پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا ورلڈ ٹیسٹ سیریز: اظہر اور مصباح کی شراکت کیا رنگ لائے گی؟


کرکٹ

آسٹریلیا میں ٹیسٹ جیتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ ایسا کارِ دشوار ہے کہ 1995 سے لے کر اب تک کوئی پاکستانی ٹیم یہ انجام نہ دے پائی۔

اس بیچ کتنے ہی لیجنڈز پاکستان کے لیے کھیلے۔ سعید انور، محمد یوسف، اعجاز احمد، وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شعیب اختر اور جانے کون کون اپنی سی کوشش کر کے تھک ہار بیٹھے مگر آسٹریلوی سر زمین پہ جیت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔

پچھلی بار جب پاکستان آسٹریلیا کے دورے پہ گیا تھا تو وہ پاکستان کے لیے سیریز جیتنے کا نادر موقع تھا۔ سٹیو سمتھ کی قائدانہ صلاحیتیں زیرِ عتاب تھیں۔ وہ ہوم گراؤنڈز پہ بمشکل جنوبی افریقہ سے کلین سویپ ہوتے ہوتے بچے تھے اور ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ جاری تھی۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف تین میچز سے پہلے پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ کھیلنا پڑ گئے اور ظاہر ہے ہارنا بھی پڑے۔

اس بار معاملہ مختلف یوں ہے کہ ٹیسٹ ٹیم سال کے بیشتر حصے میں انٹرنیشنل منظرنامے سے دور رہی ہے اور جب بہت عرصے بعد شان مسعود، اظہر علی اور اسد شفیق کو ایکشن میں آنے کا موقع ملے گا تو یقیناً پرفارمنس کی بھوک بھی ہو گی۔

مزید پڑھیے

آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ ہرانے کے لیے پاکستان کیا کرے؟

‘پاکستان بھی ہارنا نہیں چاہتا تھا’

سٹیو سمتھ نے خود کو کتنا بدل لیا!

دوسری جانب بولنگ اٹیک کے سرخیل محمد عباس بھی اپنی حیثیت ثابت کرنے کو بے تاب ہوں گے۔ اب جبکہ نسیم شاہ جیسا جواں سال ٹیلنٹ دروازے پہ دستک دے رہا ہے تو سینیئر بولرز پہ بھی ذمہ داری کا بوجھ بڑھے گا۔

یہ سبھی پہلو اپنی جگہ نہایت خوش آئند ہیں مگر سٹیو سمتھ کی فارم ایک ایسا معمہ ہے کہ پانچ میچز پہ محیط ایشز سیریز میں اعلیٰ درجے کے انگلش بولرز بھی کوئی ایسا توڑ نہ نکال پائے کہ سمتھ کسی ایک جگہ بھی گھبرائے نظر آتے۔

جبھی دو روز پہلے مصباح الحق کہہ رہے تھے کہ ان کے بولرز سمتھ کے ’بلائنڈ سپاٹ‘ کو ہٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بلائنڈ سپاٹ ہر بیٹسمین کا ہوتا ہے اور ہر بلے باز اس سے بچ بچا کر ہی کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستانی ٹیم

لیکن اس بلائنڈ سپاٹ کو ہٹ کرنے کے لیے ایک خاص طرح کا ڈسپلن درکار ہوتا ہے جسے برقرار رکھنا خاصا دقیق کام ہے۔ آسٹریلوی کنڈیشنز ہوں تو پاکستانی بولنگ کے لیے یہ کام اور دشوار ہو جاتا ہے۔

پچھلے چوبیس سال میں پاکستان نے آسٹریلیا کے جتنے دورے کیے، پیسرز کے اعدادوشمار ان کی نہایت خستہ تصویر پیش کرتے ہیں۔

مگر وقار یونس پُرامید ہیں کہ یہ نیا بولنگ لائن اپ آسٹریلوی کنڈیشنز میں بہتر پرفارم کرے گی۔ ان کا یہ تخمینہ تین روزہ وارم اپ میچ کی اس پرفارمنس پہ مبنی ہے جہاں پاکستان نے 57 رنز کے عوض آسٹریلیا اے کے نو کھلاڑی پویلین بھیج دیے۔ کیا نوجوان بولر انٹرنیشنل میچ میں بھی وہی فارم برقرار رکھ پائیں گے؟

مگر امتحان یہاں صرف سٹیو سمتھ کی فارم اور پاکستانی بولنگ کے ‘سرپرائز فیکٹر’ کا ہی نہیں، پاکستان کی بیٹنگ کا بھی ہو گا۔ دیکھنا ہو گا کہ اظہر علی، حارث سہیل، اسد شفیق اور بابر اعظم اب سٹارک، ہیزل وڈ اور پیٹ کمنز کے اٹیک کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں یہ پاکستان کی پہلی سیریز ہے اور اس سیریز کی پرفارمنس پاکستان کی نئی ٹیسٹ ٹیم کا رخ متعین کرے گی۔ مصباح اور وقار یونس کے لیے بھی موقع ہے کہ جو کام وہ اپنے ‘پلئینگ کرئیر’ میں نہ کر پائے، اپنے کوچنگ کرئیر میں ہی کر ڈالیں۔

پاکستان کی نئی ٹی ٹونٹی ٹیم کا پہلا پراجیکٹ تو بری طرح ناکام رہا۔ اب موقع ٹیسٹ ٹیم کے ہاتھ آیا ہے کہ وہ اس نئے سیٹ اپ کی افادیت کو ثابت کر سکے۔ اظہر علی اور مصباح کی شراکت ہمیشہ پاکستان کے لیے سودمند رہی ہے۔ اب دیکھیے نئی ذمہ داریوں میں وہ پرانے تجربے کو کیسے بروئے کار لاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp