کیا انڈیا کا مالیاتی نظام سائبر حملوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟


انڈیا روپے

گذشتہ ماہ انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ہندوستان کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ کوڈنکولم میں ہونے والے سائبر حملے شہ سرخیوں میں رہے۔

اس خبر کے پھیلنے کے بعد یہ بات زیر بحث آ‏‏ئی ہے کہ کیا انڈیا کسی بھی سائبر حملے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور کیا وہ اپنے اہم انفراسٹرکچر کو نقصان دہ ڈیجیٹل حملوں سے بچا سکتا ہے؟

اس بحث نے ایک اور بڑے مسئلے کو ہوا دی ہے کہ آیا ہندوستان ڈیبٹ کارڈ ہیکر اور دیگر مالی دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے تیار ہے کیوں کہ یہ انڈیا کے کروڑوں شہریوں کا مسئلہ ہے۔

گذشتہ ماہ ریزرو بینک آف انڈیا نے بینکوں کے لیے ایک انتباہ جاری کیا تھا۔ یہ انتباہ سنگاپور میں قائم سائبر سکیورٹی کمپنی گروپ کی ایک وارننگ کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 12 لاکھ ڈیبٹ کارڈز کی تفصیلات آن لائن دستیاب ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان اور انڈیا کی سائبر دنیا میں دوستی

ایران پر سائبر حملہ، ہنگامی اجلاس منعقد

’سائبر حملے کا توڑ صرف ایک فائل‘

گذشتہ سال ہیکرز نے پونے کے کاسمو بینک اکاؤنٹس سے 90 کروڑ روپے دھوکے سے نکال لیے تھے اور انھوں نے یہ کام بینک کے ڈیٹا فراہم کرنے والوں پر سائبر حملے کے ذریعے انجام دیا تھا۔

کارڈ

سائبر حملوں کا کتنا خطرہ؟

سائبر انیشی ایٹو آف دا آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ ارون سوکمار نے بی بی سی کو بتایا: انڈیا کے مالیاتی نظام پر حملہ کرنا آسان ہے کیونکہ ہم اب بھی لین دین کے لیے سوئفٹ جیسے بین الاقوامی بینکاری نیٹ ورک پر انحصار کرتے ہیں۔ بین الاقوامی گیٹ ویز کی وجہ سے حملہ کرنا آسان ہے۔‘

سائبر سکیورٹی کمپنی سائمن ٹیک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر حملوں کے تین اہم اہداف میں سے انڈیا ایک ہے۔

تاہم کہا جاتا ہے کہ انڈیا کی بڑی ڈیجیٹل آبادی کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہو گی۔ ہر ماہ فرانس جتنی آبادی انڈیا میں کمپیوٹر سے منسلک ہو رہی ہے اور یہی سب سے بڑی تشویش ہے کیونکہ پہلی بار انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے کہا جا رہا ہے۔

مثال کے طور پر نومبر 2016 میں انڈیا کی حکومت نے اچانک 500 روپے اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی عائد کر دی جو ملک میں کل رقم کا 80 فیصد تھا۔ متبادل کے طور پر وزیراعظم نریندر مودی نے ڈیجیٹل ادائیگی کو کافی حد تک فروغ دیا۔

اب خواہ وہ انڈین ادائیگی کا پلیٹ فارم پیٹ ایم ہو یا بین الاقوامی پلیٹ فارم گوگل، دونوں کا کاروبار انڈیا میں کافی بڑھ گیا ہے۔ کریڈٹ سوئس کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 تک انڈیا میں موبائل سے ادائیگی ایک کھرب ڈالر تک ہونے لگے گی۔ کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کا استعمال بھی بہت مقبول ہے۔ فی الحال انڈیا میں تقریبا 90 کروڑ کارڈ استعمال ہو رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے ماہر پرشانتو رائے نے بی بی سی کو بتایا: ’ہندوستان میں انٹرنیٹ کا استعمال بہت سے نئے لوگ کر رہے ہیں۔ ان کی آبادی 30 کروڑ سے زیادہ ہے۔ وہ متوسط یا نچلے طبقے کے لوگ ہیں جن کی ڈیجیٹل سمجھ بہت کم ہے۔ ان میں مختلف ریاستوں میں روزانہ مزدوری کرنے والے مزدور ہیں جو اس کی زبان نہیں سمجھتے۔ ان کے ساتھ دھوکہ دہی کا بہت امکان ہے۔‘

اس کے علاوہ پرشانتو رائے نے ایک اور مسئلے کی طرف بھی اشارہ کیا: ’دوسری بات یہ ہے کہ بینکوں کی دھوکہ دہی کے بارے میں بہت کم اطلاع دی جارہی ہے، کئی بار صارفین نہیں جانتے کہ کیا ہوا؟

مشین

کس طرح کا فریب ہو رہا ہے؟

انڈیا میں مالی دھوکہ دہی کئی طرح سے ہوتی ہے۔ کچھ ہیکرز اے ٹی ایم مشینوں میں سکیمرز یا کی بورڈ کیمرہ لگا دیتے ہیں۔ اس کے ذریعے بغیر کسی شبے کے آپ کے کارڈ کی نقل تیار ہو جاتی ہے۔ جبکہ بعض ہیکرز آپ کو کال کرتے ہیں اور آپ سے دھوکے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پرشانتو رائے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: انڈیا میں ڈیجیٹل لین دین کا عمل دھندلا اور الجھا ہوا ہے۔ اصل دنیا میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون پیسہ لے رہا ہے اور کون ادا کررہا ہے لیکن موبائل کی ادائیگی کے پلیٹ فارم میں یہ ہمیشہ واضح نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص آن لائن میز فروخت کر رہا ہے اور کوئی خریدار بن کر آن لائن ادائیگی کرنے کی بات کرتا ہے۔

‘اس کے بعد وہ کہتا ہے اس نے ادائیگی کر دی ہے اور آپ کو ٹیکسٹ میسج کے ذریعہ ایک کوڈ ملے گا۔ یہ ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ہو گا۔ زیادہ تر صارفین اس کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں اور وہ اس شخص کو اس کوڈ کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔ پھر انھیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہی اکاؤنٹ سے پیسے نکل گئے۔‘

کیا بہتری آسکتی ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام نہ تو اپنے آپ میں محفوظ ہے اور نہ ہی شفاف۔ کاسمو بینک کے ساتھ ہونے والی دھوکہ دہی میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اتنے بڑے لین دین کے دوران سافٹ ویئر بے ضابطگیوں کو نہیں پکڑ سکا۔ جب تک فراڈ کا پتہ چلتا اس وقت تک بہت بڑا نقصان ہو چکا تھا۔

کسی معیار کی عدم موجودگی میں آن لائن پر پہلی بار لین دین کرنے والے صارفین کو بہت پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اے ٹی ایم مشینوں کو دیکھیں بہت ساری قسمیں ہیں اور ہر ادائیگی ایپ کا انٹرفیس مختلف ہے۔

ارون سوکمار بتاتے ہیں کہ اس میں ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ ان میں عمومی آگہی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اور پورے نظام کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

گوگل پے

سوکمار نے کہا: ’کی بورڈ استعمال کرنے والوں کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کوڈنکولم نیوکلیئر پلانٹ میں جس وائرس کا حملہ ہوا وہ وہاں ایک ملازم کی وجہ سے ہی پہنچا جس نے سسٹم کے کمپیوٹر کو وائرس زدہ یو ایس لگا دی۔ یہی کسی بینک یا مالی ادارے میں بھی ممکن ہے۔‘

حکومت کا کیا کردار ہے؟

پرشانتو رائے کے مطابق مالی لین دین کی حفاظت کی ذمہ داری صارفین پر نہیں بلکہ حکومت اور مالیاتی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’انڈیا میں جس رفتار سے انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر اسے صرف معلومات کے بھروسے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہیکروں پر نظر رکھنا ہر شخص کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ مسلسل اپنی حکمت عملی اور طریقے بدلتے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ریگولیٹرز پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی دھوکہ دہی کو روکیں۔‘

اس کے علاوہ مختلف سائبر سکیورٹی اداروں کے مابین باہمی رابطے کی رفتار بھی بہت سست ہے۔ کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سی ای آر ٹی) جو انڈیا کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی حفاظت کرتی ہے وہ بارہا بروقت معلومات فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے۔

لیکن انڈین حکومت کو اس مسئلے کا اندازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک 2020 کے لیے قومی سائبر سکیورٹی پالیسی تیار کر رہا ہے۔ اس میں چھ اہم شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں واضح پالیسی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ ان میں فنانس سکیورٹی بھی شامل ہے۔

پرشانتو رائے کے خیال میں ملک کے اندر ہر اہم شعبے کی اپنی ایک کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سی ای آر ٹی) ہونی چاہیے جن کے درمیان باہمی رابطے ہونے چاہیے اور حکومت کو کنوینر کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس صورت میں انڈیا کی بغیر نقدی کی معیشت کے خطرات کو مؤثر طور پر نمٹا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp