سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن روانگی: کیا پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز مایوس ہیں؟


عمران خان، نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج کی غرض سے برطانیہ چلے جانے کی ’ذمہ داری‘ جہاں واشگاف الفاظ میں ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے وہیں یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کی طرزِ سیاست پر بھی اثر انداز ہوتا نظر آ رہا ہے۔

ایک جانب پی ٹی آئی کے وہ رہنما جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں وہ اس فیصلے کے پارٹی ووٹرز اور سپورٹرز پر پڑنے والے ’مایوس کُن‘ اثرات کی حدت کو محسوس کر رہے ہیں وہیں سیاسی تجزیہ کار اس فیصلے کو تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کی سیاست کے لیے ایک ’بڑا دھچکا‘ قرار دے رہے ہیں۔

بی بی سی نے تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انھیں اس فیصلے کے بعد پارٹی کارکنان سے کس نوعیت کا ردِعمل موصول ہو رہا ہے۔

تحریک انصاف کے آنے سے فرق نہیں پڑا

سندھ اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیئر رہنما فردوس شمیم نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے بیانیے یا منشور کا اہم جزو ’دو نہیں ایک پاکستان‘ ہے یعنی طاقتور اور کمزور کے لیے علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک قانون۔

یہ بھی پڑھیے

وہ گیا نواز شریف!

کیا نواز شریف کے ساتھ ان کا مزاحمتی بیانیہ بھی چلا گیا؟

شریف برادران ملک سے باہر تو ن لیگ کی کمان کس کے پاس؟

فردوس نقوی کے مطابق ’نواز شریف صاحب کے کیس نے بہت بے رحمانہ طریقے سے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں اب بھی دہرا نظامِ قانون ہے اور تحریکِ انصاف کی حکومت آنے سے بھی فرق نہیں آیا، جس کا وعدہ ہماری جماعت نے عوام سے کیا تھا۔‘

نواز شریف

انھوں نے کہا کہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی باعث ہم نواز شریف کو باہر بھیجے جانے کے مخالف تھے اور اگر اب وہ چلے گئے ہیں تو انصاف اس بات کا متقاضی ہے کہ باقی قیدیوں کو بھی یہی سہولت دی جائے۔

’یہی ہمارا دو نہیں ایک پاکستان کا بیانیہ ہے جو حلقے کے ووٹرز بھی ہم سے کہہ رہے ہیں اور ہم بھی پارٹی قیادت سے کہہ رہے ہیں۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ اس حوالے سے جب وہ حلقے کے ووٹرز کی رائے پارٹی چیئرمین یا سینیئر رہنماؤں تک پہنچاتے ہیں تو ان کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟

فردوس نقوی نے بتایا ’ہم میں سے اتنا ناسمجھ کوئی بھی نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ نواز شریف صاحب کو پاکستان میں کچھ ہو جاتا تو سارا ملبہ موجودہ حکومت پر پڑتا، جس کی وجہ سے ہمیں ہمارے اہداف حاصل کرنے میں مزید دقت ہوتی۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ نے انھیں جانے دیا، تو ٹھیک کیا۔ مگر اب جیلوں میں موجود باقی قیدی جو اپنا علاج بیرونی ممالک سے کروانا چاہتے ہیں ان کو بھی اجازت دی جائے۔‘

’عوام میں اس فیصلے کا اچھا تاثر نہیں گیا‘

پاکستان تحریکِ انصاف پنجاب کے مرکزی رہنما اور ممبر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز میں نواز شریف کے چلے جانے سے کافی زیادہ مایوسی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مجرم کو جو کہ طاقتور تھا باہر جانے دیا گیا خواہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یا عدالتوں کے ذریعے۔

’عوام میں اس فیصلے کا کوئی بہت اچھا تاثر نہیں گیا۔ مجموعی طور پر ملا جلا تاثر ہے کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔‘

صحافی اور سیاسی تجزیہ کار عامر متین کہتے کہ نواز شریف کے جانے سے تحریک انصاف کی سیاست کو دھچکا اس لیے لگے گا کیوں کے ہر روز بڑے بڑے دعوے اور بیانات دیے جاتے تھے کہ ’جانے نہیں دوں گا، این آر او نہیں دوں گا، رلاؤں گا۔‘

انھوں نے کہا اور پھر دوسری طرف انھیں جانے کی اجازت وفاقی کابینہ ہی نے دی۔ ’اس سب سے عمران خان کے بیانیے اور ان کی عوامی سیاست کو دھچکا لگے گا۔‘

عمران

کیا تحریک انصاف کا بیانیہ اب بدے گا؟

فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے چلے جانے کے بعد بھی ’کرپشن پی ٹی آئی کا ایجنڈہ نمبر ون رہے گا۔ ہم اوپر سے شروعات صرف اس لیے کرنا چاہتے تھے کیونکہ جب تک بڑے نہیں پکڑے جائیں گے تو وہ چھوٹوں کو تحفظ فراہم کرتے رہیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’چار ہفتوں کی بات ہے، اب ایسا نہیں ہو گا کہ وہ پہلے کی طرح 10 سال کے لیے غائب ہو جائیں یا پرویز مشرف کی طرح جو دبئی چلے گئے اور یہاں انھیں ایک طاقتور ادارے نے تحفظ فراہم کیا ہوا تھا۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔‘

میاں محمود الرشید کے مطابق عمران خان کا بدعنوانی سے متعلق کیسز کے حوالے سے نقطہ نظر وہی رہے گا جو کہ ہے۔ ’شریف خاندان اور دیگر وہ لوگ جنھوں نے کرپشن کی ہے ان کے حوالے سے خان صاحب کی یہ خواہش ہو گی کہ احتساب جاری رہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عدلیہ کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ پاکستان میں انصاف کے حوالے سے جو تاثر بنا ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں نواز شریف کے جانے سے احتساب کا عمل سست نہیں ہو گا اور پی ٹی آئی کا اس حوالے سے فوکس نہیں بدلے گا۔

عامر متین کے مطابق پاکستان میں سیاست مسائل پر مرکوز تو رہ نہیں گئی۔ ’نواز شریف کا چلے جانا پی ٹی آئی کے لیے ایک طرح سے بہتر بھی ہے کیونکہ موجودہ سیاست میں یہ سوال زیادہ مشکل ہے کہ مہنگائی، انوائرمنٹ، توانائی یا زراعت جیسے مسائل کیسے اور کب حل ہوں گے بجائے اس کے کہ نواز شریف کب اور کیسے واپس آئیں گے؟‘

انھوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت بھی گذشتہ ادوار کی طرح گھسیٹتے گھسیٹتے اپنا وقت پورا کر لے گی۔

ماہر قانون اور سیاستدان عابد حسن منٹو کے مطابق عمران خان کی سیاست کا محور و مرکز ’نواز شریف اور شریف خاندان کی کرپشن تھا اور ’نواز شریف کا چلے جانا اس بیانیے کی واضح شکست ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp