سعودی عرب کے گُل پوش: عسیر کے سرسبز پہاڑوں پر پھولوں کا تاج پہننے والے قحطانی مرد


سعودی عرب میں ایک علاقہ ایسا ہے جو سیلفی یا تصویر بنانے کے لیے ایک انتہائی مناسب جگہ ہے۔ یہاں سرسبز پہاڑوں کے بیچوں و بیچ ملک بھر سے آئے سیاحوں سے بھری گاڑیاں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں۔

لوگ گاڑیاں روک کر فوراً اپنے کیمرے اور بٹوے نکال لیتے ہیں۔ اپنی جیپ کے دروازے کھول کر بعض لوگ شہد اور پھل خریدنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں لیکن ادھر سب سے زیادہ مانگ لال اور نارنجی رنگ کے پھولوں سے بنے تاج کی ہوتی ہے۔

سیاح یہ پھولوں کے تاج پہن کر اپنی بہترین مسکراہٹ والی تصویر بنواتے ہیں جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہے۔

سعودی عرب کے پورے عسیر صوبے میں فروخت ہونے والے پھولوں کے تاج محض پیسے خرچ کرنے والے سیاحوں اور واپس اپنے اپنے شہر جا کر دوستوں کو متوجہ کرنے کا ایک طریقہ نہیں ہے۔

بلکہ یہ پھولوں کے تاج انتہائی باریک بینی کے ساتھ تیار کیے جانے والے روایتی پہناوے ہیں جنھیں یہاں کے ’گُل پوش‘ پہنتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پومپے کے کھنڈرات سے ’قیمتی خزانہ‘ برآمد

سعودی عرب کے ساحلوں پر لگژری سیرگاہیں

سعودی عرب کی پراسرار تہذیب کے راز جاننے کی کوشش

قحطانی مرد نہ صرف اس پر عمل پیرا ہیں اور خوبصورتی اور صحت کے لیے پھول اور بیلوں کو پہنتے ہیں بلکہ وہ اب اس روایتی تاج کو اس علاقے کی سیر کرنے والے سیاحوں کو بھی فروخت کرتے ہیں۔

آج قحطان قبیلہ زیادہ تر عرب کے جنوبی خطے میں بستا ہے لیکن ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جزیرہ نما عرب کا قدیم ترین سماج ہیں اور وہ یہ دعوی کرتے ہیں کے ان کا سلسلہ نسب پیغمبر ابراہیم کے بیٹے اسماعیل سے جا ملتا ہے۔

انھیں گُل پوش کے عرفی نام سے اس لیے پکارا جاتا ہے کیونکہ قحطانی مرد روایتی طور پر اپنے سروں پر انتہائی نزاکت سے تیار کردہ پھولوں، جڑی بوٹیوں اور گھاس کے تاج پہنتے ہیں۔

تحقیق کار تھیئری ماگر کے مطابق ان پھولوں کے تاج کو قبیلے کے نوجوانوں نے دوستانہ مقابلہِ حسن کے طور پر قبول کیا ہے اور اس میں وہ رنگ برنگے پھولوں کا اضافہ کر رہے ہیں جس میں گیندے، یاسمین اور دیگر پھول شامل ہیں۔

درمیانی اور ادھیڑ عمر کے لوگ ذرا سادگی مائل واقع ہوئے ہیں اور وہ اپنا تاج سبز پتوں اور جنگلی بیلوں سے بُنتے ہیں۔ بعض اسے ذوقِ جمال کے مظاہرے کے طور پر روزانہ پہنتے ہیں جبکہ کچھ اسے مخصوص مواقع پر پہنتے ہیں۔ انھیں اسلامی تہواروں کے موقع پر بھی پہنا جاتا ہے۔

بعض افراد ایسے بھی ہیں جو یہ تاج اس وقت پہنتے ہیں جب وہ بیمار ہوں۔ بیمار افراد کے لیے تیار ہونے والے تاج میں طبی خواص کی حامل جڑی بوٹیوں اور سبز رنگ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

لیکن صرف پھولوں کا تاج ہی انھیں دوسرے غالب سعودی تہذیب و ثقافت سے منفرد نہیں کرتا، جسے سعودی اشرافیہ نے مقبول بنا رکھا ہے۔

گل پوشوں کا آبائی علاقہ عسیر کا ہے جو کہ سطح مرتفع پر ہے اور وہاں سعودی عرب میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔

مئی اور جون میں ملک کے دیہی علاقوں کا درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے لیکن دارالحکومت ریاض سے 900 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع عسیر کے صوبے میں انجان سیاحوں کی اکثر اوقات ملاقات یخ بستہ ہواؤں اور شدید بارشوں سے ہوتی ہے۔

صوبہ عسیر میں واقع چوٹیاں ملک کی بلند چوٹیوں میں سے ہیں جہاں کے باشندوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر کاشتکاری کے لیے جگہ ہموار کر رکھی ہے جہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، کافی اور پھلوں کی کاشتکاری ہوتی ہے۔

قحطان قبیلے کی تاریخ

قحطان قبیلے کی ایک مشکل تاریخ رہی ہے۔

عربی زبان میں ’عسیر‘ کا مطلب ہی ’سخت‘ اور ’مشکل‘ ہوتا ہے اور مقامی لوک کہانیوں کے مطابق عسیر میں واقع قدرتی نشیب و فراز اس صوبے تک رسائی کو مشکل بناتے ہیں۔

تقریباً 350 سال قبل قحطانی خاندان کے افراد سلطنت عثمانیہ کی فوجوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں سے جان بچا کر سعودی عرب کے میدانی علاقے سے یہاں پہنچے تھے۔

آلِ سعود کی وفادار فوجوں کے قبضے کے بعد عسیر کا علاقہ سنہ 1932 میں سعودی عرب میں شامل کر لیا گیا۔

یہاں تک کہ 20ویں صدی کے اواخر تک پہاڑوں میں چھوٹے چھوٹے خود کفیل و خودمختار گروہوں کی شکل میں آباد قحطانی آبادیوں تک رسائی بہت مشکل تھی۔ مثال کے طور پر حبالہ نامی آبادی تک رسائی صرف رسی کی سیڑھیوں کے ذریعے ہی ممکن تھی۔

سنہ 1990 کی دہائی میں کیبل کار متعارف کرانے کے بعد ہی سعودی حکومت نے حبالہ نامی آبادی تک اپنی رسائی ممکن بنائی تاہم ایک سوال یہ تھا کہ آیا الگ تھلگ قبیلہ قومی دھارے میں شمولیت اختیار کر پائے گا اور کیا ان کی انوکھی ثقافت جدید عرب ثقافت کے سامنے قدم جما پائے گی۔

لیکن اس سب کے باوجود گُل پوشوں نے اپنے رسم و رواج کی حفاظت کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس مقامی رسم و روایت کے ختم ہونے کا خطرہ تھا اب وہی اس علاقے میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کا باعث ہے۔

سعودی عرب کے بلند ترین پہاڑ جبل السودہ کی پرپیچ چوٹی پر قائم چھوٹی چھوٹی دکانوں میں قحطانی دکاندار مقامی افراد اور سیاحوں کو بکری کا گوشت اور چاول کی ڈش پیش کرتے ہیں۔

حبالہ کے گائیڈ وہاں آنے والے سیاحوں کا استقبال رنگ برنگے دھاری دار لباس پہنے کرتے ہیں۔

ملک کے نسبتاً خشک اور زیادہ گرم علاقوں کے مقابلے میں قحطانی خواتین روایتی طور پر چست لباس پہنتی ہیں تاکہ جب درجہ حرارت میں کمی آئے تو وہ انھیں گرم رکھیں۔

ہر چند کہ وہ پھولوں والے سربند نہیں پہنتیں، لیکن ان کی اوڑھنیوں اور کپڑوں پر شوخ زرد، نیلے اور سرخ دھاگوں سے نقش و نگار بنے ہوتے ہیں۔

اس خطے میں جب آپ سفر کرتے ہیں تو آپ 200 برس قبل تعمیر کی گئی مٹی اور پتھر سے بنی عمارتوں پر رشک کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔ دیکھنے میں یہ بلڈنگز چھوٹی چھوٹی ’فلک بوس عمارتوں‘ جیسی نظر آتی ہیں۔

ایک دوسرے سے متصل ان گھروں کو دیکھ کر یمن کے شہر صنا اور شبام میں بنے اسی طرح کے گھروں کی جھلک ذہن میں آتی ہے۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید دور کی سرحدوں سے قبل یہ علاقے ثقافتی طور پر کس طرح ایک دوسرے سے منسلک تھے۔

علاقے میں آئے متجسس سیاح اُن ’میناروں‘ کو نظر بھر کر ضرور دیکھتے ہیں جو اب زیر استمعال نہیں مگر کسی زمانے میں پہرےداری کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ مینار رہائشی گھروں سے اونچے ہیں۔

ان عمارتوں کے ڈیزائن بے حد پیچیدہ فنِ تعمیر کے عکاس ہیں۔ یہ گھر اس طرح تعمیر کیے گئے ہیں کہ یہ عسیر کے گرم ماحول کو بخوبی برداشت کرتے ہیں، نکاسی کا نظام چھتوں کے اوپر پانی جمع ہونے سے روکتا ہے، اور گھروں میں اینٹیں اس طرح نصب کی گئی ہیں کہ وہ اپنے اندر گرمائش جذب کر لیتی ہیں اور آواز کو گونجنے سے بچاتی ہیں۔ گھروں کی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں اور اس پر گہرے رنگ کے نیلے بورڈر مچھروں اور ’بد روحوں‘ کو گھروں سے دور رکھتے ہیں۔

ان گھروں کے اندرونی حصے اتنے دلکش ہیں کہ دیکھنے والے کو مزہ آ جائے۔

مہمان خانہ جسے مجلس کہا جاتا ہے اس کی دیواروں پر چمکدار نیلے، ہرے، سرخ اور پیلے رنگوں سے ڈیزان بنے ہوئے ہیں جو اب عسیر کی شناخت بن گئے ہیں۔ یہ ڈیزائن سنہ 2017 کی اقوام متحدہ کی انسانی تاریخ کے ان اثاثوں کی فہرست میں شامل جنھیں چھوا نہیں جا سکتا ہے۔

ان پر بنے نقش، رنگوں کے شیڈز یہاں رہنے والوں کی عمر، جنس اور خاندان کے ہر فرد کے بارے میں معلومات دیتے ہیں۔ ان گھروں کی دیواروں کو ہر برس حج کے موسم میں رنگ کیا جاتا ہے۔ مصوری کا یہ کام مقامی خواتین کرتی ہیں۔ ہر سال مختلف عمر کے اپنے رشتے داروں کو اس عمل کا حصہ بنا کر اس فن کو نئی نسل کو منتقل کیا جاتا ہے۔

لیکن پہاڑوں کی چوٹی پر تعمیر کیے گئے الگ تھلگ پڑے ان دیہاتوں کے یہ گھر تقریبا خالی پڑے ہیں۔

بیسویں صدی کے آخری نصف میں اس خطے کو سیاحوں کے لیے کھولنے کی غرض سے سعودی حکومت نے یہاں کے مقامی رہائشیوں کو نئے علاقوں میں منتقل کر دیا تھا۔

حبالا جیسے گاؤں کے رہائشیوں کو نئے تعمیر ہونے والے علاقوں میں بھیج دیا گیا جہاں انھیں بہتر سہولیات میسر ہیں۔۔ ان کے دیہات اب سیاحت کے مرکز بن گئے ہیں جہاں سیاح عسیر کی ثقافت کا لطف اٹھا سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

قدیم زمانے کے لوگوں کی بھنگ سے آگاہی

ریاض کا لگژری ہوٹل ’سعودی شہزادوں کے لیے جیل‘ بن گیا

جمرود میں آثار قدیمہ کی اہم دریافت

گُل پیش مرد اپنے آبائی دیہاتوں میں عارضی طور پر لوٹتے ہیں تاکہ وہ سیاحوں کو یہاں کی ثقافت کی جھلک دکھا سکیں۔ وہ یہاں سٹیج پرفارمنس کرتے ہیں اور روایتی رقص کرتے ہیں تاکہ وہ سیاحت کے ذریعے اپنی معیشت کو نئی زندگی بخش سکیں۔

اور اس خطے کا تضاد یہ ہے کہ دھیرے دھیرے جو جدیدیت ہو رہی وہ روایتی زندگی کے اثرات کو ختم کر رہی ہے، لیکن سیاحوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اس ثفافت اور روایت کو زندہ رکھ سکتی ہے جو ختم ہونے کے قریب ہے۔ حبالا کے دلکش مناظر اور تنہائی کی شکار تاریخ کو سیاحوں کی بہت توجہ ملی ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قحطانی ثقافت بالکل ختم ہو گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے گُل پوش مرد اپنے خاندانوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سیاحت پر انحصار کرتے ہیں لیکن باہر سے آنے والوں کی اس خطے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا یہ اثر ہوا کہ مقامی لوگوں کو اپنی ثقافت اور روایت کو زندہ رکھنے کا ایک بہترین موقع ملا ہے۔

سعودی عرب میں سیاحت اور وژن 2030

تیل کے ذخیروں کے دم پر اپنے معیشت کو مضبوط کرنے والے سعودی عرب کے 2030 وژن میں یہ حدف رکھا گیا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں ملک کی معیشت کا مکمل انحصار تیل سے ہونے والی آمدنی پر کم کیا جائے اور معیشت کے لیے ثقافتی پروگرامز اور سیاحت کے شعبوں میں جان ڈالی جائے۔

سعودی حکومت نے تقریبا ایک ارب ڈالر قومی ورثے کے تحفظ کے لیے مختص کیے ہیں جن میں عسیر کے مقامات بھی شامل ہیں۔

سنہ 2017 میں آرٹ جمیل نامی تنظیم نے مقامی لوگوں کو ’عسیری مورال پینٹگز‘ بنانے کا ہنر سکھایا تھا جس کا مقصد مقامی سطح پر ایسے پرڈیوسر تیار کرنا ہے جو روایتی فن اور دستکاری کو زندہ رکھنے میں مدد کرسکیں۔

اسی طرح جدہ میں واقع دارا لحکمہ یونیورسٹی نے 2014 میں ایک پروجیکٹ شروع کیا تھا جس کا مقصد بھی یہی تھا کہ میڈیا، سائنس، آرٹ اور ٹیکنولوجی کا استمعال سے روایتی فن تعمیر کو زندہ رکھا جا سکے اور ساتھ ہی ساتھ عصری فن، مقامی ترقی اور کاشتکاری کو فروغ دی جائے۔

جب رات ہوجاتی ہے اور سیاحوں کی بسیں قریب کے ہوٹل کی طرف گامزن ہوتی ہیں تو حبالا جیسے پہاڑی دیہات پھر خالی ہو جاتے ہیں۔ اور ایک بار جب آپ وہاں سے چلے آتے ہیں تو آپ کو پھولوں کے تاج کی تازگی کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، پھول سوکھ جاتے ہیں، پتیاں ہلکے سے چھونے سے ٹوٹ جاتی ہیں اور تلسی اور چمیلی کی خوشبو ختم ہونے لگتی ہے۔

عسیر کی حالیہ معیشت کی ترقی کا محور مقامی تاریخ کا تحفظ رہا ہے لیکن امید کی جارہی ہے کہ اس طرح کے نئے اقدامات مقامی لوگوں کو خطے کی فروغ سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنائیں گے اور عسیر ثقافتی اعتبار ایک نایاب قدیم شہر کی شناخت برقرار رکھنے کے ساتھ روش مستقبل کا مالک بنے گا۔

دارالحکمہ یونیورسٹی میں شعبہ آرٹیکچر کی اینا کلنگمین کہتی ہیں کہ ‘حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی خطے کی اصل شناخت کا انحصار اس کے ماضی اور اس کے مستقبل پر ہوتا ہے۔‘

’اور اگر ہم ایک کو دوسرے پر تقویت دیتے ہیں یعنی ماضی کو مستقبل کے لیے اور مستقبل کو ماضی کے لیے نظر انداز کرتے ہیں تو اس کی شناخت متاثر ہوتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp