خارجہ پالیسی کا شدید بحران
مقام حیرت ہے کہ جو بات نیشنل اسمبلی کے فلور پر سینیٹر فرحت اللہ بابر, اعتزاز احسن, اچکزئی صاحب اور رانا افضل کر چکے ہیں اگر وہ ہی بات قومی سلامتی کی میٹنگ سے لیک ہوگئی ہے تو کون سا آسمان گر پڑا ہے۔ کیا ہماری قومی سلامتی صرف یہ خبر لیک ہونے کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی ہے، اسامہ بن لادن جب ہمارے گھر سے برآمد ہوا تھا اس وقت قومی سلامتی کہاں تھی؟ جب ملا عمر اور ملا منصور ہماری سرزمین سے ہی دریافت ہوے، اس وقت قومی سلامتی کی کتنی توقیر ہوئی تھی۔ صرف ایک خبر کا سہارا لے کر منتخب حکومت کو دیوار سے لگانے کی پالیسی چھوڑ دینی چاہیے۔ ویسے بھی نواز شریف کے پاس اب دینے کو کچھ رہ نہیں گیا سوائے استعفی دینے کے۔ اگر ایسا ہوگا تو یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا اور اس کے بہت بھیانک نتایج نکلیں گے۔ خدارا ہمیں اپنے ملک کو چلنے دینا چاہیے۔
ہماری ہییت مقتدرہ کو ان عوامل پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ہم عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔ چار عشروں سے جاری قومی سلامتی کی پالیسی نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کیا 60 یا 70 ہزار جانیں ہماری غلط پالیسی کی نذر نہیں ہو گئیں اور کتنی نسلوں کو یہ قرض ادا کرنا ہوگا۔ یاد رکھیں دہشت گرد اچھے اور برے نہیں ہوتے۔ وہ صرف دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ضرب عضب کی مکمّل کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب بلا امتیاز تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ہماری کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہونے کی بجائے ان پر اتراتے ہیں۔ کشمیر پر ہمارا موقف کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ ہم متنازعہ جہادی گروپوں کی سرپرستی سے باز نہیں آجاتے مولانا مسعود اظہر کو کب تک چین کا ویٹو بچاے گا ہمارےیہ قیمتی اثاثے جن کو دنیا دہشت گردی کے حوالے سے جانتی ہے ہمارےگلے کا ہار بن چکے ہیں ان سے چھٹکارا پانا وقت کی آواز ہے۔ آج روس اور ہندوستان نے گوا میں بریکس کانفرنس کے موقع پر (یاد رہے کہ ہندوستان اس اہم کانفرنس کا میزبان بھی ہے) 16 معاہدات پر دستخط کیے ہیں اور کراس بارڈر دہشت گردی پر دونوں ملکوں کا موقف ایک ہے۔ دہشت گردی سے نپٹنے کیلیے بین الاقوامی سطح پر ایک متفقہ بیانیہ موجود ہے دنیا چاہتی ہے کے ہم اس پر شرح صدر سے عمل کریں۔ آج تو چین کا ویٹو مسعود اظہر کو بچانے کیلیے استعمال ہو رہا ہے۔ خدانخواستہ ایسا وقت نہ آجاے کہ ہمارےان اثاثوں کی وجہ سے ہماری ریاست پر حرف آئے۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر تحریک آزادی برپا ہے، مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہماری اخلاقی اور سفارتی مدد چاہتے ہیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہمارا دامن دہشت گردی کے دھبوں سے صاف ہو اور دنیا ہم پر اعتبار کرے۔
گزشتہ 3 ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں حالات کس قدر کشیدہ ہیں۔ مودی کی ظالمانہ حکمت عملی نے وادی میں قیامت برپا کر رکھی ہے پیلٹ گنز کے بہیمانہ استعمال سے سینکڑوں نوجوان اندھے ہوچکے ہیں۔ ایک سو سے زیادہ شہادتیں ہو چکی ہیں۔ پچھلے 3 مہینے سے کرفیو نافذ ہے۔ مودی سرکار نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ ہندوستان کی افواج نے نہتے کشمیریوں پر لشکرکشی کررکھی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریّت کو شرم آنی چاہیے۔ کشمیر کے لوگ دہشت گرد نہیں ہیں، وہ صرف اپنا حق خودارادیت مانگ رہے ہیں۔
لمحہ فکریہ ہے کہ اتنے سنگین ظلم اور استبداد کے باوجود ہندوستان کا موقف عالمی طور پر تسلیم کیا گیا ہے جبکہ پاکستان آج عالمی تنہائی کا شکار نظر اتا ہے۔ امریکا سے لے کر یورپ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے خارجہ پالیسی کی اتنی بڑی ناکامی اور پھر بھی ہمیں مفروضہ اثاثے بچانے کی فکر ہے، ملک بچانے کی نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مقتدر قوتیں سول بالادستی کو قبول کریں۔ جن کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے، ان کو وہی کرنا چاہیے، ریاست کے اندر ریاست نہیں چل سکتی۔۔
ملک زادہ منظور کے خوبصورت اشعار کے ساتھ اجازت!
اب خون کو مے، قلب کو پیمانہ کہا جاے
اس دور میں مقتل کو بھی مے خانہ کہا جاے
جو بات کہی جاے وہ تیور سے کہی جاے
جو شعر کہا جاے، وہ حریفانہ کہا جاے
ہم صبح بہاراں کی تمازت سے جلے ہیں
ہم سے گل و شبنم کا نہ افسانہ کہا جاے
- خارجہ پالیسی کا شدید بحران - 16/10/2016
- ہم سب والوں کے نام غیرتجریدی خط - 09/08/2016
- خوفزدہ لوگ اور جشن آزادی ! - 08/08/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).