جسٹس کھوسہ کا انتباہ، کپتان کی غیر محتاط گفتگو اور جنرل مشرف کا انجام


ایک آدمی کے ہاتھ کسی طرح الہٰ دین کا چراغ لگ گیا۔ اس نے چراغ رگڑا تو فوراً ایک دیو ہیکل جن یہ کہتا ہوا حاضر ہو گیا کہ کیا حکم ہے میرے آقا؟ اس پر خواہشات کے مارے شخص نے جن کو حکم دیا کہ میرے لیے فوراً ایک عالیشان محل تعمیر کرو۔ دوپہر کا وقت تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی۔ جن نے شاید بھرپور لنچ کے بعد کئی ڈرم لسّی کے بھی چڑھا رکھے تھے اس لیے سستی اور کاہلی کا شکار تھا اور کچھ وقت قیلولہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ہاتھ باندھ کر عرض پرداز ہوا کہ آقا کوئی اور حکم دیں۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ پھر وزیر اعظم پاکستان کی ایک گھنٹے پر مشتمل تقریر کے نام پر واہی تباہی سن کر مجھے بتاٶ کہ انہوں نے کہا کیا ہے؟ اس پر جن نے ایک لمحے کے لیے سر کھجایا اور بلا تامل بولا کہ آقا محل کا طول و عرض کتنا ہو؟

کوئی موقع ہو، کوئی مقام ہو، کوئی ملک ہو، کوئی شہر ہو اور کوئی تقریب ہو کپتان کو بے محل اور بے ربط طولانی و لایعنی تقریر کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کی کل والی یاوہ گوئی کی بازگشت ابھی فضا میں موجود تھی کہ جناب چیف جسٹس نے ان کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں محتاط گفتگو کرنے کی تلقین کی ہے۔ مگر وہ کپتان ہی کیا جو محتاط اور محدود گفتگو کر سکے۔ ان کی یہ عادت پختہ ہو چکی ہے کہ جو بات جہاں یاد آئے وہیں کہہ گزرو، خواہ نتائج کچھ بھی ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ طرز بلاول بھٹو میں جب وہ کم بات کرتے ہیں تو کم بے عزت ہوتے ہیں اور جب زیادہ بات کرتے ہیں تو زیادہ بے عزت ہوتے ہیں۔ جب سے مولانا نے آزادی مارچ پلس دھرنا دیا ہے کپتان کے ستارے لگتا ہے کچھ گردش میں آ گئے ہیں۔ جن چاند ستار ے والوں کے بل بوتے پر کپتان کو اقتدار ملا تھا، سنا ہے ان کے درمیان بھی بے شمار معاملات پر رسہ کشی چل رہی ہے۔ کپتان جن پتوں پر تکیہ کیے بیٹھے تھے وہ ہوا تو کب کے دے رہے تھے اب خیر سے جلتی پر تیل کا کام بھی کرنے لگے ہیں۔

سابق وزیر اعظم کو پچاس روپے کی خطیر رقم لے کر خود باہر بھیجا اور حکومت کب سے ان کی طرف سے ہمدردی اور رحمدلی کا چورن بھی بیچ رہی ہے مگر کپتان سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال کر موجو دہ اور مستقبل قریب کے چیف جسٹس صاحبان کا باقاعدہ نام لے کر انہیں بھاشن دے رہے ہیں کہ وہ نئے پاکستان میں کمزور اور طاقتور کے لیے آئین و قانون کے نفاذ کو عملاً یقینی بنائیں۔ یاد رہے کہ ان کے نزدیک طاقتور سے مراد ہمیشہ شریف خاندان اور ن لیگ رہا ہے جسے عدالتوں نے سیسلین مافیا، گاڈ فادر اور جانے کیا کیا کچھ کہا تھا۔

مگر اب شاید جسٹس کھوسہ کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ حقیقی سیسلین مافیا اور گاڈ فادر کون ہے۔ کپتان کے نزدیک موجودہ وزیر اعظم ہر گز طاقتور نہیں بلکہ نہایت بے بس اور کمزور ہے جس کے فار ن فنڈنگ اور پی ٹی وی حملہ کیس سمیت درجن بھر کیسوں کو آگے بڑھانا ایک نہیں دو پاکستان کی غمازی کرتا ہے۔ اس پر جسٹس کھوسہ نے انہیں بالکل ٹھیک اور بروقت آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اپنا قبلہ درست کرنے کا کہا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے بجا فرمایا کہ آج عدالتیں آزاد ہیں اور ہم نے تین وزرائے اعظم کو مختلف کیسوں میں اپنے عہدوں سے معزول اور نا اہل کیا ہے اور ایک سابق صدر کے خلاف بھی بہت جلد کیس کا فیصلہ آنے والا ہے۔

جہاں تک نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، حنیف عباسی، دانیال عزیز، طلال چودھری، نہال ہاشمی اور خواجہ برادران جیسے ”طاقتوروں“ کو سزائیں سنا ئے جانے کا تعلق ہے تو ملک کا کوئی ذی ہوش کمزور آدمی ایسے انصاف کی ہر گز تمنا نہیں کرے گا کیونکہ ان کیسز میں انصاف کے تقاضے بری طرح پائے مال ہوئے ہیں۔ کپتان شاید موجودہ چیف جسٹس سے بھی ثاقب نثار جیسے فوری چھاپا مار انصاف کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے کپتان پر لگنے والے بڑے بڑے الزام سے صرف نظر کر کے انہیں صادق و امین قراردیا اور آج لندن میں پر تعیش زندگی سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ لیکن اب شاید ہوا کا رخ بدل چکا ہے اور فارن فنڈنگ میں تو کپتان کی حکومت کے ساتھ پارٹی بھی ختم ہو جائے گی۔ جب کہ بنی گالہ محل کا جعلی این او سی جمع کرانے پر کپتان کو سات سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ سابق جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کا فیصلہ 28 نومبر کو متوقع ہے۔ اور آئین و قانون سے معمولی شغف رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ فیصلہ کیا آئے گا؟ جنرل مشرف کا ذکر خیر آیا ہے تو آخر میں مشرف کے بارے میں ایک جہاندیدہ سیاستدان (غالباً نوابزادہ نصر اللہ خاں ) کی یہ پیشن گوئی سن لیجیے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف وہ آخری آرمی چیف ہوگا جس نے مارشل لا مسلط کیا ہے اور پہلا آرمی چیف و ڈکٹیٹر ہو گا جس پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).