسئلہ کو ذاتی انتقام اور عناد کا سوال بنا کر سیاسی لیڈر کے طور پر اپنی غیر حقیقی حکمت عملی اور زمینی حقائق سے نابلد ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ایک بار یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ نواز شریف شدید بیمار ہیں اور پاکستانی ڈاکٹر علاج تو درکنار ان کے عارضے کی تشخیص کرنے سے بھی قاصر ہیں، عمران خان کو بطور وزیراعظم اپنے سیاسی مدمقابل کے لئے بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ وہ دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن نواز شریف کی روانگی میں رکاوٹ بن کر انہوں نے دراصل اسی خوف کامظاہرہ کیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنے اس ووٹر کو کیا منہ دکھائیں گے ۔

ان ووٹروں کو شدید معاشی مسائل سے دوچار کرکے صرف اس لولی پاپ پر خوش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ملک کا قانون سب کے لئے برابر ہوگا اور نواز شریف و آصف زرداری کے ائیرکنڈیشنڈ اتروا لئے جائیں گے اور انہیں عام قیدیوں کو ملنے والا کھانا دیا جائے گا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ لاہور ائیرپورٹ سے نوازشریف کی شاہانہ انداز میں روانگی عمران خان کے ان نعروں کو خود ان کے لئے ایک بھیانک خوب بنا چکی ہے۔ وہ جتنا زور سےچاہیں ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کا نعرہ بلند کریں، اب تو ان کے شدید حامی بھی اس نعرے کی صداقت پر اعتبار نہیں کریں گے۔

نواز شریف نے استقامت اور اصول پرستی کی وجہ سے یہ راؤنڈ جیتا ہے۔ عمران خان اپنی بلند آہنگی اور انسانی ہمدردی کے معیار سے گرنے کی وجہ سے اس راؤنڈ میں ناکام رہے ہیں۔ اگر یہ طے ہوگیا تھا کہ نواز شریف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی ضرورت ہے تو عمران خان فوری طور اس علاج کو ممکن بنانے میں معاون ہوکر اپنے سیاسی حریف کی مدد کرتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت اور انسان دوستی کا تاثرقائم کرسکتے تھے۔ اگر وہ ووٹروں اور بے بنیاد نعروں سے گمراہ کئے گئے حامیوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے قائدانہ صلاحیت کےحامل ہوتے تو وہ انہیں بتاتے کہ جنگ میں بھی زخمی دشمن سے مقابلہ نہیں کیا جاتا، یہ تو پھر سیاسی مقابلہ تھا۔ عمران خان یہ بھی بھول گئے کہ 2013 کی انتخابی مہم میں وہ جب اسٹیج سے گر کر زخمی ہوگئے تھے تو نواز شریف اپنی انتخابی مہم معطل کرکے ان کی تیمار داری کے لئے ہسپتال آئے تھے۔

عمران خان کو تو بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر بھی تعزیت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی اورنہ ہی انہوں نے نواز شریف کی بیماری پر ان کی خیریت پوچھنے کی زحمت کی۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر نواز شریف کرپشن کےالزامات کی وجہ سے اس قدر قابل نفرت ہیں کہ ان سے بات تک کرنا بھی عمران خان کے شفافیت اور ایمانداری کے اصول سےمتصادم ہے تو جب وہ خود علیل تھے تو نواز شریف سے ملاقات پر کیوں راضی ہوگئے تھے؟ یا 2013 میں منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں کیوں نواز شریف سے خوشامدانہ انکساری سے مصافحہ کررہے تھے، جس کی تصویر اب بھی انٹرنیٹ پر اس سچ کی چغلی کھاتی ہے کہ عمران اصول نہیں عناد کی سیاست کررہے ہیں۔

اب یہ واضح ہورہا ہے کہ عمران خان ، نواز شریف سے ان کی کرپشن کی وجہ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہیں۔ ورنہ نواز شریف سمیت سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزامات کا نعرہ توعمران خان گزشتہ دو دہائیوں سے بلند کرتے رہے ہیں۔ اور اقتدار تک رسائی میں عسکری قیادت کی مناسب اورفیصلہ کن حمایت حاصل ہونے سے پہلے وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ پر بھی الزام تراشی سے گریز نہیں کرتے تھے۔ البتہ اب ایک پیج کی کرامت سے ان کا سارا غصہ سیاست دانوں پر اترتا ہے۔ دو روز پہلے ہزارہ موٹر وے فیز 2 کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نےمولانا فضل الرحمان کی عاقبت کی فکر کی ہے۔ اپنے سیاسی مفاد کے لئے مسلسل فریب دیتے ہوئے انہیں خود بھی سوچنا چاہئے کہ یوم حساب تو سب کے لئے برپا ہوگا۔ ایسے میں دوسروں کے اعمال کا حساب کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ ہر کوئی اپنے اپنے نامہ اعمال کی فکر کرے۔

عمران خان کا یہ نعرہ بھی سراسر سیاسی شعبدہ بازی اور جھوٹ پر استوار ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہو۔ عمران خان کا سیاسی نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ہزاروں دوسرے مریض جیلوں میں مرتے رہے ہیں تو نواز شریف ، آصف زرداری اور دیگر مخالفین کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرناہوگا۔ حالانکہ اس کے برعکس اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر ایک شخص کو بہتر سہولت مل سکتی ہے تو باقی کے لئے بھی اس کا اہتمام ہونا چاہئے۔ عمران خان مساوات کی بات کرتے ہیں لیکن کیا وہ دیانت داری سے بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے جو زندگی گزاری ہے یا جو زندگی وہ گزار رہے ہیں کیا انہیں اس میں اس نام نہاد مساوات کا شائبہ بھی دکھائی دیتاہے؟ جس مدینہ ریاست کی بات کرکے وہ اپنے ووٹر کو رجھاتے اور ملک میں ایک خوفناک مذہبی جنونیت پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں کیا اس میں خلیفہ اور عام شہری کی بود وباش میں اتنا ہی تفاوت موجود تھا جو خود ان کے طرز زندگی اور عام پاکستانی کی زندگی میں دیکھا جاسکتا ہے؟

اس اصول سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں قانون ضرور سب کے لئے برابرہونا چاہئے لیکن اس کی گرفت میں سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو آنا چاہئے۔ نواز شریف اگر اقامہ پر صادق وامین نہیں رہے اور وزارت عظمی سے نکالے گئے تو جہانگیر ترین بھی اسی سپریم کورٹ سے جھوٹے اور بے ایمان قرار دیے جاچکے ہیں۔ ان کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کے دروازے اور اقتدار کی راہداریاں کھول کر عمران خان دراصل قانونی مساوات کا نہیں، قانون سےتخصیص کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جہانگیر ترین بھی اسی طرح ایک عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں صادق و امین نہیں ہیں جیسے نواز شریف نہیں رہے۔ عمران خان کےنزدیک ایک فیصلہ انصاف دوسرا ناانصافی ہے۔ اس رویہ سے وہ در حقیقت عدالتی نظام کو تابع فرمان کرنے کی خواہش کا اظہار ہی نہیں کرتےبلکہ ریاست مدینہ کے اس تصور کی توہین بھی کرتے ہیں جہاں خلیفہ کو بھی قاضی کے حکم پر انگشت نمائی کا حق نہیں تھا۔

بہتر ہوتا عمران خان سیاست کے اطوار طریقے سیکھتے۔ مخالفین کو عزت دیتے تاکہ وہ خود عزت و احترام کے حق دار ٹھہرتے۔ تمام عمر زندگی کی سب لذتوں اور لطافتوں سے فیض یاب ہونے کے بعد بڑھاپے میں جزا و سزا کا وعظ انہیں زیب نہیں دیتا۔ انسان کو وہی کام کرنا چاہئے جو اسے آتا ہو۔ نواز شریف نےعمران خان کو سبق سکھایا ہے کہ سیاست میں وہ ابھی طفل مکتب ہیں لیکن عمران خان سیاسی مدرسہ کے مہتمم ہونے پر اصرارکرتے ہیں۔ وہ یہ طرز عمل تبدیل نہ کر سکے تو لوگ ان کی حالت زار پر ہنسنے کی بجائے رویا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali